کل شام چھ بجے کے قریب ایک ذریعے نے رابطہ کر کے خبر دی کہ صبح 9 بجے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ ایف بی آر کے اویکیو ٹرسٹ میں واقع دفتر میں پیش ہوں گی۔ یاد رہے کہ کچھ روز مخصوص حلقوں کی نمائندہ نام نہاد میڈیا برگیڈ اور سوشل میڈیا سیل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سوشل میڈیا پر سرگرم تھے کہ وہ ایف بی آر کے نوٹس وصول نہیں کر رہے۔ حالانکہ وہ نوٹسز جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے لئے تھے ہی نہیں اور ان کی اہلیہ والد کی وفات کی وجہ سے کراچی میں تھیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے کراچی سے واپس آ کر اپنے نام پر آنے والے نوٹس وصول کیے اور اب ذرائع بتا رہے تھے کہ وہ جمعرات صبح 9 بجے ایف بی آر پیش ہوں گی۔
ذرائع نے ایک مخصوص حلقے کے نمائندہ صحافیوں اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی طرف سے دیوار پر نوٹس چسپاں کر دینے کی خبروں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے بتایا کہ صرف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ 25 جون کو اپنے والد کی وفات والے دن نوٹس وصول نہیں کر سکی تھیں اور اس کے بعد ایف بی آر نے نہ تو نوٹس بھیجے اور نہ ہی ججز کالونی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے گھر کی دیوار پر چسپاں کیے۔ اب جیسے ہی وہ کراچی سے واپس آئی ہیں تو انہوں نے نوٹس نہ صرف وصول کیے بلکہ تعمیل کے لئے ایف بی آر بھی پیش ہوں گی۔ ویسے تو میں مختصر نیند لینے کی وجہ سے جلدی جاگنے کا عادی ہوں لیکن پیغام سنتے ہی احتیاطً صبح سات بجے کا الارم لگا دیا۔
صبح تیار ہوا اور 8 بج کر 23 منٹ پر ایف بی آر کے دفتر کی طرف روانہ ہو گیا۔ 8 بج کر 40 منٹ پر اویکیو ٹرسٹ کے دفتر پہنچ کر لوگوں سے پوچھا کہ کیا یہاں ایف بی آر کا کوئی دفتر ہے تو عمارت میں موجود اکا دکا لوگوں میں سے ایک نے بتایا کہ جی ہاں چوتھی منزل پر ہے لیکن وہ دس بجے کھلتا ہے۔ ٹہلتا ہوا گراؤنڈ فلور پر موجود کیفے ٹیریا چلا گیا اور جوس لے کر باہر آ گیا۔ چند منٹ انتظار کیا اور پھر سوچا ایف بی آر کا دفتر تو جا کر دیکھ لوں۔ ٹہلتا ٹہلتا واپس عمارت کے اندر گیا اور واک تھرو گیٹ کے پاس موجود گارڈ سے پوچھا لفٹ کہا ہے؟ اس نے ایک راہداری کی طرف اشارہ کیا کہ وہاں۔۔ وہ راہداری پوری دیکھ لی لیکن لفٹ نظر نہ آئی، واپس باہر آیا تو ایک شخص نے بتایا اگلی راہداری میں جائیں، لفٹ وہاں ہے۔
