سارہ انعام، نور مقدم اور قندیل بلوچ؛ کیا ریاست اپنی بیٹیوں کو انصاف دے پائے گی؟

سارہ انعام، نور مقدم اور قندیل بلوچ؛ کیا ریاست اپنی بیٹیوں کو انصاف دے پائے گی؟
ایک سال قبل نور مقدم کو اسلام آباد میں بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ کہا گیا کہ وہ لبرل تھی، آزاد خیال تھی، اس کے ساتھ لیونگ ریلیشن شپ میں تھی۔۔۔ یہ تو ہونا ہی تھا۔ جوان لڑکی کو ایک نفسیاتی مریض نے جانوروں کی طرح کاٹ کر رکھ دیا۔ ہم نے قاتل کی مذمت کرنے کی بجائے الٹا قتل ہونے والی لڑکی کے کردار پر ہی سوال اٹھانے شروع کر دیے۔ ہم نے مرنے کے بعد بھی اس پر تہمتیں لگائیں۔

تین دن قبل سارہ انعام کو اس کے نفسیاتی مریض شوہر نے اسلام آباد میں قتل کر دیا۔ اب اس کا دفاع کیسے کرو گے؟؟ سارہ تو شادی شدہ تھی۔ تین بار اس نے 'قبول ہے قبول ہے قبول ہے' بھی بولا ہوا تھا۔ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ، پاکستانی نژاد کینیڈین شہری، اعلیٰ پائے کی فرموں میں کام کرنے والی، اپنی زندگی کو سیٹل کرنے کی کوشش میں ماری گئی۔ مارنے والے کا باپ ہمیں ٹی وی پر بھاشن دیتا نہیں تھکتا۔ اس کا عیاش بیٹا، جو پہلے دو بیویوں کو طلاق دے چکا تھا، اب بیچاری سارہ کو پتہ نہیں اس جہنم میں کس نے دھکیلا۔ گھر کیا خاک سیٹل کرتی، شوہر نے کسی وحشی کی طرح اسے قتل کر دیا۔ اب سارے ایک ہی سوال کی کھوج میں لگے ہیں کہ سارہ نے اس سے شادی کی ہی کیوں تھی؟

چھ سال پیچھے چلے جائیں۔ ایک مڈل کلاس عورت قندیل بلوچ جو غربت سے اٹھ کر ایلیٹ کلاس میں قدم رکھ چکی تھی، اسے بھائی نے غیرت کے نام پر قتل کر دیا۔ باپ نے بیٹے کو معاف کر دیا۔ تب ان بے غیرتوں کی غیرت نہ جاگی جب قندیل کی کمائی سے جائیدادیں بنا رہے تھے۔

ہمیں شروع سے ہی ایک لالی پاپ دیا جاتا ہے کہ پوری دنیا میں سب سے اچھا خاندانی نظام پاکستان کا ہے۔ یہ سب بکواس ہے۔ ہمارے بزرگوں کی من گھڑت کہانیاں ہیں جن کا حقیقت سے دور دور تک کا بھی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ کہانیاں گھڑنے والے بزرگ بھی اب لازماً شرمندہ ہو رہے ہوں گے۔

مڈل کلاسیے تو کسی حد تک رشتوں کو نبھانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہاں ہمشیہ قربانی کا بکرا لڑکی کو بنایا جاتا ہے کہ رشتے بچانا اور گھر بسانا صرف عورت کی ذمہ داری ہے۔ وہ بیچاری کسی نہ کسی حد تک اس کو بچانے کی کوشش بھی کرتی ہے۔ لیکن ہماری ایلیٹ کلاس میں خاندانی نظام تباہ و برباد ہو چکا ہے۔ آپ مانیں یا نہ مانیں یہ حقیقت ہے۔ یہاں وسائل کی ریل پیل میں نفسیاتی مریض اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ گھن آنا شروع ہو چکی ہے۔ نور مقدم اور سارہ انعام جیسی کتنی لڑکیاں ہوں گی جو اس کرب سے گزر رہی ہوں گی۔ کیا کبھی ہم نے اس بارے میں سوچا ہے؟؟

نہ جانے پاکستانی والدین کی سمجھ میں یہ بات کیوں نہیں آتی کہ طلاق یافتہ زندہ بیٹی بنا طلاق کی مری ہوئی بیٹی سے ہزار درجے بہتر ہوتی ہے۔ یا شاید وہ سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔ بیٹی قتل کروا لیں گے لیکن طلاق لینے کی اجازت نہیں دیں گے۔ خدارا گھر بچانے کے چکر میں ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی تشدد کا شکار بننے والی اپنی بیٹی پر رحم کریں۔ جب اسے رخصت کرنے لگیں تو اسے کہیں کہ ہم نے تو ایک انسان کے ساتھ تمہاری شادی کی تھی، اگر جانور نکل آئے، اگر تم پر ہاتھ اٹھانے کی جرأت کرے تو فوراً لوٹ آنا، گھر کے دروازے تمارے لئے ہمشیہ کھلے رہیں گے۔ جب آپ ایسا کہہ کر بھیجیں گے تو اسے صحیح معنوں میں تحفظ کا احساس ہو گا۔

والدین کو یہ بھی چاہئیے کہ جب کسی سے اپنی بیٹی کا رشتہ طے کریں تو اس کی اور اس کے پورے خاندان کے بارے میں لازمی تحقیقات کروا لیں۔ "لوگ کیا کہیں گے" کے کلچر سے باہر نکلیں، اپنی طرف سے پوری کوشش کریں۔ ہاں اگر وہ انسان بعد میں جانور بن جائے تو بیٹی کو کبھی بھی رشتہ نبھانے پر مجبور مت کریں۔

نور مقدم، سارہ انعام اور قندیل بلوچ کی لاشیں انصاف کی منتظر ہیں۔ نور مقدم کے قاتل کو موت کی سزا سنائی گئی ہے، اس پر کب عمل درآمد ہو گا، کسی کو نہیں معلوم۔ قندیل بلوچ کیس پاکستانی عدالتوں میں کہیں الجھ کر رہ گیا ہے۔ باپ کی طرف سے بیٹے کو معاف کرنے کے بعد ریاست اس کیس میں مدعی ہے۔ وہ کیس کب منطقی انجام تک پہنچے گا، کسی کو نہیں معلوم۔ اب سارہ کیس میں اس کا نامزد قاتل ملزم شاہنواز امیر پولیس کی گرفت میں ہے۔ کیا اس کیس میں جلدی فیصلہ ہو پائے گا، کسی کو نہیں معلوم۔

سنا تھا کہ ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے۔ کیا ریاست اپنی ان تینوں بیٹیوں کو انصاف دے سکے گی؟؟ یہ سوال ہر ذی شعور پاکستانی پوچھ رہا ہے لیکن انصاف کے نظام کی طرف نظر دوڑائیں تو محسوس ہوتا ہے کہ اس مرتبہ بھی ریاست سے انصاف ملنے کی کوئی توقع نہیں ہے۔

مضمون نگار ڈاکٹر ہیں اور سر گنگارام ہسپتال لاہور میں آرتھوپیڈک سرجری کی ٹریننگ کر رہے ہیں۔