Get Alerts

خانیوال انڈسٹریل سٹیٹ کی آباد کاری معیشت کے لیے خوش آئند قدم ہے

خانیوال انڈسٹریل سٹیٹ بلاشبہ چھوٹے صنعت کاروں کے لئے لگ بھگ مفت زمین پر کام شروع کرنے کے حوالے سے ایک صنعت دوست اقدام ہے لیکن مقامی صنعت کاروں کے ماضی کے تجربات و مطالبات اور محکمانہ پالیسیز میں عدم ہم آہنگی کے باعث صنعت کاری کا فروغ یقینی طور پر کٹھن مرحلہ ہو گا۔

خانیوال انڈسٹریل سٹیٹ کی آباد کاری معیشت کے لیے خوش آئند قدم ہے

خانیوال شہر کے مضافات میں جہانیاں روڈ پر 1987 میں قائم کی جانے والی انڈسٹریل سٹیٹ 36 سال بعد مقامی صنعت کاروں کی دلچسپی کے باعث آباد کاری کی جانب گامزن ہے جہاں متعدد ترقیاتی کاموں جیسے مستقل باؤنڈری، سٹریٹ لائٹس، داخلی دروازے، ریلوے پھاٹک اور سٹاف کے اخراجات میں میونسپل کمیٹی کی شراکت کو یقینی بنایا گیا ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ انڈسٹریل سٹیٹ خانیوال کو ایک نئی صنعتی پہچان دے گی۔

سمال اینڈ میڈیم انڈسٹریز یعنی چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعتیں پاکستان کی ترقی میں اہم کردار نبھا رہی ہیں جس کا ثبوت حکومت پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار سے ملتا ہے۔ ان کے مطابق 2018 میں پاکستان کے جی ڈی پی میں 40 فیصد حصہ ایس ایم ایز جبکہ 18 فیصد چھوٹے بڑے ریٹیل کاروبار کا ہے۔

اسی تںاظر میں پنجاب کے مختلف اضلاع کی طرح ضلع خانیوال کی تحصیل خانیوال اور تحصیل میاں چنوں میں پنجاب سمال انڈسٹریل سٹیٹس قائم کی گئی تھیں جن کا بنیادی مقصد چھوٹے صنعت کاروں کو ترقیاتی فنڈز کی مد میں مفت زمین و دیگر سہولیات فراہم کرنا تھیں تاکہ مقامی و چھوٹی صنعت فروغ پائے۔

اس انڈسٹریل سٹیٹ کا افتتاح 24 جنوری 1996 کو صوبائی وزیر اور چیئرمین پنجاب سمال انڈسٹریز کارپوریشن عبدالرحمٰن کھر نے کیا۔ سٹیٹ میں پہلا صنعتی یونٹ 2003 میں لگایا گیا۔

انچارج انڈسٹریل سٹیٹ خانیوال لیاقت علی غوری کے مطابق سٹیٹ کا کل رقبہ 520 کنال یا 65 ایکڑ پر مبنی ہے جس میں سے 392 کنال صنعتی یونٹس، 111 کنال سڑکوں اور گلیوں جبکہ 17 کنال اراضی مشترکہ استعمالات کے لئے مختص کی گئی۔

انڈسٹریل سٹیٹ میں صنعتی استعمال کے لئے مختص 392 کنال اراضی کو 313 پلاٹس میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں ایک کنال کے 162، دو کنال کے 103 اور دس مرلے کے 48 پلاٹ بنائے گئے ہیں۔ ان میں سے 57 پلاٹس پر مختلف نوعیت کے صنعتی یونٹس قائم ہیں، 43 یونٹس پر تعمیراتی کام جاری ہے اور مختلف پراجیکٹس کے 117 یونٹس کے لئے متعدد صنعت کار ادارے کے ساتھ رابطے میں ہیں۔

