جج کو 7 روز میں مداخلت رپورٹ کرنے کا پابند ہونا چاہیے، اسلام آباد ہائیکورٹ کی تجویز

ذرائع کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے تجویز دی گئی کہ سول جج اور سیشن جج ہائیکورٹ کے انسپکشن جج کو مداخلت سے آگاہ کرے اور انسپکشن جج چیف جسٹس ہائیکورٹ کے نوٹس میں مداخلت کا معاملہ لائے۔ہائیکورٹ ایڈمنسٹریٹو کمیٹی معاملے کو ایڈمنسٹریٹو یا جوڈیشل سائیڈ پر دیکھنے کا حتمی فیصلہ کرے۔ جبکہ ایڈمنسٹریٹو کمیٹی معاملے کو سنگینی کے پیش نظر فل کورٹ میں بھی بھیج سکے۔

جج کو 7 روز میں مداخلت رپورٹ کرنے کا پابند ہونا چاہیے، اسلام آباد ہائیکورٹ کی تجویز

چھ ججز کے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھنے کے معاملے میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔اسلام آباد ہائیکورٹ نے متفقہ تجاویز سپریم کورٹ کو ارسال کر دی ہیں۔ تجاویز میں کہا گیا ہے کہ سات روز میں مداخلت رپورٹ نہ کرنے والے جج کو مس کنڈکٹ کا مرتکب ٹھہرایا جائے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے بھیجی گئی تجاویز میں ججز کوڈ آف کنڈکٹ میں ترمیم کا مجوزہ ڈرافٹ بھی شامل کیا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق تجویز کردہ ججز کوڈ آف کنڈکٹ ڈرافٹ چھ سے سات صفحات پر مشتمل ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے تجویز دی گئی ہے کہ کسی قسم کی مداخلت پر ادارہ جاتی ردعمل ہونا چاہیے۔ سول جج ، سیشن جج اور ہائی کورٹ جج کسی قسم کی مداخلت رپورٹ کرنے کا پابند ہونا چاہیے اور مداخلت سے متعلق سات روز میں رپورٹ کرنا لازم ہونا چاہیے۔

تجویز کے مطابق سات روز میں مداخلت رپورٹ نہ کرنے والے جج کو مس کنڈکٹ کا مرتکب ٹھہرایا جائے۔

ذرائع کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے تجویز دی گئی کہ سول جج اور سیشن جج ہائیکورٹ کے انسپکشن جج کو مداخلت سے آگاہ کرے اور انسپکشن جج چیف جسٹس ہائیکورٹ کے نوٹس میں مداخلت کا معاملہ لائے۔ہائیکورٹ ایڈمنسٹریٹو کمیٹی معاملے کو ایڈمنسٹریٹو یا جوڈیشل سائیڈ پر دیکھنے کا حتمی فیصلہ کرے۔ جبکہ ایڈمنسٹریٹو کمیٹی معاملے کو سنگینی کے پیش نظر فل کورٹ میں بھی بھیج سکے۔

تجویز کے مطابق حتمی طور پر ہائیکورٹ ادارہ جاتی اتفاق کے ساتھ توہین عدالت کا اپنا اختیار استعمال کر سکے گی۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے عدالتی معاملات میں ’انٹیلی جنس ایجنسیوں‘ کی مداخلت کے الزامات کی تحقیقات کے لیے دائر تمام 10 درخواستوں کو یکجا کر کے 30 اپریل کو سماعت کے لیے مقرر کیا ہے۔

واضح رہے کہ 25 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز نے ججز کے کام میں خفیہ ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت اور دباؤ میں لانے سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا تھا۔

یہ خط اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس سمن رفت امتیاز کی جانب سے لکھا گیا۔

ججز کے خط پر سپریم کورٹ نے دو فل کورٹ اجلاس منعقد کیے جن میں اس معاملے پر غور کیا گیا۔ بعد میں چیف جسٹس پاکستان نے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی۔

اس ملاقات کے بعد 30 مارچ کو ایک رکنی انکوائری کمیشن بنانے کی منظوری دے دی گئی تھی اور جسٹس (ر) تصدق جیلانی کو کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔

وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد جاری اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ اجلاس نے 25 مارچ 2024 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 معزز جج صاحبان کی جانب سے لکھے گئے خط کے مندرجات پر تفصیلی غور کیا۔

اجلاس کو بتایاگیا تھا کہ سپریم کورٹ کے فل کورٹ اعلامیے کے مطابق عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی وزیر اعظم سے ملاقات میں انکوائری کمیشن کی تشکیل تجویز ہوئی تھی۔

تاہم بعد میں جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی نے انکوائری کمیشن کی سربراہی سے معذرت کر لی جس کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کے خط کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے 7 رکنی لارجر بینچ تشکیل دے دیا تھا۔