پہلا منظر:
جنرل عاصم خلفائے راشدین کی طرح بھیس بدل کر سادہ کپڑوں میں تن تنہا قلندر کے آستانے کی طرف پیدل بنا پروٹوکول ہاتھ میں شاپر پکڑے راستے میں رعایا کا حال چال پوچھتے جا رہے ہیں۔
'بہن جی گھر میں آٹا ہے؟'
'انکل جی، بجلی تو آ رہی ہے نا؟
'آپا جی سرکاری نل میں پانی آرہا ہے نا برابر؟ کوئی پریشانی تو نہیں؟'
'آنٹی جی وائی فائی کے سگنل تو پورے آ رہے ہیں نا؟'
سب نظر انداز کرتے ہیں یہ سوچ کر کہ 'دیوانہ است!'
اور کیا کریں؟ خلافت کا زمانہ تو ہے نہیں!
لیکن جنرل صاحب اس طرح نظر انداز کیے جانے پر خوش ہیں کہ روپ دھارنے میں کامیاب ہوئے۔ اب سکون سے قلندر کے آستانے پر مشاورت کریں گے۔ کوئی پاپارازی (Paparazzi) پیچھے نہ ہو گا۔
دوسرا منظر:
بیڑہ غرق اس ناس پیٹے قلندر کے ترجمان کریلے کا۔ ہر صحافی و لفافی، اینکر و ٹینکر مافیا، تجزیہ و بجھیا نگار کو خبر کیے دیتا ہے۔ جنرل صاحب آستانے کی گلی میں اور سب کے سب ان کے پیروں میں! ہر ایک کی یہ کوشش کہ سب سے پہلے وہ ہی ان کے گرد آلود جوتوں کا بوسہ لے!
جنرل صاحب ایک زوردار لات رسید کرتے ہیں حوالدار ناکام ران خان کو جو فاؤل کر کے آگے نکل کر ان کی ٹانگوں سے لپٹ جاتا ہے۔ گو کہ لات بھرپور تھی مگر ناکام ران ان کے پیروں سے ایسی مضبوطی سے چمٹا کہ ہرگز بے مزہ نہ ہوا۔ انہیں دوسری لات لگانی ہی پڑی۔
'سالا نوٹنکی۔ مشرف، کیانی، راحیل، باجوہ کے بعد میرے جوتے بھرشٹ کرنے آ گیا!'
جیسے ہی ناکام ران پیچھے ہٹتا ہے، سوریا جان بک بول اپنی دو گز لمبی زبان پوری باہر نکال کر ان کے مٹی سے اٹے جوتوں پر پھیر پھیر کر شیشے کی طرح چمکا دیتا ہے۔ مگر بدلے میں اسے بھی ایک زوردار لات پڑتی ہے جس سے وہ گز بھر دور جا گرتا ہے۔ اس کے بعد جنرل صاحب اسے گن کر پورے سو جوتے لگاتے ہیں اور پھر گویا ہوتے ہیں:
'اس سے پہلے تو مجھے اپنے من گھڑت خواب سنائے، میں تجھے اپنا سچا خواب سنائے دیتا ہوں۔ مجھے ایک جلیل القدر ہستی نے رات ہی بتا دیا تھا کہ قلندر کے آستانے کے قریب جو دوسرا چاپلوس تیرے جوتے ناپاک کرے گا اسے سو جوتے لگائیو۔'
'سرکار یہی خواب تو میں نے دیکھا تھا۔ اسی لئے آپ سے بقلم خود جوتے کھانے حاضر ہو گیا۔ بے نظیر بھٹو بھی تو ایک جلیل القدر ہستی سے چھڑیاں کھاتی تھیں!' بک بول جیسے ہی بولتا ہے جنرل صاحب دوسرے پیر کا جوتا نکال کر پھر 100 بار رسید کرتے ہیں۔
'بالکل درست کیا سرکار آپ نے۔ میں نے بھی خواب میں دو سو جوتے ہی کھائے تھے!' بک بول کہتا ہے۔
یہ سین دیکھ کر 'باخبر' بکتر بند ٹینکر جامد پیر عافیت جنرل صاحب کے گوڈوں کو ہاتھ لگانے میں ہی جانتا ہے۔ کسی زمانے میں ان کے بزرگوں کے جوتے چاٹا کرتا تھا۔ اور بزرگ بھی اس کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ تنخواہ کے علاوہ روز کا چائے پانی کا خرچہ، رات کا بچا کچا کھانا اور سالانہ بونس بھی دیتے تھے۔ اچانک اسے ایمان دھرم یاد آ گیا اور یہ جمہوریت کا راگ الاپنا شروع ہو گیا۔ کوئی سی آئی اے والا اسے غلطی سے دو چار نشہ آور گولیاں کھلا دیتا ہے۔ بس اسی دن سے بکتر بند گاڑی میں پھرتا ہے جو اب سٹیٹس سمبل ہے۔
اسی دوران کریلہ انہیں پچھواڑے سے بذریعہ خفیہ سرنگ براہ راست لاؤنج میں لے آتا ہے۔
تیسرا منظر:
قلندر سواگت کرتا ہے، جنرل صاحب شاپر تھما دیتے ہیں۔
'سرکار مٹھائی ہے پروموشن کی خوشی میں۔۔۔'
'میں نے تو پہلے ہی بتا دیا تھا سارے جہاں کو کہ تُو ہی نیا چیف ہو گا۔ دیکھ لے قلندر کی کوئی پیش گوئی غلط نہیں ہوتی!'