انڈسٹریل سٹیٹ میں مجموعی طور پر 153 پلاٹس خالی ہیں، جن میں سے 129 پلاٹس کی الاٹمنٹ ڈویلپمنٹ فیس ادا نہ کرنے کے باعث منسوخ کر دی گئی تھی جبکہ دیگر 24 پلاٹس کی بولی رواں ماہ 14 ستمبر کو ہو گئی ہے جس کا ریزرو ریٹ 55 سے 64 ہزار فی مرلہ مقرر کیا گیا ہے۔

اس وقت انڈسٹریل سٹیٹ میں محض 57 انڈسٹریل یونٹ قائم ہیں جن میں 14 فلور ملز، 17 جننگ فیکٹریاں، 5 آئل یونٹس، 11 کولڈ سٹوریج، 2 رسہ ساز فیکٹریاں، نوڈلز بنانے والی 4 فیکٹریاں، ٹف ٹائلز بنانے والی 3 فیکٹریاں اور ایک متفرق یونٹ موجود ہے۔

سوال یہ ہے کہ زبوں حالی کی شکار انڈسٹریل سٹیٹ آج بھی وہیں ہے یا ترقی کے کوئی امکانات ابھی بھی موجود ہیں؟

انڈسٹریل سٹیٹ کے افتتاح کے بعد 185 پلاٹس مقامی صنعت کاروں کو الاٹ کر دیے گئے تھے۔ سیوریج، سڑکیں اور پانی کی فراہمی تو یقینی بنائی گئی لیکن بجلی کی عدم دستیابی اور شہر سے 6 کلومیٹر دور ہونے کے باعث مقامی صنعت کاروں کا رجحان اس جانب نہ ہو سکا۔

مقامی صنعت کاروں کی عدم دلچسپی کے باعث گزرتے وقت کے ساتھ ترقیاتی و مرمتی اخراجات کی وصولی بھی صفر ہو گئی۔ یوں انڈسٹریل سٹیٹ زبوں حالی کا شکار ہو گئی اور دستیاب سہولیات کی حالت بھی مخدوش ہونے لگی۔

سابق صدر بورڈ آف مینجمنٹ انڈسٹریل سٹیٹ خانیوال، ڈاکٹر اشرف مغل کا کہنا ہے کہ صنعت کاروں کو مفت زمین کی فراہمی کا مقصد ان کا رجحان صنعت کاری کی جانب بڑھانا تھا لیکن جن سہولیات کا وعدہ کیا گیا تھا ان کی فراہمی سٹیٹ میں صنعت کاری کے خواہش مند الاٹیز سے حاصل ہونے والے ترقیاتی فنڈز کی مدد سے ممکن ہونی تھی جو صنعت کاروں کی عدم دلچپسی و فنڈز کی اقساط وصول نہ ہونے کے باعث جاری نہ رہ سکی۔

جن الاٹیز کو انڈسٹریل سٹیٹ میں پلاٹس الاٹ ہوئے انہیں 25 ہزار کی ایڈوانس ادائیگی کے بعد تین سال کی اقساط میں ترقیاتی فنڈز کی مد میں فی کنال مجموعی طور پر 72 ہزار اور مینٹیننس فنڈ 27 سو روپے سالانہ ادا کرنے تھے۔

تین سال میں جب مطلوبہ رقم اکٹھی نہ ہو سکی تو بجلی فراہمی کا منصوبہ بھی پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔ لیکن 2003 میں گورنر پنجاب خالد مقبول نے خانیوال کا دورہ کیا، جن کی درخواست پر الاٹیز کو فی کس 26 ہزار کا برج لون فراہم کیا گیا اور 72 ہزار فی کس والا منصوبہ 98 ہزار فی کس پر جا پہنچا لیکن یہاں پر متواتر بجلی فراہم کر دی گئی۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ چھوٹی صنعتوں کی ترقی میں درپیش رکاوٹوں کے متعلق ایک تحقیق کے مطابق 2007 سے 2010 کے درمیان 44 سے 65 فیصد صنعت کار بجلی کی غیر متواتر فراہمی کو صنعتی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہیں۔

ڈاکٹر اشرف مغل بتاتے ہیں کہ انڈسٹریل سٹیٹ کے پہلے 25 سال میں کوئی مینجمنٹ بورڈ تشکیل نہیں دیا گیا جس کے باعث عدم اعتماد کی فضا قائم ہو گئی۔

