پاکستان میں آج کل ترکش ڈرامہ سیریز ارطغرل غازی بہت مقبول ہو رہی ہے۔ یہ سیریز سلطنتِ عثمانیہ کے بانی عثمان خان کے والد ارطغرل ’غازی‘ پر بنائی گئی ہے۔ بہت سے لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ اگر عثمانی سلطنت کا بانی ارطغرل تھا تو پھر اسے عثمانی سلطنت کیوں کہا جاتا ہے؟ تاریخ دان اس کی دو وجوہات بیان کرتے ہیں۔ پہلی تو یہ ہے کہ جس وقت 1282 عیسوی میں ارطغرل کا انتقال ہوا، اس وقت تک یہ قبائل جن کی قیادت ارطغرل کے ہاتھ میں تھی، ایک آزاد حیثیت نہیں رکھتے تھے بلکہ سلطان علاء الدین سلجوقی کے زیرِ سایہ تھے اور ارطغرل مرنے تک سلطان علاء الدین کا وفادار رہا۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ عثمان کے ارطغرل ہی کی اولاد ہونے کے متعلق بھی کچھ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔ عام طور پر یہی مانا جاتا ہے کہ عثمان ارطغرل کا بیٹا تھا لیکن اس حوالے سے شکوک و شبہات موجود ہیں۔ عثمانی سلطنت عثمان خان اول سے شروع ہوتی ہے، جس کی اولاد نے اگلی تین چار صدیوں میں عثمانی سلطنت کو دنیا کی طاقتور ترین سلطنت میں تبدیل کر دیا۔
ارطغرل کی حکومت کتنی وسیع تھی؟
یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ارطغرل کی پوری زندگی میں اس کے زیرِ انتظام علاقہ دو ہی قصبوں پر مشتمل تھا: سوغوت اور نبی شہر۔ آج جب کہ ان دو شہروں کے درمیان سڑک بن چکی ہے تو ان کا درمیانی فاصلہ بذریعہ سڑک 86.4 کلومیٹر ہے۔ یعنی اگر آپ شاہدرے سے بذریعہ جی ٹی روڈ جا رہے ہوں تو گوجرانوالہ سے کافی پہلے ہی ارطغرل کے زیرِ اثر علاقہ ختم ہو جائے گا۔
1939 میں سید سلیمان ندوی کے زیرِ انتظام ادارے دارالمصنفین سے چھپنے والی ڈاکٹر محمد عُزیر کی مرتب کردہ تاریخِ سلطنتِ عثمانیہ، جو کہ ارطغرل سے لے کر سلطنتِ عثمانیہ کے اختتام تک تمام سلاطین کا احاطہ کرتی ہے، اس کی جلد اول میں ارطغرل کے لئے محض اڑھائی صفحات مختص کیے گئے ہیں۔ ڈاکٹر عزیر لکھتے ہیں کہ چنگیز خان کے ہاتھوں سلطنتِ خوارزم کی تباہی کے بعد ترک قبائل جنوب کی طرف بھاگے اور ایران اور شام میں پہنچے۔ بعد ازاں وہ مصر کے مملوک سلاطین سے الجھے لیکن یہاں انہیں شکست ہوئی، اور وہ واپس ایشیائے کوچک میں سلجوقیوں سے آ ملے۔
ارطغرل کی کامیابیوں کا سفر کہاں سے شروع ہوا؟
انہی ترکی قبائل میں جو چنگیز خان کے حملے کے بعد مارے مارے پھر رہے تھے، ارطغرل کے باپ سلیمان شاہ کا قبیلہ بھی تھا۔ دریائے فرات کو عبور کرتے ہوئے سلیمان شاہ ڈوب گیا اور زیادہ تر قبیلہ تبھی منتشر ہو گیا لیکن کچھ لوگ جو ساتھ رہ گئے تھے وہ ارطغرل اور اس کے بھائی دوندار کی سرکردگی میں شام کی طرف بڑھے اور علاء الدین سلجوق کی سلطنت میں داخل ہو گئے۔
یہ جماعت قونیہ کی جانب سفر کر رہی تھی کہ انگورا کے قریب دو فوجیں برسرِ پیکار نظر آئیں۔ ارطغرل نے ان میں سے کم تعداد والی فوج کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور محض 440 گھڑ سواروں کے ساتھ زیادہ تعداد والے لشکر پر اس قوت سے حملہ آور ہوا کہ اسے میدان چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ انعام میں علاء الدین نے اسے یہ علاقہ دے دیا۔ یہ علاقہ بازنطینی سلطنت کی سرحد کے قریب تھا، اس لئے ارطغرل کو کئی بار چھوٹی موٹی لڑائیوں کا سامنا رہتا۔ بعد ازاں نبی شہر اور بروصہ کے درمیان ایک جنگ کے دوران اس نے منگولوں اور بازنطینیوں کے خلاف بڑی کامیابی حاصل کی تو یہ علاقہ بھی اس کو دے دیا گیا اور اس پوری جاگیر کا نام سلطانونی رکھا گیا۔