لفٹ سے چوتھی منزل پر پہنچا تو اگلی ہی راہداری میں ایف بی آر کا دفتر تھا۔ دفتر کے اندر روشنی دیکھ کر دروازہ ہلایا تو اندر سے بند تھا لیکن اسی دوران اندر سے ایک باوردی گارڈ نمودار ہوا اور اس نے پوچھا جی کسی سے ملنا ہے؟ میں نے جواب دیا کہ یہ ایف بی آر کے کس ڈیپارٹمنٹ کا دفتر ہے؟ اس نے کہا یہ تو مجھے نہیں پتہ اور افسر دس بجے آئیں گے۔ گارڈ سے سوال کیا کہ ابھی دفتر میں کوئی ہے تو اس نے جواب دیا کہ ٹھہریے بلاتا ہوں لیکن وہ افسر نہیں ہیں۔ میں نے جواب دیا کوئی مسئلہ نہیں آپ ملوا دیں۔ گارڈ نے دفتر کے اندر بلا لیا اور میرا ٹمپریچر چیک کیا۔ دفتر میں داخل ہوتے ساتھ ہی بائیں ہاتھ پر کانفرنس روم تھا جس کے بعد استقبالیہ اور سامنے نیلے رنگ میں ایف بی آر کا لوگو روشنیوں سے جگمگا رہا تھا۔ سفید دیواروں اور کالے فرنیچر والے دفتر کے استقبالیہ پر جا کر کھڑا ہو گیا۔ بعد ازاں آنے والے صاحب کو اپنا تعارف کروایا اور پوچھا کہ یہ ایف بی آر کا کون سا ڈیپارٹمنٹ ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ سر یہ آئی ار ایس ڈیپارٹمنٹ ہے جو بیرون ملک جائیدادوں کے امور دیکھتا ہے۔ اگلا سوال پوچھا کہ کیا یہاں ان لینڈ کے ریونیو ڈیپارٹمنٹ کے کمشنر بھی بیٹھتے ہیں؟ تو اس نے جواب دیا کہ جی ہاں ذوالفقار احمد صاحب بیٹھتے ہیں۔ شکریہ ادا کیا اور واپس نیچے آ کر عمارت کے باہر کھڑا ہو گیا۔ 9 بج کر 50 منٹ پر جیو نیوز کے نمائندے زاہد گشکوری بھی آ گئے اور گپ شپ شروع کر دی۔
پھر 10 بج کر 40 منٹ پر ایک پرائیویٹ منی پیجرو گاڑی کو خود ڈرائیو کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اویکیو ٹرسٹ کی پارکنگ میں داخل ہوئیں۔ مسز سرینہ عیسیٰ کھوسو کے ساتھ نوجوان وکیل کبیر ہاشمی تھے۔ زاہد گشکوری کے ساتھ تیز تیز چلتے بیگم جسٹس عیسیٰ کے پاس پہنچے تو زاہد گشکوری نے سوال پوچھا کہ آپ آج کیا جواب دیں گی؟ مسز سرینہ عیسیٰ کھوسو نے جواب دیا کہ میں کمنٹ نہیں کروں گی۔ لاٹھی کے سہارے آہستہ آہستہ چلتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ عمارت میں داخل ہوئیں۔ ان کو بھی گارڈ نے وہی راہداری بتائی اور وہ بھی میری طرح پہلی راہداری میں داخل ہو گئیں تو میں نے پیچھے سے ہلکی سی آواز دے کر بتایا کہ لفٹ اگلی راہداری میں ہے۔ مسز سرینہ عیسیٰ کھوسو اور کبیر ہاشمی پلٹے اور بیگم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے میرا شکریہ ادا کیا اور لفٹ والی راہداری میں چلے گئے۔
https://twitter.com/asadatoor/status/1281129165148819461
پہلے سوچا ان کے ساتھ لفٹ میں داخل ہو جاؤں۔ پھر سوچا ٹھیک ہے رپورٹر ہوں لیکن اتنا بھی مت پیچھا کروں کہ وہ برا مان جائیں تو بھاگتا ہوا سیڑھیوں سے اوپر پہنچ گیا۔ دیکھا تو اہلیہ جسٹس عیسیٰ اور کبیر ہاشمی ایف بی آر دفتر میں داخل ہو رہے تھے۔ دفتر کے باہر پہنچا تو گارڈ نے شناسا چہرہ دیکھ کر کہا ابھی صاحب نہیں آئے۔ میں نے نرمی سے پوچھا کیا میں اندر استقبالیہ پر بیٹھ کر انتظار کر سکتا ہوں تو اس نے مجھے لے جاکر انتظار گاہ میں بیٹھا دیا۔
