کیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ریفرنس سازش تھا؟ : 'مجھ سے کہا گیا آپ آئین کو چھوڑیں، ہم دیکھ لیں گے'

کیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ریفرنس سازش تھا؟ : 'مجھ سے کہا گیا آپ آئین کو چھوڑیں، ہم دیکھ لیں گے'
سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ نے اپنے ہی ایک جج جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق عدالتی فیصلے پر نظرثانی کی اپیلیں منظور کر لی ہیں اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو سمیت تمام فورمز پر اس سلسلے میں جاری قانونی کارروائی کو کالعدم قرار دیا ہے۔

گذشتہ سال جون میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کے فیصلے میں عدالت نے ایف بی آر کو ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کی جائیداد اور ٹیکس کے معاملات دیکھنے کے بارے میں حکم دیا تھا اور اس کی رپورٹ سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے پاس جمع کروانے کی ہدایت کی تھی۔

اب اس حوالے سے  سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے ایک انترویو میں  چشم کشا انکشافات کیئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف یہ کیس دراصل حکومتی سطح پر تیار کی گئی سازش تھی جس میں مبینہ طور وزیر اعظم بذات خود بھی شامل تھے۔

  بشیر میمن نے کیا کہا ؟

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف تحقیقات کی  ذمہ داری دینے کی کوشش اور  وزیر اعظم سے ملاقات

مجھے وزیر اعظم ہاؤس سے فون آیا کہ ہماری میٹنگ ہے۔  میں گیا تو شہزاد اکبر اور اعظم خان موجود تھے۔ مجھے وزیر اعظم کے پاس لےگئے۔ مختصر سی ملاقات ہوئی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ  بشیر ہمت کرنا آپ اچھے افیسر ہیں۔ آپ نے ہمت کرنی ہے۔ اس کیس میں بھی مجھے تناظر کا معلوم نہیں تھا کہ یہ کس کیس کے بارے میں بات ہو رہی ہے۔

وزیر قانون اور مشیر احتساب شہزاد اکبر سے ملاقات

شہزاد اکبر نے مختصر  ملاقات کے بعد اہنے ہاں کے جا کر مجھے بتایا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کیس بنانا ہے جس کے لیئے انکوائری کرنی ہے۔ میں نے کہا معاف کیجیے آپ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بات کر رہے ہیں؟ سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج؟ اور انکی اہلیہ؟ شہزاد اکبر نے کہا کہ ہاں تو کیا؟ میں نے کہا کہ کیا کر رہے ہیں؟ ایف آئی اے؟ حکومتیں ایسا نہیں کیا کرتیں۔ انہوں نے کہا کہ نہیں نہیں یہ سب قانونی طور پر جائز ہے۔ ہم تینوں نکلے اور  وزیر قانون کے دفتر میں آگئے۔ وہاں کمشنر انکم ٹیکس ڈاکٹراشفاق اور فروغ نسیم تھے۔  کہا گیا کہ میمن صاحب کو تحفظات ہیں ۔ جس پر آگے سے  کہا گیا کہ  کوئی مسئلہ نہیں ہے اس میں معاملہ ٹھیک ہے۔ میں نے کہا کہ تحفظات نہیں بھائی وزیر اعظم کو ہمیں سمجھانا چاہئے کہ ایسے نہیں ہوتا۔ ایف آئی اے نہیں کر سکتی یہ۔ یہ سپریم جوڈیشل کونسل کا کام ہے۔  مجھے بالکل درست آئینی شق تو نہیں معلوم تھی لیکن بطور تفتیشکار مجھے یہ پتہ تھا کہ یہ میرے اختیار میں نہیں۔

سب سنبھال لیا جائے گا، آئین کو چھوڑیں: فروغ نسیم کے دفتر میں مکالمہ

مجھے کہا گیا کہ ہمارے پاس کاغذات موجود ہیں۔ فروغ نسیم نے کہا کہ کیا ہوگیا ہے؟ آپ نے تو کراچی میں نوکری کی ہے۔ کیا کبھی میں کوئی کیس ہارا ہوں؟ میں نے کہا خدا کا نام ہے۔ یہ سپریم کورٹ کا جج ہے اور ہم اس کے خلاف بیٹھ کر کیس بنا رہے ہیں۔ خدا کا واسطہ ہے۔ میں نے جھگڑا نہیں کیا لیکن میں نے کہا کہ آپ پاکستان کے آئین و قانون  کو بدلنا چاہتے ہیں کہ ایف آئی اے ججز کی انکوائری کرے گی؟ جس پر شہزاد اکبر اور اعظم خان کہنے لگے کہ آئین کو چھوڑیئے آپ، فروغ نسیم زیادہ جانتے ہیں۔

قانون کی دھجیاں بکھیر دینے پر مائل بیوروکریٹ کو بشیر مین کی نصیحت

میں نے پھر اشفاق کو سمجھایا کہ دیکھو میں اور اعظم خان گریڈ بائیس میں ہیں اپنے کرئیر کے عروج پر ہیں ہم ایک سال میں چکے جائیں گے تم جونئر ہو تمہاری 9 10 سال کی نوکری ابھی باقی ہے۔ یہ نہ کرو۔ ان کو تو کوئی پوچھے گا نہیں کندھا ہمارا استعمال ہورہا ہے۔ ماحول میں ایک تناو پیدا ہو چکا تھا۔ مجھے معلوم ہوگیا کہ  معاملات اب غلط جانب جانے لگے ہیں۔ میں نے اشفاق کو کہا کہ میں بطور ایس پی بطور آئی جی مجسٹریٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک کے سامنے پیش ہوتا رہا ہوں ایک جج یہ لکھ دے کہ میں اپنے دفتر نہیں جا سکتا تو ختم سب کچھ۔

