Get Alerts

6 ماہ کی تاخیر سے مُقرر کردہ علی وزیر کی درخواستِ ضمانت سوموار تک موخر اور بینچ تبدیل

6 ماہ کی تاخیر سے مُقرر کردہ علی وزیر کی درخواستِ ضمانت سوموار تک موخر اور بینچ تبدیل
روزانہ صُبح 7 بجے اُٹھ کر اخباریں پڑھنا معمول ہے جس کے بعد شاور لے کر وی لاگ ریکارڈ کرکے دفتر چلا جاتا ہوں لیکن آج سُپریم کورٹ میں 679185 پاکستانی شہریوں کے شہر جنوبی وزیرِستان کے مُنتخب نمائندہ علی وزیر کی درخواستِ ضمانت سماعت کے لیے مُقرر تھی تو آنکھ کُھلتے ہی شاور لینے چلا گیا اور اُس کے بعد ناشتہ کرکے 8:40 پر سُپریم کورٹ کے لیے روانہ ہوا۔ معلوم تھا کہ سندھ ایڈیشنل پراسیکیورٹر جنرل راحت احسن نے سماعت موخر کرنے کی درخواست دائر کررکھی جِس کی وجوہات بھی بہت مضحکہ خیز ہیں مگر کورٹ روم نمبر 4 میں بیٹھ کے 3 رُکنی معزز بینچ کا رویہ دیکھنا چاہتا تھا۔ اور یہ رویہ دیکھنے کی وجوہات بہت ہی دلچسپ ہیں جو آگے چل کر بیان کروں گا۔

9 بجے سُپریم کورٹ کی پارکنگ میں کار چھوڑتا عمارت کے داخلی دروازے پر پہنچا تو سابقہ پی ٹی ایم اور موجودہ نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے چیئرمین ایم این اے مُحسن داوڑ اپنے ساتھی سے کورونا فیس ماسک طلب کررہے تھے۔ مُحسن داوڑ نے پوچھنے پر بتایا کہ علی وزیر کی نمائندگی عدالت میں صلاح الدین گنڈاپور ایڈوکیٹ کریں گے۔ این اے 48 سے مُنتخب رُکنِ قومی اسمبلی مُحسن داوڑ سے گپ شپ کرتا پہلی منزل پر واقع کورٹ روم نمبر 4 میں داخل ہوا تو نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے 2 رہنما افراسیاب خٹک اور بُشریٰ گوہر لگ بھگ ایک درجن پختون کارکنوں کے ساتھ پہلے سے ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ سب کو سینے پر ہاتھ رکھ کر سلام کرتا کمرہِ عدالت کی دائیں جانب موجود نشست پر بیٹھ گیا۔

تھوڑی ہی دیر میں کمرہِ عدالت میں ساتھی صحافی اختر حُسین، حسن ایوب اور عمران وسیم بھی آگئے۔ حسن ایوب نے دیکھتے ہی مُسکرا کر کہا علی وزیر کی درخواستِ ضمانت رپورٹ کرنے آگئے ہو لیکن پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے التوا کی درخواست دائر کررکھی ہے۔ بینچ کی تشکیل اور علی وزیرِ کی شخصیت اور کیس کا پسِ منظر بہت دلچسپ ہیں۔ سندھ ہائیکورٹ نے خیبر پختونخوا کے پختون رُکنِ قومی اسمبلی کی درخواستِ ضمانت مُسترد کردی تھی اور اب بال 2 پنجابی ججز جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس امین الدین خان سمیت بلوچستان سے سُپریم کورٹ آئے پشتون جج جسٹس جمال مندوخیل پر مُشتمل 3 رُکنی بینچ کے کورٹ میں تھی۔ جِس صوبہِ سندھ میں علی وزیر قید ہیں نہ تو وہاں کا کوئی معزز جج بینچ کا رُکن تھا اور نہ ہی علی وزیر کے گھر خیبر پختونخوا کا کوئی معزز جج بینچ کا رُکن تھا۔ 9 بجکر 30 منٹ پر کورٹ آگئی ہے کی آواز لگی کمرہِ عدالت میں موجود ہر شخص احترام میں کھڑا ہوگیا اور معزز ججز کمرہِ عدالت میں آگئے۔ 3 رُکنی بینچ کے سربراہ اور سُپریم کورٹ کے ججز کی سنیارٹی لِسٹ میں چوتھے نمبر پر موجود جسٹس سردار طار مسعود درمیان میں جبکہ سنیارٹی لِسٹ میں 12ویں نمبر پر موجود جسٹس امین الدین خان اُنکے دائیں ہاتھ اور سنیارٹی لِسٹ میں 14ویں نمبر پر موجود جسٹس جمال خان مندوخیل اُنکے بائیں ہاتھ بیٹھ گئے۔