ذرائع کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور کبیر ہاشمی کو سیدھا کمشنر ان لینڈ ریونیو ذوالفقار احمد کے کمرے میں بٹھایا گیا۔ ذرائع نے بتایا کیونکہ کمشنر ان لینڈ ریونیو ابھی دفتر نہیں آئے تھے تو ڈپٹی کمشنر خورشید عالم نے جا کر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کو آگاہ کیا کہ کمشنر صاحب پہنچنے والے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد کمشنر ان لینڈ ریونیو ذوالفقار احمد خود بھی دفتر پہنچ گئے اور انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سے دستاویزات وصول کیں۔ ذرائع کے مطابق مسز سرینہ عیسیٰ کھوسو نے کراچی امریکن سکول میں سے اپنی آمدن، کلفٹن میں خریدی گئی اور بعد ازاں فروخت کردہ جائیداد، زرعی رقبہ کی تفصیلات اور سٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک کے ذریعے بیرون ملک بھجوائی گئی رقم کی دستاویزات ایف بی آر کمشنر ان لینڈ ریونیو ذوالفقار احمد کو پیش کر دیں جب کہ برطانیہ میں موجود جائیدادوں کی دستاویزات بھی جمع کروائیں۔
کمشنر ان لینڈ ریونیو ذوالفقار احمد نے اہلیہ جسٹس عیسیٰ کو بتایا کہ وہ اب ریکارڈ کا جائزہ لے کر ان سے مزید درکار معلومات طلب کریں گے۔ کمشنر ان لینڈ ریونیو نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور کبیر ہاشمی کو لفٹ تک چھوڑا۔ ذرائع کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کے رخصت کے فوری بعد کمشنر ان لینڈ ریونیو ذوالفقار احمد نے جمع کروائی گئی دستاویزات کے جائزہ کے لئے اجلاس بلا لیا۔
قارئین کی معلومات کے لئے بتاتا چلوں کہ سپریم کورٹ کی طرف سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کا معاملہ ایف بی آر کو بھجوانے کے بعد ایف بی آر میں بھی کچھ دلچسپ تعیناتیاں اور تبادلے ہوئے ہیں۔ ڈی جی انٹرنیشنل ٹیکسز اشفاق صاحب کو ترقی دے کر ممبر انٹرنیشنل ریونیو آپریشن تعینات کر دیا گیا ہے۔ دلچسپی کی بات ہے کہ ہٹائی جانے والی چیئرمین ایف بی آر نوشین امجد جاوید نے صرف دس روز قبل ندیم رضوی کو ممبر انٹرنیشنل ریونیو آپریشن تعینات کیا تھا لیکن نامعلوم وجوہات کی وجہ سے ان کو صرف دس دن میں ہٹا کر ڈی جی انٹرنیشنل ٹیکسز کو ممبر انٹرنیشنل ریونیو آپریشن تعینات کردیا گیا۔
اسی طرح نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر چیئرپرسن ایف بی آر نوشین امجد جاوید کو صرف تین ماہ بعد ہی بدل کر جاوید غنی کو نیا لیکن تین ماہ کے لئے چیئرمین ایف بی آر تعینات کر دیا گیا ہے۔ بظاہر ایک چیئرمین ایف بی آر جس کی نوکری کا مستقبل تین ماہ بعد پھر سے ایگزیکٹو کے ہاتھ میں ہوگا وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے کیس کی انکوائری کروانے میں کتنا خودمختار ہوگا، یہ سمجھنے کے لئے ہمیں نوم چوسکی ہونے کی ضرورت نہیں۔
بہرحال آج ابتدائی جواب داخل ہو گیا ہے اور ذرائع کا دعویٰ ہے کہ آنے والے دنوں میں مزید تفصیلات بھی طلب کی جائیں گی۔ ایف بی آر ذرائع کا کہنا تھا کہ ہماری ترجیح تھی کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ خود نہ آتیں، صرف دستاویزات کسی نمائندے کے ذریعے بھجوا دی جاتیں لیکن وہ خود آ گئیں۔