مقامی صنعت کاروں نے ادارتی انتظامیہ کی مدد سے پہلا بورڈ آف مینجمنٹ 2018 میں تشکیل دیا جس کے گذشتہ دو ادوار میں انڈسٹریل سٹیٹ کی بحالی، مالی سال 20-2019 کے سالانہ ترقیاتی منصوبے کے تحت 9 کروڑ کی لاگت سے انڈسٹریل سٹیٹ کی تمام سڑکوں کی ازسرنو تعمیر، سابقہ الاٹیز کو اس جانب راغب کرنے اور نئے صنعت کاروں کو اس سٹیٹ سے مستفید ہونے کے لئے آمادہ کرنے پر کام کیا گیا ہے۔

انڈسٹریل سٹیٹ کی تنزلی کی دوسری بڑی وجہ مکمل ادائیگیاں کرنے کے باوجود الاٹیز کو الاٹمنٹ لیٹر جاری نہ کرنا تھا۔ انڈسٹریل سٹیٹ کے الاٹیز نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جن الاٹیز نے اپنی ادائیگیاں 11-2010 میں مکمل کی تھیں انہیں الاٹمنٹ لیٹرز 2021 میں جاری کئے گئے۔ اتنی تاخیر سے الاٹمنٹ لیٹر جاری ہونے کے باعث ایک عدم اعتماد والی فضا قائم ہوئی جس کے باعث چھوٹے صنعت کار جو بھی کارخانہ یہاں لگانا چاہتے تھے وہ محکمہ جاتی مسائل کو دیکھتے ہوئے یہاں پر سرمایہ کاری سے کتراتے رہے اور سٹیٹ میں صنعت کاری وہ عروج حاصل نہیں کر سکی جیسا قریبی اضلاع میں دیکھنے میں آتا ہے۔

اسی طرح جن الاٹیز کی الاٹمنٹس کو منسوخ کیا جا رہا تھا انہیں مقامی صنعت کاروں کی درخواست پر روک دیا گیا لیکن ساتھ ہی انہیں ایک ماہ کے اندر الاٹمںٹ بحالی کی درخواست کے ساتھ فی کنال 3 لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا اور دسمبر 2024 تک منظور شدہ بزنس پلان کو فعال کرنے کا کہا گیا۔ جبکہ سبھی الاٹیز کا کہنا ہے موجودہ ملکی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان جرمانوں سے انہیں استثنیٰ قرار دیا جانا چاہئیے اور تعمیرات و صنعت کاری کے قلیل عرصے کو بڑھانا بھی ان کے مطالبات میں شامل ہے۔

اس کے علاوہ متعدد نوعیت کے صنعتی یونٹس لگانے کی اجازت نہیں ہے جس کے باعث بہت سارے صنعت کاروں نے انڈسٹریل سٹیٹ میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی نہیں دکھائی۔

لودھراں پائلٹ پروجیکٹ کی مینجر وومن ایمپاورمنٹ کا کہنا ہے کہ چھوٹے صنعت کار کو راغب کرنے کیلئے چیمبر آف سمال ٹریڈرز و سمال انڈسٹریز ملکی و عالمی سطح کے مارکیٹ لنکیجز کی مدد سے کاروبار کے مواقع فراہم کرتے ہوئے اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

موجودہ صدر ڈویلپمنٹ بورڈ انڈسٹریل سٹیٹ خانیوال احمد رضا کے مطابق مستقبل کی منصوبہ بندی میں یہ نکتہ شامل ہے کہ مقامی صنعت کاروں کا چیمبر آف سمال ٹریڈرز و سمال انڈسٹریز تشکیل دیا جائے جو ان کے کاروبار کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ بہت سی دیگر سہولیات فراہم کرے۔