'سرکار ساری دنیا مانتی ہے آپ کو!'
'بول کیا مشورے لینے آیا ہے؟'
'سرکار وہ بعد میں پہلے اس کریلے کا کچھ علاج کریں۔ کم بخت آپ کا ترجمان نہیں، دلالی میڈیا کا مخبر ہے!'
'ابے میں نے کہا تھا اسے۔ تو ابھی بچہ ہے۔ میڈیا کی اہمیت کا اندازہ نہیں۔ اگر ان چاپلوسوں کو ہڈی نہیں ڈالے گا تو سب کے سب پاٹے خان کی روحانی اولاد بن جاویں گے اور تیرے ساتھ وہی کریں گے جو ابھی تک باجوے کے ساتھ کر رہے ہیں۔ تیری میری وجہ سے اس دلالی میڈیا کی دال روٹی چل رہی ہے تو چلنے دے۔ شکر ہے اللہ میاں کا کہ ہمیں وسیلہ بنا رکھا ہے۔ اچھا سن۔ یہ بھی اپنے بچے ہی ہیں جنہیں تو گلی میں جوتے لگا رہا تھا۔ میں نے انہیں یقین دلایا ہے کہ تو انہیں پل دو پل کے لیے شرف باریابی بخشے گا۔ بس ان کی بکواس کو صبر کے کڑوے گھونٹ سمجھ کر پی جائیو۔'
'سرکار آپ کے لیے تو یہ وردی بھی حاضر ہے!'
'جیتا رہ پیارے! لیکن پہلے اپنا الو تو سیدھا کر لے!'
'وہ تو آپ نے پہلے ہی کر دیا سیدھا!'
'کیسے؟' قلندر پوچھتا ہے۔
"میں آیا تھا آپ سے 'کریلا' ادھار لینے۔ یہ سوچ کر کہ بلا کا ترجمان ہے۔ میڈیا کو نتھ ڈال کر رکھے گا۔ لیکن آپ نے ابھی ابھی فرمایا کہ میڈیا کو نتھ نہیں ڈالنی۔"
'میں نے کچھ غلط نہیں کہا۔ تیرے بزرگ ایوب سے لے کر باجوے تک اسی آستانے سے فیض یاب ہوئے۔ آج تلک کسی کو غلط پٹی نہیں پڑھائی۔ میڈیا سے پنگا نہیں لینے کا۔ سمجھا؟ اور یہ جو کریلا ہے نا۔۔ ہے تو نیم چڑھا مگر اس کی شیریں زبان میڈیا کے ہر چرب زبان کی بولتی بند کر دیتی ہے۔ تُو نے جب بھی خطاب کرنا ہو آئی ایس پی آر کے بجائے اسے استعمال کر لیجیو۔ ہمارے پاسstate of the art equipment ہے۔'
آخری منظر:
قلندر کا وسیع لاؤنج جو پاٹے خان والے کئی لانگ مارچ اپنے طول و عرض میں سمو لے۔ میڈیائی چاپلوس چوکڑی مارے فرش پر۔ قلندر اور جنرل صاحب صوفے پر۔
سب سے پہلے آفتاب خوشامد المعروف بھانڈ مراثی شو ادب سے دو مجرے بجا لانے کے بعد شروع ہوتا ہے۔
'نئے چیف کا اقبال بلند ہو۔ حضور میری خوشدامن آپ کو چوتھی جماعت میں انگریزی پڑھایا کرتی تھیں۔ وہ کل بتلا رہی تھیں کہ آپ نے کبھی آج کا ہوم ورک کل پر نہیں چھوڑا۔ اسی ڈسپلن کے کارن آپ کو کاکول سے تلوار آف آنر ملی۔ آپ۔۔۔' قلندر اشارے سے روک کر کہتا ہے: 'ابے ابوجہل یہ کاکول سے نہیں جہلم سے فارغ التحصیل ہیں۔ اور چوتھی جماعت میں انگریزی انہیں چکوال کا شیکسپیئر ایاز امیر پڑھایا کرتا تھا۔ تیری خوشدامن تو انگوٹھا چھاپ تھی!'
