یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ معاشی مداوا کیے بغیر لاک ڈاؤن قید خانے سے بدتر ہے لیکن اس حقیقت سے بھی مفر ممکن نہیں کہ دنیا میں جن جن ممالک نے کووڈ 19 کو پھیلنے سے روکا ہے، جہاں صورتحال مزید بگڑنے کے بجائے بہتری کی طرف گئی، وہاں کسی میڈیسن یا ویکسین کے ذریعے اسے روکا نہیں گیا بلکہ پُراثر لاک ڈاؤن کے ذریعے اسے قابو کر نے کی کوشش کی گئی۔
چین کی مثال دیکھ لیں ابتدا میں کرونا نے یہاں سے سر اٹھایا تھا لیکن عوام کا تعاون اور حکومت کا متفقہ لائحہ عمل کام کر گیا اور وبا سے دو ہاتھ کر لیے گئے۔ بنیادی نکتہ یہاں غوروخوض کا یہ ہے کہ عوامی شعور کی جھلک کار فرما نظر آتی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے شعور انسان سازی سے بیدار ہوتا ہے۔ اگر ہم چین کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک پر نظر ڈالیں تو وہاں بھی گاہے بگاہے بہتری کے آثار نظر آتے ہیں۔ ڈنمارک میں تعلیمی ادارے کھل چکے ہیں اور جرمنی نے کرونا سے نمٹنے میں مؤثر کردار ادا کیا ہے۔ بہتر انتظامی صلاحیتوں کی بنیاد پر وہاں شرح اموات ایک فیصد سے بھی کم اور صحت یاب ہونے والوں کی تعداد پچاس فیصد سے زائد ہے۔ ایسا احتیاطی تدابیر اپنانے کے باعث ممکن ہوا ہے۔ اس وبا کا بہترین علاج محدود رہیں محفوظ رہیں میں مضمر ہیں۔
لیکن یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے کہ وطن عزیز غیر معینہ مدت تک لاک ڈاؤن کا متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ یہاں پہلے سے معاشی حالات دگرگوں ہیں۔ مزید کرونا نے زخموں کو ارزاں کیا ہے۔ یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے لاک ڈاؤن سے غریب طبقہ شدید متاثر ہوا ہے، حکومت نے معاشی مداوا کے لیے احساس پروگرام کے تحت غریب طبقے کی مالی کفالت کے لیے اہتمام کیا ہے مگر تاسف یہ ہے کہ اب بھی کافی مستحق لوگ اس سے مستفید نہیں ہو رہے۔ ان کے لیے لاک ڈاؤن کسی دوہرے عذاب سے کم نہیں۔
دنیا کے دیگر ممالک میں لاک ڈاؤن مؤثر ثابت ہونے کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ ایک تو ان ممالک کا معاشی نظام پاکستان کی نسبت زیادہ سنبھلا ہوا ہے، دوئم وہاں حکومت مذہبی طبقات اور عوام میں کوآرڈی نیشن ہے۔ اس وجہ سے ان کا لاک ڈاؤن مؤثر ثابت ہو رہا ہے۔ ہم سادہ الفاظ میں کہہ سکتے ہیں کہ وہاں عوام میں شعور کوٹ کوٹ کر بھرا ہے، کسی سیاسی مذہبی انتشاروافتراق کی فضا قائم نہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں تیسری بار لاک ڈاؤن ہونے جا رہا ہے لیکن شرح اموات کم ہونے کے بجائے بڑھتی جا رہی ہے۔ لاک ڈاؤن کا ایک شو شہ چھوڑا ہوا ہے، بہتر طریق سے اس پر عمل نہیں کیا جا رہا۔
ایک تو ہمارے ہاں کرونا کے موسم میں سیاسی ماحول بھی گرم نظر آیا، دشنام طرازی لفظی گولہ باری کا کھیل جاری ہے۔ سیاسی افتراق نے بھی اس صورتحال کو گھمبیر بنا دیا ہے۔ بعض مذہبی علم الرائے یہ کہتے ہیں کہ جب عوام کا ایک بے ہنگم رش مارکیٹوں بازاروں میں بے لگام گھو م رہا ہے تو مساجد کو کھولنے پہ بعض کیوں معترض ہیں۔ پھر یوں ہوا کہ ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کا جواز مل گیا، پھر ہم نے ریاستی مؤقف بھی جانا۔ ہمیشہ کی طرح گنجلک۔
مساجد کو بند رکھنا یا ماہ صیام میں تراویح مؤخر کرنا اہل ایمان کے لیے تکلیف دہ ہے لیکن یہ سب وبا کے پیش نظر عارضی طور پر کیا جا رہا ہے انسانی جانوں کا معاملہ ہے۔ یہ حقیقت ہے علما کرام کی آرا اور تجاویز ہمارے لیے محترم ہیں۔ کیا ہوتا اگر علما کرام اپنے خطبات میں لوگوں کو گھروں میں رہنے اور وبا سے بچنے کے لیے احتیاطی تدبیر کی تلقین کرتے، لوگ اس پر من و عن عمل کرتے، لیکن علما کرام کی طرف ماسوائے چند کے خاطر خواہ دلچسپی دیکھنے میں نہیں آئی اب ڈاکٹر دھاڑیں مار رہے ہیں۔ لاک ڈاون پر سختی سے عمل کروایا جائے لیکن سننے والا کوئی نہیں۔
خاکم بدہن اگر آنے والے دنوں میں یہ سلسلہ کم ہونے کے بجائے بڑھ گیا پھر تو سائنس اور کامن سینس بھی کام نہیں آئیں گے۔