سابق ممبر صوبائی اسمبلی شاہدہ حیات ملکہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے سابق دور حکومت میں بورڈ آف مینجمنٹ کی درخواست پر انڈسٹریل سٹیٹ کا دورہ کیا تھا۔ اسمبلی فلور پر ان کی جانب سے انڈسٹریل سٹیٹ کی حالت زار اور اس کی افادیت پر سوال اٹھانے کے بعد ہی ادارے نے اس جانب توجہ دینی شروع کی۔

احمد رضا بتاتے ہیں کہ ڈھانچہ بدلنے کے باعث مینجمنٹ بورڈ اب کافی حد تک خودمختار ہے۔ ادارہ الاٹیز سے ترقیاتی و مینٹیننس فنڈز حاصل کر کے براہ راست ترقیاتی کاموں پر خرچ کرے گا جس سے تمام کام بروقت ہوں گے اور مقامی صنعت کاروں کا اعتماد بحال ہو گا۔

جون 2023 میں انڈسٹریل سٹیٹ خانیوال و میاں چنوں کے صنعت کاروں نے صوبائی وزیر انڈسٹریز اینڈ کامرس ایس ایم تنویر سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں بورڈ آف مینجمنٹ کی ازسر نو تشکیل، ترقیاتی فنڈز کی وصولی و سہولیات کی فراہمی میں مقامی صنعت کاروں کے کردار، منسوخ شدہ پلاٹوں کی نیلامی اور مقامی صنعت کاروں کو ترجیحاً قرضوں کی فراہمی کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو ہوئی جس کے نتائج فی الفور دکھائی دیے ہیں۔

ریجنل ڈائریکٹر پی ایس آئی سی عمارہ منظور نے چھوٹے صنعت کاروں کو درپیش مسائل کے حوالے سے بتایا کہ حکومت پنجاب نے پی ایس آئی سی کو 30 ارب روپے کے آسان قرضوں کی فراہمی پر مبنی روزگار سکیم کا اعلان کیا تھا۔ اس طرح مقامی صنعت کار اپنی کاروباری منصوبہ بندی یا توسیعی منصوبہ بندی جمع کروا کر بینک سے 10 لاکھ سے لے کر 2 کروڑ روپے کا قرضہ حاصل کر سکتے ہیں۔ جبکہ الاٹیز کو تاخیر سے الاٹمنٹ لیٹر ضرور جاری ہوئے لیکن انہیں بروقت زمین پر قبضہ دیتے ہوئے تعمیرات کی اجازت دے دی گئی۔ محکمے کی جانب سے ہر حوالے سے الاٹیز سے تعاون بھی کیا جاتا رہا ہے اور محکمانہ پابندیوں میں بھی انہیں ریلیف دیا جاتا رہا ہے۔

عمارہ منظور کا کہنا ہے کہ یہ سٹیٹ خانیوال شہر اور قریبی چکوک نانک پور اور 169 دس آر سے چار سے چھ کلومیٹر دور ہے، اس لئے یہاں پر کسی بھی ایسے صنعتی یونٹ لگانے کی شروع دن سے اجازت نہیں دی گئی جو ماحول یا انسان دوست نہ ہو۔ اسی طرح یہاں پر موجود ہر انڈسٹری کو 50 گیلن سے زیادہ پانی استعمال کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔

پنجاب سمال انڈسٹریز کارپوریشن سٹیٹ خانیوال بلاشبہ چھوٹے صنعت کاروں کے لئے لگ بھگ مفت زمین پر کام شروع کرنے کے حوالے سے ایک صنعت دوست اقدام ہے۔ لیکن مقامی صنعت کاروں کے ماضی کے تجربات و مطالبات اور محکمانہ پالیسیز میں ہم آہنگی کے بغیر صنعت کاری کا فروغ یقینی طور پر ایک کٹھن مرحلہ ہو گا جو باہمی دلچسپی و تعاون سے ہی طے ہو سکے گا۔

فیصل سلیم میڈیا سٹڈیز میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں اور مختلف نیوز ویب سائٹس کے لیے لکھتے ہیں۔ ان کے پسندیدہ موضوعات میں سماجی مسائل اور دلچسپ حقائق شامل ہیں۔