موذی وبا اس وقت چین سے 95 فیصد رخصت ہو چکی ہے۔ پچھلے کئی دنوں سے چین میں کوئی موت رپورٹ نہیں ہوئی۔ یورپ کے کچھ ممالک میں وبا کا زور ٹوٹ گیا ہے۔ یورپ کے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملک اٹلی میں 4 مئی سے لاک ڈاؤن میں نرمی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ سپین اور جرمنی میں بھی وبا کا عروج ختم ہو چکا ہے۔ تاہم، یورپ کے کچھ ممالک، بالخصوص برطانیہ اور فرانس، میں وبا عروج پر ہے۔ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے صحت مند ہونے کے بعد پرائم منسٹر آفس کا چارج سنبھال لیا ہے اور لاک ڈاؤن میں کسی قسم کی نرمی کا عندیہ نہیں دیا۔ امریکہ کی کچھ ریاستوں نے لاک ڈاؤن میں نرمی کا اعلان کیا ہے لیکن نیو یارک سیمت دیگر اہم اور زیادہ تر ریاستوں میں وبا پورے عروج پر ہے، خاض طور پر نیو یارک تو اموات کا گڑھ بن گیا ہے۔ وہاں لاک ڈاؤن بھرپور طریقے سے نافذ ہے۔
پاکستان، بھارت اور دیگر جنوبی ایشیائی ممالک میں وبا پورے عروج پر ہے۔ جنوبی ایشیا کے عوام اپنے مضبوط قوت مدافعت کے انسانی نظام کے باعث وبا کی ہولناک تباہ کاریوں سے محفوظ ہیں۔ بھارت اور دیگر ممالک میں لاک ڈاؤن میں بالکل نرمی نہیں کی جا رہی۔ سعودی عرب میں رمضان المبارک کی آمد کے باوجود مساجد بند رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، مگر پاکستان میں ایسا نہیں ہوا۔ ہم چونکہ پوری اسلامی دنیا میں سب زیادہ اسلام کے علم بردار ہیں لہٰذا صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی اور علمائے کرام کے درمیان ایک 20 نکاتی اعلامیہ جاری کیا گیا ہے۔ مساجد رمضان المبارک کے دوران نماز تراویح اور دیگر نمازوں کے لئے کھلی رہیں گی اور نمازیوں کے درمیان سماجی دوری برقرار رکھی جاے گی۔
اس فیصلے کے خوفناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ پہلے کراچی، بعد میں لاہور اور اسلام آباد کے ڈاکٹروں نے حکومت سے اس فیصلے پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی علما کرام کے ساتھ نشست در نشست کر رہے تھے، اس میں سینیئر ڈاکٹروں کا ایک گروپ بھی موجود ہوتا اور علما کو اس وبا کی ہولناکیوں کے بارے میں بتاتا مگر افسوس ایسا نہیں ہوا۔ صدر پاکستان نے علمائے کرام کو تو اہمیت دے دی مگر اس جنگ میں صفِ اوّل کے سپاہیوں کو اپنے پاس بٹھانا مناسب نہیں سمجھا۔
ریاست کے سربراہ نے علمائے کرام کے مطالبے کو مان کر اپنی کمزوری کا اظہار کیا ہے۔ ریاست کو حکم دنیا چاہیے اور عملدرآمد کرانا چاہیے۔ کل اگر اس غلط فیصلے کے خطرناک نتائج برآمد ہوئے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ علمائے کرام یا صدر پاکستان؟ کس سے باز پرس کی جائے گی؟ اور اگر وبا کی شدت کے دوران ڈاکٹروں نے ہاتھ کھڑے کر دیے تو پھر کیا ہو گا؟ خدا نہ کرے ایسا ہو مگر چونکہ ایسا ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ اس لئے صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔
ہم نے دیکھا ہے کہ جناب صدر پاکستان خود جڑواں شہر کی مساجد میں جا کر دیکھ رہے ہیں کہ نمازیوں کے درمیان سماجی دوری برقرار ہے کہ نہیں۔ پاکستان صرف جڑواں شہروں تک محدود نہیں۔ کاش صدر پاکستان بازاروں میں جا کر بھی دیکھیں جہاں روزمرہ کی اشیا، دالوں، سبزیوں، گوشت، پھلوں کی قمیتوں میں اضافے کا کوئی نوٹس نہیں لے رہا۔ رمضان المبارک صرف مساجد تک محدود نہیں ہے۔ اس مقدس ماہ صیام کو سیزن سمجھنے والے شاطین کو کون قید کرے گا؟ کچھ ان کا بھی سدباب کرنا ہو گا۔
دوسری طرف دنیا میں کرونا نے ایک روز ختم ہونا ہے۔ بعد از کرونا وائرس دنیا ایک نئی سمت طے کرے گی۔ اس پوری دنیا کے سامنے ایک نکتہ جواب طلب ہے کہ آیا دنیا کو جدید ہتھیاروں کی ضرورت ہے یا بہترین صحت کے نظام کی؟ اس موذی وبا نے پوری دنیا کے جدید ترین ممالک، جن میں امریکہ چین، یورپ شامل ہیں، کے صحتِ عامہ کے نظام کو عریاں کر دیا ہے۔ وبا کے عروج پر تمام ممالک اس کرونا وائرس کے سامنے بے بس نظر آئے۔ دنیا کی 70 سے زائد دوا ساز کمپنیوں نے ویکسین کی تیاری پر کام شروع کر دیا ہے۔ اور جانوروں کے بعد انسانوں پر تجربات شروع کر دیے ہیں۔ چند ماہ تک توقع ہے ویکسین تیار ہو جائے گی۔ مگر ترقی یافتہ ممالک کے سربراہان کے سامنے ایک نکتہ چیلنج بن کر کھڑا ہو گا کہ اربوں ڈالر کے ہتھیار بنانے بنام دفاع اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ضروری ہے کہ اپنے ملک کے صحت عامہ کے نظام کو بہتر بنانا ضروری ہے؟
امریکہ جیسا جدید ترین ملک جو ہتھیاروں پر اربوں ڈالر خرچ کرتا ہے وہ اپنے ملک میں صحتِ عامہ کا شعبہ ایسا نہ بنا سکا جو اس وبا کا مقابلہ کر سکتا۔ نیویارک شاید دنیا کا جدید ترین شہر ہے مگر اس کے حالات سب کے سامنے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے حکمران اور عسکری اشرافیہ بھی اس سوال کی جوابدہ ہے۔ آپس میں نفرت کے نام پر اربوں روپے کے ہتھیار بنانے کا کیا فائدہ ہوا؟ ایٹم بم، گولہ، بارود، ٹینک، جنگی طیاروں نے کیا فائدہ دیا؟ وبا کے دنوں میں ضروت پڑی تو وینٹیلیٹر کی اور حفاظتی کٹس کی جو پوری دنیا میں قلت کا شکار ہوئیں۔ دنیا بعد از کرونا وائرس محتلف ہو گی۔ یہ سوال صرف پاکستان اور بھارت سے نہیں ہو گا بلکہ امریکہ، یورپ، چین سب کی حکمران اشرافیہ سے ہو گا کہ اب ہمیں ہتھیاروں کی نہیں صحت عامہ کے نظام کی ضرورت ہے۔
حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