ارطغرل اور عثمانی سلطنت
یاد رہے کہ اس چند مربع میل کے فاتح شدہ علاقے میں بھی چھوٹے موٹے کئی قلعے تھے جو بازنطینیوں کے پاس ہی تھے اور ارطغرل اور اس کے بعد عثمان خان بھی ان قلعوں کے حصول کے لئے مدتوں جنگیں لڑتے رہے۔ قریب 90 سال کی عمر میں ارطغرل کا انتقال ہوا تو اس وقت اس کی کل کامیابی بس یہ دو گاؤں اور ان کا درمیانی علاقہ ہی تھا۔ تاہم، اس کے بعد عثمان نے اس علاقے کو وسعت دی اور اگلے چند سالوں میں عثمانی اپنی قوت کو بڑھاتے بڑھاتے اس سطح پر لے گئے کہ نہ صرف سلطان محمد فاتح کے دورِ حکمرانی کے آغاز میں قسطنطنیہ فتح کیا گیا بلکہ سلیمان قانونی کی فوجیں تو آسٹریا کے شہر ویئینا تک جا پہنچیں۔ بحیرہ روم میں اس کی قوت کا کوئی جوڑ نہیں تھا، اور وہ بجا طور پر خود کو قیصرِ روم کہلانے کا حقدار سمجھتا تھا۔
عثمانی سلطنت کا زوال
تاہم، اگلی چند صدیوں کے دوران عثمانی سلطنت اپنی شان و شوکت برقرار نہ رکھ سکی۔ پرنٹنگ پریس کی ایجاد اور امریکہ کی دریافت سے یورپ کے ہاتھ علم اور قدرتی وسائل کے جو نئے خزانے لگے، عثمانی ان کا مقابلہ نہ کر سکے اور بتدریج کمزور ہوتے چلے گئے۔ انیسویں صدی میں ایک وقت یہ بھی آیا کہ روسی سلطنت کے خلاف عثمانیوں کے دفاع کی واحد گارنٹی برطانیہ اور فرانس تھے۔ اس گھٹتی طاقت کو بحال کرنے کے لئے عثمانی خلفا نے کئی کوششیں کیں۔ ریاست کو سیکولر بنایا تاکہ اس کے یورپی علاقوں میں مسیحی اس سے خوش رہیں، فوج اور قوانین میں اصلاحات کیں، یہاں تک کہ مذہبی اصلاحات بھی کی گئیں لیکن کوئی بھی حربہ اس سکڑتی سلطنت کی ماضی جیسی عظمت بحال نہ کر سکا۔
جنگِ عظیم اول کے وقت عثمانی سلطنت کی حالتِ زار
بیسویں صدی کے آغاز تک نوبت یہ آ چکی تھی کہ عثمانیوں کو یورپ کا مردِ بیمار کہا جاتا تھا۔ سیاسی کشمکش اور جنگِ عظیم اول سے قبل پانچ سال کے عرصے میں بار بار حکومتوں کی coup کے ذریعے تبدیلیوں نے ریاست کو کھوکھلا کر دیا تھا۔ تاہم، ان سالوں میں جرمنی نے ترکی کی فوج کو جدید خطوط پر استوار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ جنگِ عظیم شروع ہوئی تو ترکی جرمنی کے اتحادی کے طور پر لڑا اور بری طرح سے شکست کھا گیا۔ لیکن اس دوران ایک لیفٹننٹ کرنل مصطفیٰ کمال نے گیلی پولی کے مقام پر ہونے والی جنگ میں اعلیٰ قیادت کا مظاہرہ کر کے عوام کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔
مصطفیٰ کمال پاشا کی جنگی اور سیاسی قابلیت
بعد ازاں مصطفیٰ کمال پاشا نے Turkish National Movement کی بھی قیادت کی اور ترکی کے بٹوارے کے خلاف جدوجہر کا آغاز کیا۔ اس نے انقرہ میں ایک متوازی حکومت قائم کی اور اس کی مزاحمت کو ختم کرنے کے لئے جو اتحادی افواج بھیجی گئیں، ان کو بھی شکست دی۔ 1922 میں یونانی افواج کے خلاف Turkish National Movement کی مزاحمت کا رہنما بھی مصطفیٰ کمال تھا۔ بالآخر جولائی 1923 میں اتحادی ملکوں، بادشاہت کے حمایتیوں اور چھوٹے چھوٹے شہروں میں موجود علیحدگی پسندوں کی کئی افواج کو شکست دینے کے بعد مصطفیٰ کمال کی مزاحمت رنگ لائی اور اتحادی افواج نے ترکی کی ریاست اور اس کی سرحدوں پر اس کے باسیوں کا حق تسلیم کر لیا۔ 29 اکتوبر 1923 کو ترکی ایک جمہوریہ قرار دے دیا گیا، خلافتِ عثمانیہ ختم ہوئی اور اگلے ہی برس سابق سلطان سمیت 150 لوگوں کو دیس نکالا دے دیا گیا۔