تم کیا کر رہے ہو اس سے تمہیں کیا ملے گا۔ تو آگے سے کہنے لگے کہ سر دیکھیں نا کہ انہوں نے فلاں فیصلہ ٹھیک نہیں کیا وہ فیصلہ یوں تھا وغیرہ وغیرہ۔ مجھے ان کے فیصلوں میں دلچسپی تھی نہ ہی وہ میرا کام تھا۔   میں نے کہا کہ میں وزیر اعظم کو بھی ملا تو انہیں یہی سمجھاوں گا۔

یہ ملاقاتیں کب ہوئیں؟

 

بشیر میمن کہتے ہیں کہ  میں شاید زندگی میں ایک بار جسٹس عیسی' کی عدالت میں پیش ہوا اور  دور سے ہی انہیں دیکھا۔ بس وہ تو مجھے جانتے بھی نہیں۔ لیکن بات یہ ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے جج ہیں بات ختم۔  یہ سب تب ہوا یہ ملاقات تب ہوئی۔  جب برطانیہ کی کسی فرم کے ساتھ ہمارا معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت انگلینڈ میں پراپرٹیز کے حوالے سے ڈیٹا آیا تھا۔ میں نے صاف انکار کردیا تھا۔  پھر کچھ عرصے بعد شہزاداکبر نے دوبارہ مجھے کہا کہ جسٹس عیسی' اور انکی اہلیہ کا سفری ریکارڈ  درکار ہے۔ جس پر میں نے ایک بار پھر انکار کردیا کہ یہ خفیہ اور مقدس ریکارڈ ہے۔ مجھے تب اندازہ ہوا کہ جسے میں ختم شد سمجھ رہا تھا وہ ابھی تک چل رہا ہے۔ شکر ہے کہ میں اس کا حصہ نہیں بنایا۔

صحافی کا سوال کہ آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں اسکا آپ کے پاس کیا ثبوت ہے؟

اس پر انکا کہنا تھا کہ آپ ان تاریخوں کو اس سے میچ کر لیں اور باقی ریکارڈ اور سی سی ٹی وی فوٹیج ہوتی ہے۔ باتیں بند کمروں میں ہوئیں۔ میں ہمیشہ کہتا تھا کہ قانون یہ ہے یہ ہو سکتا ہے یہ قانون نہیں ہے تو یہ نہیں ہوسکتا۔  ججز کا احتساب سپریم جوڈیشل کونسل ہی کر سکتی۔ ایف آئی اے نہیں کر سکتی تو ایف بی آر بھی نہیں کر سکتی۔

جب کہ وہ اس سازش سے آگاہ تھے تو اس وقت وہ چپ کیوں رہے؟

میں چپ اس لیئے رہا کہ میں سمجھتا رہا کہ میں ان سب کو منا چکا ہوں۔ مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا کہ اندر ہی اندر ہمارے ایف بی آر کے  کمشنر صاحب تو کام پر لگے ہوئے ہیں۔ اور میں کس کو بتاتا جسٹس قاضی کو کہ آپ کے خلاف سازش ہو رہی ہے؟ وہ خشک سے آدمی ہیں۔ میں مانتا تھا کہ سچ غالب آئے گا۔  کیا آپ عدالت آئیں گے۔ کیوں نہیں آؤں گا۔ میں پابند ہوں کہ میں آؤں گا۔

نواز شریف اور دیگر اپوزیشن لیڈرز کے خلاف بے بنیاد مقدمات بنانے سے انکار قبل از وقت استعفی' کی وجہ

بشیر میمن کہتے ہیں کہ ریٹائرمنٹ سے تین چار ماہ قبل میں عمرے کے لیے چھٹی لے کر جا رہا تھا تو دو روز قبل ہی  پیغام ملا کہ وزیر اعظم آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔  اہم کیسز پر بات کرنی ہے۔ تو میں نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ میں جب پہنچا تو معلوم پڑا کہ یہاں تو بہت ناراضگی ہو چکی ہے۔ وجہ یہ تھی کہ میں نے نواز شریف کے خلاف کیسز نہیں بنوائے تھے ۔

وزیر اعظم عمران خان کس کس کو جیل میں ڈلوانا چاہتے تھے؟

ان کا خیال تھا کہ اورنج ٹرین پر شہباز شریف کو جیل جانا چاہیے حمزہ شہباز کے خلاف بہت سارے کیسز ہونے چاہیے۔ کپٹین صفدر کے خلاف کیسز ہونے چائیں  سلمان شہباز پر کیسز ہونے چاہیے ہیں۔ جاوید لطیف پر مقدمہ ہو، خواجہ آصف پر غداری کا مقدمہ ہو۔ جبکہ خواجہ سعد رفیق اور مصطفی' نواز کھوکھر پر مقدمہ ہو۔ نفیسہ شاہ اور خورشید شاہ کو جیل میں ہونا چاہیے۔  افتخار چوہدری کے بیٹے ارسلان افتخار کو جیل میں ہونا چاہیئے۔ مجھے لگتا ہے کہ ان سب پر جو میں انہیں کہتا تھا کہ ان کے خلاف کچھ نہیں ملتا۔ قانون کے خلاف ثبوت ملے گا تو کریں گے گرفتار ہر کسی کو۔ شاید یہی بات ان کو پسند نہیں آئی۔ انہوں نے مجھے کہا کہ میرے دوستوں کے تم پیچھے پڑ جاتے ہو۔ عارف   نقوی کے پیچھے پڑ گئے۔ اسکی کمپنی بند کردی۔ میں نے کہا کہ میں ایک غریب آدمی ہوں میں یہ کیسے کر سکتا ہوں؟ ہم نے اس کے خلاف رقم ثابت کی ہے 87 ارب روپیہ ہے وہ واپس کرے اور جائے