ججز کیخلاف زیرالتواء شکایات: سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس کل طلب کرلیا گیا

جسٹس مظاہر نقوی سمیت دیگر ججز کے خلاف شکایات سپریم جوڈیشل کونسل میں آئی تھیں۔سپریم جوڈیشل کونسل ایک آئینی ادارہ ہے جو سپریم کورٹ کے ججز کے غلط رویوں سے متعلق شکایات کی چھان بین کرتا ہے۔ 5 رکنی کونسل کی صدارت چیف جسٹس کرتے ہیں۔

ججز کیخلاف زیرالتواء شکایات: سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس کل طلب کرلیا گیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ججز کے خلاف شکایات سے متعلق مسائل کے حل کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس طلب کرلیا۔

اجلاس کل صبح 11:30 بجے ہونا ہے، سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر نقوی سمیت کئی ججوں کے خلاف شکایات سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے غور کے لیے پیش کی گئی ہیں۔ جوڈیشل کونسل کا اجلاس ججز کیخلاف زیر التواء شکایات پر غور کے لیے طلب کیا گیا ہے۔

سپریم جوڈیشل کونسل چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس اعجاز الحسن سمیت دیگر پر مشتمل ہے۔

اجلاس میں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ، چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ بھی بطور رکن شریک ہوں گے۔

25 ستمبر کو سپریم کورٹ کے جج جسٹس سردار طارق مسعود نے چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کو ساتھی جج جسٹس سید مظاہر علی نقوی کے خلاف دائر مختلف شکایات سے متعلق قانونی  رائے بھیجی تھی۔

جسٹس مظاہرنقوی کےخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں 10 ریفرنسز دائرکیے گئے تھے۔ ان کے خلاف ریفرنسزمیں مالی بےضابطگی پرکارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔

سابق چیف جسٹس عمر عطابندیال نے بطورچیئرمین سپریم جوڈیشل کونسل ریفرنس سکروٹنی کیلئے ممبرکمیٹی کوبھجوایا تھا۔ جب سپریم جوڈیشل کونسل کو کوئی شکایت موصول ہوتی ہے تو وہ تحقیقات شروع کرنے پہلے اسے کونسل کے ایک رکن کو بھیجتی ہے تاکہ اس بات کا تعین ہو سکے کہ یہ شکایت قابل سماعت ہے یا نہیں۔

اب یہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا اختیار ہے کہ وہ اس معاملے کو سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے رکھیں یا اس کیس کو فارغ کردیں۔ سپریم جوڈیشل کونسل ایک آئینی ادارہ ہے جو سپریم کورٹ کے ججز کے غلط رویوں سے متعلق شکایات کی چھان بین کرتا ہے۔ 5 رکنی کونسل کی صدارت چیف جسٹس کرتے ہیں۔

ذرائع کے مطابق جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف پہلے ہی 10 شکایات دائر کی گئی ہیں۔ جن میں لاہور سے تعلق رکھنے والے وکیل اور سوشل میڈیا انفلو ئنسر میاں داؤد، مسلم لیگ (ن) وکلا فورم، پاکستان بار کونسل (پی بی سی)، سندھ بار کونسل (ایس بی سی) اور ایڈووکیٹ غلام مرتضیٰ کی دائر کردہ شکایات سب سے زیادہ نمایاں ہیں۔

سپریم کورٹ کے جج مقرر ہونے سے پہلے جواب دہندہ جسٹس مظاہر نقوی کا سب سے ہائی پروفائل فیصلہ وہ تھا جو انہوں نے جنرل پرویز مشرف بمقابلہ فیڈریشن آف پاکستان کے کیس میں تحریر کیا تھا۔

شکایت میں الزام لگایا گیا ہے کہ جسٹس مظاہر نقوی نے غیر قانون طور پر اسلام آباد کے اس خصوصی ٹربیونل کے فیصلے پر اپنے اختیار کو مسلط کیا جس نے جنرل مشرف کو غداری کے جرم میں سزائے موت سنائی تھی۔

شکایت کنندہ  نے الزام لگایا کہ انہوں نے سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ان کی سزا کو معطل کیا۔اس فیصلے سے یہ واضح ہے کہ انہوں نے کوڈ آف کنڈکٹ کے شقوں 2، 3، 9، 10 اور 11کی خلاف ورزی کی ہے۔

جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف اس بات کی بھی شکایت کی گئی ہے کہ ان کی مخصوص وکلا کے ساتھ ساتھ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی کے ہمرا کی جانے والی کئی آڈیو ریکارڈنگز سوشل میڈیا پر لیک ہوئیں جس کا مواد متعدد اخبارات میں بھی شائع ہوا۔

شکایت میں جسٹس مظاہر نقوی پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ انہوں نے اپنی جائیداد بیچ کر یا کئی بار اپنے 2021 کے ٹیکس ریٹرنز پر نظر ثانی کروا کر اپنی آمدن کو قانونی بنانے کی کوشش کی۔

جسٹس مظاہر نقوی نے سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے نام خط میں اپنے خلاف ہونے والی کارروائی کو بدنیتی پر مبنی مہم قرار دیتے ہوئے اپنے ان خدشات کا اظہار کیا تھا انہیں اس معاملے میں انصاف نہیں ملے گا یا انہیں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ اس سب کے باوجود صرف مجھے ہی نشانہ بنایا گیا ہے جو کہ میرے خلاف مذکورہ جج کی جان بوجھ کر ذہنیت کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ مذکورہ جج کے مذکورہ بالا طرز عمل کے بالکل خلاف ہے۔

انہوں نے یہ شبہ بھی ظاہر کیا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے رکن کی جانب سے شکایت پر رائے دینے میں تاخیر جان بوجھ کر کی گئی ہے۔