کمرہِ عدالت میں سب سے پہلے علی وزیر کے کیس کی آواز لگی تو اُنکے وکیل صلاح الدین گنڈاپور ایڈوکیٹ اُٹھ کر وُکلا کے لیے مخصوص روسٹرم پر آگئے اور انہوں نے معزز بینچ کو مُخاطب کرکے کہا کہ یہ ایک مُنتخب رُکنِ قومی اسمبلی اور پاکستان کے شہری کی آزادی کی معاملہ ہے جو پہلے ہی بہت تاخیر سے مُقرر ہوا ہے اور اب پھر اِس میں التوا مانگا جارہا ہے۔ بینچ کے سربراہ جسٹس سردار طارق مسعود نے انتہائی دھیمی آواز میں آرڈر لکھوایا اور پھر سر اُٹھا کر صلاح الدین ایڈوکیٹ سے استفسار کیا یہ سندھ کا کیس ہے ناں؟ علی وزیر کے وکیل نے اثبات میں جواب دیا تو معزز جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ ٹھیک ہے سوموار کو آجائیں۔

مُختصر سماعت کے بعد کمرہِ عدالت سے باہر نکل کر کار تک آتے اور واپس گھر کے راستے میں علی وزیر کیس پر خیالات اور واقعات کی ایک فلم دماغ میں چلنے لگی۔ ٹھیک 20 دن بعد اگلے ماہ 16 دسمبر کو علی وزیرِ کی گرفتاری کو پورا ایک سال ہو جائے گا۔ 679185 نفوس پر مُشتمل جنوبی وزیرستان کے مُنتخب نمائندہ علی وزیر 345 دِن سے کراچی کی جیل میں قید ہیں۔ تقریر میں پاک فوج بارے سخت زُبان استعمال کرنے پر پابندِ سلاسل علی وزیر نے 2018 کے عام انتخابات میں 27 امیدواروں کو بھاری مارجن سے شِکست دی تھی۔ علی وزیر کے ٹرائل کے حقائق اور یکم جولائی 2021 کو آرمی چیف جنرل قمر جادید باجوہ کی طرف سے پارلیمانی رہنماؤں کو بریفنگ میں علی وزیر پر درج ایف آئی آر پر کی گئی گفتگو اِس کیس کو بہت غیر معمولی بناتی ہے۔