مصطفیٰ کمال کی اصلاحات
مصطفیٰ کمال جمہوریہ ترکی کا پہلا صدر بنا۔ اگلے 15 برس میں اس نے ترکی کو جدید خطوط پر استوار ایک ریاست میں تبدیل کرنے کے لئے مذہبی و معاشرتی اصلاحات کیں۔ 1924 میں ترکی کو ایک نیا آئین دیا۔ اس نے مذہب کے سیاسی استعمال پر پابندی لگا دی۔ اس نے عربی قرآن کی جگہ ترک زبان میں قرآن کے ترجمے کو لازمی قرار دیا اور اذان کو بھی ترک زبان میں دینے کا حکم دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ ترکی کے لوگ گذشتہ کئی صدیوں سے قرآن کو سمجھے بغیر اس پر ایمان لا رہے تھے لیکن اسے ترکش زبان میں ترجمہ کرنے سے عوام کو اپنے دین کی سمجھ آئے گی۔ اس نے جمعہ اور ہفتہ کی جگہ ہفتہ اور اتوار کو چھٹی کا دن قرار دیا۔ اس نے خواتین کو ووٹ کا حق دیا، جو کہ اس دور میں بہت کم ملکوں کی خواتین کو حاصل تھا۔ اس نے شریعت کورٹس کو ختم کر کے جدید عدالتی نظام قائم کیا۔ اس کے دور میں قانون میں اصلاحات کی گئیں، سول کوڈ اور پینل کوڈ میں جدت لائی گئی۔
غرضیکہ اپنے 15 سالہ دورِ اقتدار میں اور اس سے قبل آزادی کی جنگ کے دوران اس نے یورپ کے مردِ بیمار کی اقوامِ عالم میں عزت بحال کی۔
قائد اعظم اور علامہ اقبال کی مصطفیٰ کمال اتاترک کے بارے میں رائے
قائد اعظم محمد علی جناح اتاترک کی شخصیت سے بے انتہا متاثر تھے۔ وہ اس کی زندگی پر لکھی گئی کتاب Grey Wolf کے بارے میں اتنی بات کرتے تھے کہ ان کی بیٹی ڈینا واڈیا نے انہیں پیار سے Grey Wolf کہنا شروع کر دیا۔ قائد کو لگتا تھا کہ ان کے خیالات مصطفیٰ کمال کے خیالات سے بہت ملتے ہیں۔
علامہ اقبال نے بھی اپنی کتاب The Reconstruction of Islamic Thought میں ترکی کے نئے نظامِ حکومت کو نہ صرف سراہا ہے بلکہ اس کی پارلیمنٹ کو اجتہاد کا بہترین ذریعہ قرار دیتے ہوئے اسے اسلام سے مکمل طور پر ہم آہنگ قرار دیا ہے۔
آپ کا ہیرو کون؟
آج جب کہ ترکی رجب طیب اردوان کے دورِ اقتدار میں مصطفیٰ کمال کی تشکیل دی گئی جدید ترک ریاست سے دوری اختیار کر رہا ہے تو پاکستان میں بھی عمران خان مدینہ کی ریاست کا نام استعمال کر کے ملک کو جدت اور آزاد خیالی سے دور لے جانے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
اب فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ ہمارا ہیرو 90 سال کی زندگی میں دو قصبوں کو اپنے زیرِ انتظام لانے والا ایک تیرھویں صدی کا قبائلی سردار ہے جس میں سے ترک حکومت ڈراموں کے ذریعے ایک افسانوی ہیرو تراشنے کی کوشش کر رہی ہے یا پھر ترک ریاست کو جدید خطوط پر استوار کر کے اس کو دوبارہ دنیا کی ایک اہم طاقت بنانے والا مصطفیٰ کمال اتاترک جو مفکرِ پاکستان علامہ اقبال اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح دونوں کے نزدیک ہیرو کا درجہ رکھتا ہے؟