سمال ڈاگ سِنڈروم: انٹرنیٹ ٹرولز اور ان کے جارحانہ طرز عمل کا نفسیاتی جائزہ

سمال ڈاگ سِنڈروم: انٹرنیٹ ٹرولز اور ان کے جارحانہ طرز عمل کا نفسیاتی جائزہ
موجودہ دور ابلاغ کا دور ہے، جدید سائنٹِفک ریسرچ نے ابلا غ کے نت نئے ذرائع مہیا کر دیے ہیں۔ آپ کا تعلق اب خواہ کسی بھی مکتبِ فکر سے ہو، آپ سٹوڈنٹ ہیں، کوئی سکالر یا پھر گھر سنبھالنے والی خاتون، اب آپ سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی بات زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ مگر پاکستان جیسی سکیورٹی سٹیٹ میں جہاں کمیونیکشن (Communication) کے تمام ذرائع پر کچھ لوگوں کی اجارہ داری ہے، ان کے لئے یہ تمام تبدیلی قابلِ ہضم نہیں تھی۔ اور ان کو یہ فکر لاحق ہو گئی کہ اگر لوگوں تک زیادہ سے زیادہ معلومات پہنچیں گی تو پھر ان کی حاکمیت پر سوال اُٹھ کھڑے ہوں گے۔ لہٰذا لوگوں کو اظہارِ رائے سے روکنے کیلئے بہت سے طریقے اختیار کیے گئے۔ سوشل میڈیا پر اس مقصد کے لئے ایک ٹرول آرمی بنائی گئی اور ان کا سب سے مؤثر ہتھیار گالی تھا۔ اس ہتھیار کو سب سے زیادہ موجودہ حکمران جماعت تحریک انصاف کی طرف سے مقرر کردہ بیشمار بے نام اور بے چہرہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے استعمال کیا، تاکہ لوگوں کو ڈرایا دھمکایا جا سکے اور عام لوگ جو اس طرح گالم گلوچ کے عادی نہیں ہوتے ان کو ہراساں کیا جا سکے تاکہ وہ سوشل میڈیا کا استعمال نہ کریں۔ آپ علمی بات کریں یا اصلاحی، یہ آن لائن ٹرولز استدلال کے بجائے گالم گلوچ کرتے ہیں کیونکہ ان کا بنیادی مقصد لوگوں کی توجہ اس مسئلے سے ہٹانا ہے جس پر آپ بات کر رہے ہوتے ہیں۔



علمِ نفسیات میں (Online Troll) پر بہت سی ریسرچ کی گئی ہے۔ آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ یہ لوگ گالیاں کیوں دیتے ہیں۔ سائنٹِفک ریسرچ بتاتی ہے کہ اس کا تعلق سمال ڈاگ سِنڈروم (Small Dog Syndrome) نامی بیماری سے ہے۔ جسکی تعریف یہ ہے:
Small dog syndrome is the name given to a collection of behaviours displayed by small dogs, behaviours that have ‏the effect of overcoming any deficits caused by being small in stature



‏بنیادی طور پر اس کانسیپٹ (Concept) کو ایک بہت مشہور تھیوری نپولین کامپلیکس (Napoleon Complex) یا پھر سمال مَین سِنڈروم (Small Man Syndrome) سے لیا گیا ہے۔ اِس بارے ماہرینِ نفسیات کا یہ ماننا ہے کہ جو لوگ اِس بیماری کا شکار ہوتے ہیں وہ ایک طرح کے احساسِ کمتری میں مبتلا ہوتے ہیں۔ وہ اپنے اس احساسِ کمتری کو پورا کرنے کے لئے جارحانہ پن (Excessively Aggressive) پر اُتر آتے ہیں اور گالم گلوچ کرتے ہیں۔ بہت سی سائنسی تحقیقات (Scientific Studies) میں یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ یہ سِنڈروم (Syndrome) انسان کے دماغ کو بہت بُری طرح سے متاثر کرتا ہے۔ ایک بہت مشہور ریسرچ کے مطابق؛

Abraham Buunk, a professor at the University of Groningen in the Netherlands, claimed to have found evidence of the small man ‏syndrome. Researchers at the University found that men having this syndrome were 50% more likely to show signs of jealousy



اِس سائنسدان کا یہ ماننا ہے کہ اِس کامپلیکس (Complex) کے شکار لوگ اپنے ارد گرد لوگوں اور معاشرے کے لئے بہت زیادہ نقصان دہ ہوتے ثابت ہیں۔ کچھ ماہرین اس کو ڈیسپریڈو افیکٹ (Desperado Effect) سے جوڑتے ہیں۔

Where in the likely losers are initiating aggression because they lack alternative option