'حضور میں پچھلے دنوں بحیرہ اوقیانوس میں تیرتے تیرتے راستہ بھول گیا اور پھسل کر سب سے گہری کھائی میں گر گیا۔ وہاں مچھلیاں ہی مچھلیاں اچھل کود میں مصروف تھیں۔ اچانک مجھے آپ کی تلاوت کی آواز سنائی دی۔ ان گناہ گار آنکھوں نے دیکھا کہ مچھلیاں خوش گپیاں چھوڑ کر خاموشی سے آپ کی تلاوت سننے لگیں۔ ماشاء اللہ لحن داؤدی ہے آپ کے گلے میں۔ اور حضور اس کے بعد کیا دیکھتا ہوں کہ۔۔۔۔' یہ تھا زنگ ساز بکواسی جسے قلندر کے بجائے ریشماں اشارے سے روک کر کہتی ہے: 'پچھلے ہفتے تو پھسل کر آستانے کے سوئمنگ پول میں گرا تھا ڈوب کر مرجاتا اگر میں نہ بچاتی!'
'حضور مجھے پہچانا؟ میں آپ کا پرانا بیچ میٹ نیم حکیم مچھر پشیمان!'
'یاد نہیں آ رہا!' جنرل صاحب ذہن پر زور دیتے ہوئے۔
'حضور میں اور آپ ایک ہی ڈورمیٹری میں تھے آئی ایس ایس بی کوہاٹ میں۔ میں فیل ہو گیا تھا۔ لیکن جس مہارت سے آپ نے ہر ٹیسٹ میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا تھا اسے مد نظر رکھ کر ناچیز نے اسی وقت بھانپ لیا تھا کہ ایک نہ ایک دن آپ ضرور آرمی چیف بنیں گے۔ کچھ یاد آیا؟'
'ابے لوٹے تیرا بیچ میٹ میں تھا آرمی ریکروٹمنٹ سنٹر میں پریلیمینری امتحان میں جس کے ہر پرچے میں تو فیل ہو گیا تھا۔ تیرا باپ گیا تھا آئی ایس ایس بی؟' کریلا مچھر پشیمان کو چپ کرا دیتا ہے۔
'حضور آپ نے مجھے پہچانا؟ میں آپ کا دور پار کا رشتہ دار ہوں!' عقل سلیم سے عاری صحافی کہتا ہے۔ یہ کامن سینس سے فارغ نہیں، اس کا نام ہی عقل سلیم سے عاری ہے۔ ویسے اس سے بڑھ کر سیانا کوئی اور نہیں!
جنرل صاحب کو پہچاننے سے قاصر بھانپ کر عاری کہتا ہے: 'حضور آپ کا کتا اور میرا کتا آپس میں کزنز ہیں!'
اور اس کے ساتھ ہی جنرل صاحب صوفے سے اٹھ کر ایک جوتے سے اس کی خاطر تواضع کر کے کہتے ہیں: 'ابے کتوں کی توہین کرتا ہے ناہنجار!'
'حضور ملک بہت ہی نازک دور سے گزر رہا ہے۔ معیشت کا ستیاناس ہو چکا ہے۔ قوم آپ کی طرف بار بار دیکھ رہی ہے۔ میری آپ سے ہاتھ جوڑ کر گزارش ہے کہ فی الفور مارشل لا لگا کر تین مہینے میں وہ گند صاف کریں جو جنرل باجوہ آپ کے لیے چھوڑے جا رہے ہیں۔۔۔' حوالدار ناکام ران خان اپنا پرانا راگ الاپنا شروع ہی کرتا ہے کہ قلندر جلال میں آ کر کہتا ہے:
'بند کر اپنی بکواس۔ یہی پٹی تُو راحیل شریف کو، پھر باجوے کو آخری وقت تک پڑھاتا رہا ٹوئٹوں سے۔ کریلے کھلا ذرا اسے پہلے سو پیاز اور پھر رسید کر سو جوتے۔ یہ ایسے نہیں سمجھے گا۔'
کریلا سیف روم میں خاطر تواضع کروا دیتا ہے۔
'کوئی اور ہے خراج تحسین پیش کرنے کو؟' قلندر پوچھتا ہے مگر حوالدار ناکام ران اور دیگر کا حشر دیکھ کر کسی میں جرات نہ ہوئی۔
Contributor
محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