بھارت کی لوک سبھا کے انتخابات میں منتخب ہونے والے 539 ارکان میں سے کم از کم 233 کے خلاف کوئی نہ کوئی مقدمہ درج ہے۔ ہو سکتا ہے، آپ کے لیے یہ خبر حیران کن ہو کہ کانگریس کے ایک قانون ساز قتل اور ڈکیتی سمیت 204 مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔
یہ انکشاف غیر سرکاری تنظیم ایسوسی ایشن آف ڈیموکریٹک ریفارمز نے کیا ہے جس کے مطابق بھارت کی نئی پارلیمان میں 40 فی صد سے زیادہ قانون ساز ریپ اور قتل سمیت متعدد دیگر مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، کامیاب ہونے والے 539 قانون سازوں کے ریکارڈ کی جانچ سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ مجرمانہ مقدمات کا سامنا کرنے والے افراد کی تعداد 2004 سے اب تک سب سے زیادہ ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی بھی دودھ کی دھلی نہیں۔ پارٹی کے منتخب ہونے والے 303 ارکان میں سے 116 مختلف نوعیت کے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں جب کہ ایک قانون ساز کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ بھی درج ہے۔
کانگریس کے 52 ارکان پارلیمان میں سے 29 کے خلاف مقدمات درج ہیں جب کہ ریاست کیرالہ سے کامیاب ہونے والے قانون ساز دیان کوریا کوس قتل اور ڈکیتی سمیت 204 مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔
ایسوسی ایشن آف ڈیموکریٹک ریفارمز کا کہنا ہے کہ مقدمات کا سامنا کرنے والے قانون سازوں کی تعداد گزشتہ ایک دہائی کے دوران دگنا ہوئی ہے جن میں سے کے 11 کے خلاف قتل، 30 پر گلا کاٹنے اور تین پر ریپ کا الزام ہے۔
بھارتی قانون کے تحت، دو سال یا اس سے زیادہ کی سزا پانے والے مجرموں کے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد ہے تاہم چند جرائم میں استثنیٰ حاصل ہے۔
انتخابات میں پہلی بار حصہ لینے والے امیدوار پر عموماً یہ قانون لاگو نہیں ہوتا۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ گزشتہ دور حکومت میں 185 ارکان مختلف نوعیت کے مقدمات کا سامنا کر رہے تھے لیکن کسی ایک کو بھی سزا نہیں ہوئی جب کہ متعدد دوبارہ کامیاب ہو کر پارلیمان کا حصہ بن گئے ہیں۔