ماہرینِ نفسیات کا خیال ہے کہ جب کوئی بھی شخص آن لائن جارحانہ طرز عمل (Excessive Aggression) یا پھر گالیوں کا بہت زیادہ استعمال کرے تو اس کے رویے کے ماخذ جس سے اُسے ایسا کرنے کی حوصلہ افزائی ملتی ہے (Source and Motivation of the Behaviour) کو جاننا بہت ضروری ہے۔ James Delingpole کے مطابق اکثر ایسے افراد آپ کی پوسٹوں یا جو آپ نے لکھا ہو اسے پڑھنے کی زحمت کرنا بھی گوارا نہی کرتے۔ وہ اسے ان الفاظ میں بیان کرتا ہے؛

I didn’t read what you said but here’s what I think” Troll: He doesn’t read your piece. He doesn’t need to: he knows what he thinks already and what he knows is that he hates everything you stand for and you’re wrong and he’s going to say so



ایسی ہی کیفیت میں مبتلا کچھ لوگ آپ کو TV پر تجزیہ کاروں کے روپ میں یا پھر ایک مخصوص پارٹی سے وابستہ نظر آئیں گے، جو بہت زیادہ جارحانہ طرز عمل (Excessive Aggression) دِکھاتے ہیں۔ یاد رہے کہ جب ان خودکار تجزیہ کاروں نے مشرف پر ایکس سروس مین کے فورم سے تنقید کی تھی تو مشرف نے ان کو جرنیلوں کے بلال گنج کا نام دیا تھا (بلال گنج لاہور کی سب سے بڑی کباڑیوں کی مارکیٹ ہے)۔ ماہرین ان کو Mutt Troll یا Yapping Dogs بھی کہتے ہیں۔ Yapping Dogs بنیادی طور پر کتوں کی ایک ایسی بیماری ہے جس میں کتے بے انتہا بھونکنا شروع کر دیتے ہیں۔ اِس بیماری میں مبتلا کتے مسلسل چوبیس گھنٹے بھی بھونک سکتے ہیں۔ ایسا کرتے وقت وہ اکثر مالکان کی تمیز بھی نہیں کرتے۔ ماہرین ان کو Yapping Dog Troll اس لئے کہتے ہیں کہ؛

Mutts are pack animals characterized by their loud barking — vociferous, repetitive, usually ignorant and irrational criticism of anything and anyone they do not like. Mutts often become obsessed with a few or even a single poster with whom they disagree, often for purely personal reasons. Like a dog gnawing at a bone, the Mutt will attack the object of its ire over and over, making a fool of itself in the eyes of those who understand such childish behaviour for what it is







اب ہم ان Mutt Troll یا Yapping Dogs اور Small Dogs کے رویوں (Behaviours) کی ایک اور وجہ پر نظر دوڑاتے ہیں۔ ایک بہت مشہور تھیوری (Theory) کے مطابق یہ لوگ Perceived Majority Status (اپنے آپ کو اکثریت کا نمائندہ شمار کرنا) کا شکار ہوتے ہیں۔ آپ اگر دیکھیں، چاہے محب وطن ٹرول آرمی ہو یا پھر تحریک انصاف کے جنونی شیدائی، یہ لوگ ایک غول کی شکل میں نمودار ہوتے ہیں۔



مشہور The spiral of silence theory کے مطابق جب لوگ اپنے آپ کو اکثریت کا حصہ سمجھنے لگیں تو وہ اپنی رائے کا اظہار زیادہ ڈھٹائی اور بدتہذیبی سے کریں گے اور اکثر ان Trolls کو یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ اکثریت کا حصہ ہیں اور مخالفین پر غدار اور گستاخ جیسے الزامات لگا کر ان کو سماجی تنہائی اور غیرمقبول مؤقف کے خوف (Fear of Social Ostracism) کا شکار کیا جائے گا اور ان گروہی ٹرولز کی بات سننے یا پڑھنے والے لوگ اپنی رائے کو غیر مقبول سمجھ کر اپنی رائے کا اظہار نہیں کریں گے۔ اور یوں وہ ادارے یا ان کے لئے کام کرنے والے لوگ اپنے پروپیگنڈے کے مقاصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر مخالفین کی زبان بندی کے لئے اِس طریقہ واردات کو استعمال کرنے والے لوگوں سے نمٹنے کیلیے واحد حل یہ ہے کہ آپ ان Yapping Dogs یا Small Man Syndrome کے شکار لوگوں سے خوفزدہ مت ہوں کیونکہ اظہارِ رائے ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور آپ سب اپنی آواز اور شدت سے اُٹھائیں تاکہ اُن کو یہ بتایا جا سکے کہ آپ خوفزدہ نہیں ہیں۔





اگر آپ Trolls کی نفسیات اور اقسام کے بارے میں مزید جاننا چاہتے ہیں تو براہِ مہربانی اِس پوسٹ کے نیچے اپنی رائے سے آگاہ کیجیے۔ میں کوشش کروں گا کہ آپ سب کے فائدے کے لئے اِس موضوع پر مزید لِکھ سکوں۔

مصنف ماہرِ نفسیات، اور پیشے کے اعتبار سے بچوں کے حقوق کے کارکن ہیں