علی وزیر 16 دسمبر 2020 کو آرمی پبلک اسکول پشاور میں شہید کیے گئے 132 بچوں سمیت 139 شُہدا کی برسی کی تقریب میں شرکت سے واپس جارہے تھے تو اُنکو پشاور سے سندھ پولیس کی درخواست پر گرفتار کرکے کراچی مُنتقل کردیا گیا جہاں سہراب گوٹھ تھانہ میں اُن پر جلسے میں پاک فوج بارے سخت زُبان کے استعمال کی ایف آئی آر درج تھی۔ سابقہ قبائلی علاقہ جات میں دہشت گردی کی ناقد آواز رُکنِ قومی اسمبلی علی وزیر کی گرفتاری کے لیے اُس دن کا انتخاب کیا گیا جِس دِن انہی عسکریت پسندوں کے ہاتھوں ہمارے شہید بچوں کی چھٹی برسی تھی۔ شہدا کے لیے منعقدہ تقریب میں شہید بچوں کا غم بانٹنے آئے ہوئے علی وزیر کی گرفتاری سے ریاست نے معلوم نہیں شُہدا کے والدین کو کیا پیغام دیا۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں علی وزیر کی گرفتاری کے لیے صرف ریاست کا ہی نام کیوں لے رہا ہوں؟ سندھ پولیس سندھ حکومت کے ماتحت ہے اور انہوں نے ایف آئی آر درج کی تو سندھ حکومت کا نام لوں لیکن بات اتنی سادہ نہیں ہے۔ سندھ میں حکمران جماعت پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے واضح الفاظ میں بتایا تھا کہ علی وزیر پر ایف آئی آر کے اندراج سے لے کر اُنکی گرفتاری تک سندھ کے مُنتخب وزیرِاعلیٰ کو نہ تو اعتماد میں لیا گیا اور نہ ہی اُن سے اجازت لی گئی۔ ماتحت عدالت سے علی وزیرِ کی درخواستِ ضمانت خارج ہوئی تو علی وزیر نے 18 فروری 2021کو سندھ ہائیکورٹ سے رجوع کیا اور 6 مارچ 2021 کو سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس احمد علی شیخ نے سماعت کے بعد علی وزیرِ کی ضمانت پر فیصلہ محفوظ کرلیا جو حیران کُن طور پر 3 ماہ تک نہیں سُنایا گیا۔ 3 ماہ بعد یکم جون 2021 کو علی وزیر کی ضمانت مُسترد کرنے کا فیصلہ سندھ ہائیکورٹ نے جاری کردیا۔

قانونی ماہرین اور سیاسی مُبصرین کے لیے درخواستِ ضمانت کا فیصلہ کرنے میں سندھ ہائیکورٹ کا 3 ماہ کی تاخیر کرنا بہت معنی خیز تھا۔ سندھ ہائیکورٹ سے مایوس ہونے کے بعد رُکنِ قومی اسمبلی علی وزیر نے سُپریم کورٹ سے جون ہی کے ماہ میں رجوع کیا لیکن 6 ماہ تک اُنکی درخواستِ ضمانت سماعت کے لیے مُقرر ہی نہیں ہوئی۔ اِس دوران یکم جولائی کو جب پاکستان کی پارلیمانی جماعتوں کے اہم رہنماؤں کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور اُس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے جب قومی اسمبلی میں بریفنگ دی تو ن لیگ کے سابق وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی اور پیپلزپارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا علی وزیر کی حراست پر مُکالمہ بھی ہوا تھا۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے آرمی چیف سے عرض کیا کہ برائے مہربانی علی وزیر کو چھوڑ دیں، علی وزیر کو جِس تضحیک آمیز انداز میں ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کیا جاتا ہے وہ دیکھ کر مُجھے اتنا بُرا لگتا ہے تو سوچئیے علی وزیر کے حلقے کے لوگوں کو کتنی تکلیف ہوتی ہوگی یہ دیکھ کرکہ اُنکے ووٹوں سے مُنتخب نمائدہ کو یہ عزت مل رہی ہے لیکن آرمی چیف نے شاہد خاقان عباسی کی درخواست یہ کہہ کر رد کردی کہ سابق وزیرِاعظم نوازشریف نے میرے خلاف تقریر کی لیکن میں نے کوئی ایکشن نہیں لیا لیکن اگر کوئی پاک فوج کے خلاف تقریر کرے گا تو ہم اُسے نہیں چھوڑیں گے۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے مُنتخب رُکنِ اسمبلی علی وزیر کی رہائی کے لیے شرط رکھی کہ وہ پاک فوج سے معافی مانگ لیں تو رہائی مل جائے گی۔ اِس کے بعد پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے 4 مُختلف زاویوں سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی منت کی کہ وہ علی وزیر کو رہا کردیں۔ بلاول بھٹو نے آرمی چیف کو پہلی دلیل دی کہ علی وزیرلاکھوں لوگوں کا مُنتخب نمائندہ ہے اور ایک مُنتخب نمائندے کے ساتھ یہ سلوک دراصل اُن کے علاقے کے مینڈیٹ کی توہین بھی ہوتی ہے۔ آرمی چیف نہ مانے تو بلاول بھٹو نے اُنہیں قائل کرنے کے لیے کراچی کی آبادی کی لسانی تقسیم کا حوالہ دیا اور کہا پختون کراچی میں دوسری بڑی آبادی بنتے جارہے ہیں اور ایسے میں ایک پختون کا سندھ کی سرزمین پر قید ہونا دراصل پاکستان کی وفاق کی اکائیوں کے لیے ایک بہت بُرا پیغام ہے مگر اُنکی یہ دلیل بھی آرمی چیف نے نہ مانی تو بلاول بھٹو نے آرمی چیف کو حوالہ دیا کہ علی وزیر کے گھر سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتنے جنازے اُٹھے ہیں اُنکے 2 بھائی، والد، چچا اور متعدد کزنز کو دہشتگردوں کے حملوں میں شہید کیا گیا ہے تو علی وزیر اِس وجہ سے بھی بہت جذباتی گفتگو کرتے ہیں کیونکہ اُن کے گھرانے نے براہِ راست اِس جنگ کی قیمت اپنے خون سے ادا کی ہے لیکن آرمی چیف نے اُنکی یہ بات ماننے سے بھی انکار کرتے ہوئے کہا کہ ہماری فوج میں بھی ہزاروں جوانوں نے شہادتیں دی ہیں۔

