'بھٹو کے اس غریب دوست کی کہانی جس کی بیوہ کو بھٹو کی پارٹی نے آج تک نہیں پوچھا'

'بھٹو کے اس غریب دوست کی کہانی جس کی بیوہ کو بھٹو کی پارٹی نے آج تک نہیں پوچھا'



اپنے قلم سے جمہوری قدروں کی آبیاری اور آخری دم تک آمریت کے خلاف ڈٹے رہنے والے ممتاز صحافی، ادیب، محقق اور مترجم ستار ستار طاہر کی آج ستائیسویں برسی منائی جارہی ہے. مارشل لاء کا وائٹ پیپر اور زندہ بھٹو مردہ بھٹو سمیت ذولفقارعلی بھٹو پر 9 کتابیں تحریر کرنے والے ستار طاہر کی بیوہ آج کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبورہیں

اپنے قلم سے  ہر غیر جمہوری قوت کو للکارنے والے ستار طاہر یکم مئی 1940ء کو گورداسپور میں پیدا ہوئے۔  قیام پاکستان کے بعد وہ فیصل آباد منتقل ہو گئے۔ انہیں زمانہ طالب علمی سے لکھنے پڑھنے سے لگاؤ تھا،اسی شوق نے انہیں قلمکار بنا دیا۔

ستار طاہر نے 250 سے زائد کتابیں مرتب کیں اور  تین روسی کتب کا ترجمہ بھی کیا۔ اپنا قائداعظم ایک، دنیا کی سو عظیم کتابیں، زندہ بھٹو مردہ بھٹو، صدام حسین اور مارشل لاء کا وائٹ پیپر سمیت کئی کتابیں ستار طاہر کی پہچان بنیں۔ وعدے کی زنجیر اور میرا نام ہے محبت جیسی شہرہ آفاق فلموں کی کہانیاں بھی ستار طاہر کے قلم نے لکھیں۔


انہوں نے کئی اہم جرائد کے ادارتی فرائض انجام دیئے جن میں سیارہ ڈائجسٹ، قومی ڈائجسٹ، ویمن ڈائجسٹ اور کتاب کے نام سرفہرست ہیں ستار پر زندگی کے شب و روز کٹھن گزرے تاہم بحیثیت انسان قناعت پسندی اور اصول پسندی پر کبھی سمجھوتا نہ کیا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھٹو پر کتاب لکھنے کی پاداش میں انہیں جیل کی ہوا بھی کھانا پڑی۔

ستار طاہر نے عمر بھر جمہوری اصولوں کی پاسداری کی اور آمریت کے خلاف کھل کر لکھا، ستار طاہر نے 25 مارچ 1993ء کو لاہور میں وفات پائی۔ وہ اسلام پورہ لاہور کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں، حکومت پاکستان نے ستار طاہر کو 14 اگست 1996ء کو بعدازمرگ صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی دینے کا اعلان کیاتھا۔

ستار طاہر کی بیوہ توحید پارک گلشن روای میں رہائش پذیر ہیں۔  ستار طاہر کی بیوہ کو ملنے والا وظیفہ موجودہ حکومت کی جانب سے بند کردیا گیا ہے جبکہ بھٹوپر متعدد کتابیں لکھنے والے ستار طاہر کی بیوہ کی پیپلز پارٹی کی جانب سےبھی کوئی داد رسی نہیں کی جاتی اور وہ کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں،