'پی ٹی آئی کے آزاد امیدوار پارٹی کیلئے خوفناک بحران پیدا کریں گے'

یہ 2434 امیدوار پی ٹی آئی کے لیے بہت بڑا چیلنج بنیں گے۔ اگر ایک حلقے میں پی ٹی آئی سے منسلک 34 امیدوار الیکشن لڑیں گے تو کیسے پتا چلے گا کہ پی ٹی آئی کس کو سپورٹ کر رہی ہے۔ ان امیدواروں میں سے پی ٹی آئی کو کسی ایک کو ہی سپورٹ کرنا ہو گا اور باقی 33 امیدوار کہاں جائیں گے؟

'پی ٹی آئی کے آزاد امیدوار پارٹی کیلئے خوفناک بحران پیدا کریں گے'

کہا جا رہا تھا کہ انتخابات کے دوران پاکستان تحریک انصاف کو کوئی امیدوار ملے گا اور نا ہی کوئی انہیں ووٹ دے گا اور جب یہ ٹکٹ دینے کے لیے ورکرز کو بلائیں گے تو کوئی بھی ان کا ٹکٹ لینے کو تیار نہیں ہو گا تاہم پی ٹی آئی کی جانب سے 2434 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کروا کر ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں امیدواروں کا میدان میں اترنا جہاں حیران کن ہے وہیں یہ آزاد امیدوار پی ٹی آئی کے لیے ایک خوفناک بحران بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ کہنا ہے سینیئر صحافی جاوید چوہدری کا۔

یوٹیوب پر حالیہ وی-لاگ میں جاوید چوہدری نے بتایا کہ 9 اور 10 مئی کے واقعات کے بعد جس طرح بڑی تعداد میں لوگ پی ٹی آئی کو چھوڑ گئے تو یوں لگتا تھا کہ عمران خان جب انتخابات سے قبل امیدواروں کو ٹکٹ کے لیے کال کریں گے تو کوئی بھی پارٹی ٹکٹ لینے کے لیے تیار نہیں ہو گا۔ یہ بھی کہا جاتا تھا کہ ریاست کا جبر اور پریشر بہت ہے تو کوئی شخص بھی پی ٹی آئی کا ٹکٹ لینے کے لیے تیار نہیں ہو گا۔ لیکن جب کاغذات نامزدگی جمع کروانے کا وقت آیا تو مکمل کریک ڈاؤن، آر اوز کی جانب سے دباؤ ڈالنے، دفاتر کے باہر پولیس کی بھاری نفری تعینات ہونے، کاغذات نامزدگی کے چھینے اور پھاڑے جانے اور گھروں پر پولیس کے چھاپوں کے باوجود پی ٹی آئی نے 2434 کاغذات نامزدگی جمع کروا کر پاکستان کی پہلی ایسی پارٹی ہونے کا ریکارڈ قائم کر دیا۔ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ ایک حلقے میں پی ٹی آئی کے 34 امیدواروں نے قومی اسمبلی کی نشست کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کروائے ہیں۔

صحافی نے کہا کہ جب دیگر سیاسی پارٹیوں کا یہ کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کو ٹکٹ لینے والا کوئی امیدوار نہیں ملے گا اور ووٹرز نہیں ہوں گے تو ایسے کڑے وقت میں بھی پی ٹی آئی نے 2434 امیدواروں کے کاغذات نامزدگی جمع کروا دیے ہیں۔ اس سے دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی سیکھنا چاہئیے کہ اگر لیڈر تگڑا ہو تو امیدواروں کا مسئلہ نہیں ہوتا۔ عمران خان جیل میں ہیں، پارٹی کے دفاتر بند ہیں، پارٹی چلانے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ کے مطابق اس وقت پی ٹی آئی واحد سیاسی پارٹی ہے جس کا کوئی سربراہ نہیں ہے۔ اس کے باوجود اتنی بڑی تعداد میں امیدواروں کی جانب سے کاغذات نامزدگی جمع کروائے گئے جو کہ حیران کن بات ہے۔