آخر میں بلاول بھٹو نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو علی وزیرِ کی بوڑھی ماں کا واسطہ دیا کہ وہ بہت دُکھی ہیں کہ شوہر اور 2 بیٹے شہید ہوگئے جبکہ تیسرا علی وزیر جیل میں بند کر دیا گیا ہے اور دُکھی ماں اپنے بیٹے علی وزیر کی رہائی کے لیے فریاد کررہی ہے لیکن آرمی چیف نے پاک فوج سے معافی کی شرط پر اصرار کرتے ہوئے علی وزیر کی جیل سے رہائی کے امکان کو مُسترد کردیا۔

پارلیمانی رہنماوں کو عسکری قیادت کی دی گئی بریفنگ میں موجود ایک ن لیگی ذریعے نے راقم کو بتایا کہ جتنی بحث علی وزیر کے بلاول بھٹو نے کی اتنی شاید میں اپنے کسی ن لیگی رُکنِ اسمبلی کے لیے بھی نہ کرسکتا۔ پاکستانی اسکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی اِس ہی ناراضگی کو ذہن میں رکھتے ہوئے شاید اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اپوزیشن کی درخواستوں کے باوجود قومی اسمبلی کے اہم اجلاسوں میں علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کرتے جِس وجہ سے پچھلے ایک سال سے پاکستان میں ہوئی تمام قانون سازی میں جنوبی وزیرستان کے عوام کو رائے اور ووٹ سے محروم کردیا گیا ہے۔ ایک مُنتخب قومی نمائندہ ایک سال سے صرف ایک تقریر کے جُرم میں قید ہے اور پی ٹی آئی کے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اُنکے اجلاس میں شرکت کے پروڈکشن آرڈر تک جاری کرنا گنوارا نہیں کرتے ہاں مگر ٹی ایل پی کے جنونی جتھے ریاست کی رٹ کے لیے ڈٹے ہوئے درجنوں پولیس اہلکاروں کو شہید اور سیکڑوں کو زخمی بھی کردیں تو ریاست نہ صرف اُن کے آگے اپنی رِٹ سرینڈر کرتی ہے بلکہ اُن کے تمام کارکنوں اور سربراہ سعد رضوی کو بغیر کسی کیس میں چالان کیے باعزت رہا کردیتی ہے اور شہید پولیس اہلکاروں کے ورثا کے زخموں پر مزید نمک چھڑکنے کے لیے حُکمران پی ٹی آئی کے سینیٹر اعجاز چوہدری پھولوں کا گُلدستہ لے کر سعد رضوی کے گھر مُبارک باد دینے بھی جاتے ہیں، جیسے وہ پاکستانی پولیس اہلکاروں کو شہید کرکے نہیں بلکہ بھارتی فوج کے قبضے سے کشمیر آزاد کروا کر وطن واپس لوٹے ہیں۔

ستم ظریفی دیکھیے ایک طرف ریاست کی رِٹ کو جوتے کی نوک پر لکھنے اور درجنوں پولیس اہلکاروں کو شہید کرنے والوں کے لیے یہ پروٹوکول اور دوسری طرف ایک سال سے جیل میں قید عوام کے مُنتخب نمائندے علی وزیر کی رہائی کے لیے ایک تقریر کرنے پر معافی مانگنے کی شرط، کیا سعد رضوی اور ٹی ایل پی سے بھی کوئی معافی منگوائی گئی۔ بالآخر علی وزیر کے وکیل نے جلد سماعت کی خصوصی درخواست 2 نومبر 2021کو دائر کی تو بھی 25 دن کے بعد 26 نومبر 2021کو سماعت کے لیے مُقرر کی گئی۔ اِس دوران معزز چیف جسٹس سُپریم کورٹ گلزار احمد جب 20 نومبر 2021کو عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں شریک تھے تو نامور اُن کی موجودگی میں وکیل رہنما علی احمد کُرد نے جب عدالتی معاملات پر ایک جرنیل کے اثر انداز ہونے کے سخت جُملے ادا کیے تو کانفرنس ہال میں موجود پختون اور نوجوان طلبا کی ایک بڑی تعداد نے علی وزیر کو رہا کرو کی نعرے بازی بھی کی تھی۔

26 نومبر 2021 کو سماعت سے دو روز قبل ہی ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل سندھ راحت احسن کی طرف سے سماعت موخر کرنے کی درخواست عائد کردی گئی تھی جِس میں مضحکہ خیز وجہ یہ بیان کی گئی کہ راحت احسن کے ساتھی ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل حُسین بخش بلوچ کو علی وزیر کا کیس لڑنے کے لیے دیا گیا تھا لیکن وہ چُھٹی پر ہونے کی وجہ سے آج پیش نہیں ہوسکتے۔ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ آپ نے ایک ایسے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل کو کیس کیوں دیا جو چُھٹی پر جارہا تھا یا اگر اوپر بیان کردہ واقعات پر نظر ڈالی جائے تو شاید مُبینہ طور پر حسین بخش بلوچ کو چُھٹی پر بھیج دیا گیا تاکہ سماعت موخر کروا کر علی وزیر کی ضمانت میں مزید تاخیر کروائی جائے۔ یعنی پہلے ہی 6 ماہ تاخیر سے درخواست سماعت کے لیے مُقرر کی گئی اور وہ بھی موخر کروانے کے حربے۔ تازہ موصول اطلاع کے مُطابق ایک اور معنی خیز پیشرفت میں علی وزیر کی درخواستِ ضمانت جو سوموار کو دوبارہ سماعت کے لیے مُقرر تھی اُسکا بینچ نامعلوم وجوہات کی بنا پر تبدیل کردیا گیا۔ اب علی وزیر کی درخواستِ ضمانت کی سماعت فوجداری کیسز پر عبور رکھنے والے جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مُشتمل تین رُکنی بینچ کی بجائے سوموار 29 نومبر کو اگلے چیف جسٹس عُمر عطا بندیال کی سربراہی میں معزز جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس منصور علی شاہ پر مُشتمل 3 رُکنی بینچ کرے گا۔