جاوید چوہدری کا کہنا تھا کہ یہ 2434 امیدوار پی ٹی آئی کے لیے بہت بڑا چیلنج بنیں گے۔ اگر ایک حلقے میں پی ٹی آئی سے منسلک 34 امیدوار الیکشن لڑیں گے تو کیسے پتا چلے گا کہ پی ٹی آئی کس کو سپورٹ کر رہی ہے۔ ان امیدواروں میں سے پی ٹی آئی کو کسی ایک کو ہی سپورٹ کرنا ہو گا اور باقی 33 امیدوار کہاں جائیں گے؟ ان میں سے ہر کوئی یہ دعویٰ کرے گا کہ پارٹی کا اصل امیدوار وہی ہے۔ ایک ایک حلقے میں متعدد امیدوار ہونے کی وجہ سے پی ٹی آئی کا ووٹ بنک تقسیم ہو گا جس کی وجہ سے پارٹی کو نقصان ہو گا۔ آئندہ چند دنوں میں یہ بھی دیکھنے کو ملے گا کہ ایک ہی حلقے میں پی ٹی آئی کے متعدد امیدوار پارٹی کا جھنڈا اور بلا لے کر انتخابی مہم چلا رہے ہوں گے۔ یوں ان کے آپس میں جھگڑے بھی ہوں گے جو پی ٹی آئی کے لیے بہت بڑا چیلنج ہو گا۔

صحافی نے کہا کہ اس کے علاوہ انتخابی نشان کا بھی مسئلہ پیش آئے گا کہ اگر آپ نے ہر حلقے میں امیدوار الیکشن کے لیے کھڑے کیے ہوں گے تو ہر آزاد امیدوار کا انتخابی نشان مختلف ہو گا۔ تو ان کے لیے یہ بھی ایک مشکل ہو گی کہ حلقے کے ووٹر غلطی سے دوسرے امیدوار کو ووٹ نہ دے دیں۔ ایک حلقے کے امیدوار کا نشان اگر لالٹین ہے تو دوسرے حلقے کے امیدوار کا نشان ہاکی تو ووٹر بھی شش و پنج کا ہی شکار رہیں گے کہ انہیں کسے ووٹ ڈالنا ہے۔ پارٹی کے لیے بھی مشکل ہو گا کہ کیسے لوگوں کو آگاہ کریں کہ فلاں حلقے کے امیدوار کا ایک نشان ہے اور فلاں حلقے کے امیدوار کا کچھ اور۔

پی ٹی آئی کے لیے ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہو گا کہ آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ کر آنے والے یہ امیدوار پارٹی ایجنڈا، قوانین اور آئین کے پابند نہیں ہوں گے۔ یہ امیدوار کسی بھی پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت کا حصہ بن سکتے ہیں۔ جب عمران خان استفسار کریں گے کہ آپ کو ٹکٹ تو ہم نے جاری کیا تو وہ جواب دے گا کہ میں آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا ہوں اور ووٹر بھی سارے میرے ہیں، پارٹی کے نہیں۔ اگر اس فارمولے کے تحت پی ٹی آئی الیکشن لڑ کے کامیاب بھی ہو جائے تو ایک ایسی لوٹا کریسی بنے گی جس کا حل عمران خان کے پاس بھی نہیں ہو گا۔ پھر یہ لوگ دھڑا دھڑ دوسری پارٹیوں میں شامل ہوں گے تو عمران خان اور پی ٹی آئی کے ہاتھ میں کچھ نہیں بچے گا۔

صحافی نے کہا کہ سب سے بڑا چیلنج عمران خان کے لیے ان کے وکلا ہوں گے۔ انہوں نے وکلا برادری سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو بڑی تعداد میں پارٹی ٹکٹ جاری کیے ہیں جنہوں نے کاغذات نامزدگی بھی جمع کروا دیے ہیں۔ لیکن اگر عمران خان کے تمام وکلا الیکشن لڑیں گے تو ان کے خلاف دائر 128 کیس کون لڑے گا کیونکہ ان کے سارے وکیل تو انتخابی مہم اور سرگرمیوں میں مصروف ہوں گے۔ ایسے میں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تمام وکلا الیکشن لڑنے میں مصروف ہوں اور عدالتوں میں ان کا کیس لڑنے والا کوئی نہ ہو۔ یعنی آئندہ دنوں میں عمران خان کے لیے اتنا بڑا بحران پیدا ہو جائے گا کہ وہ عدالتوں میں پیشیوں کے لیے موجود ہوں گے لیکن ان کے پاس کوئی وکیل نہیں ہو گا اور اگر ہو گا بھی تو کسی بڑے وکیل کا اسسٹنٹ ہو گا۔ اگر ایک حلقے میں ان کے 4 وکیل امیدوار ہوں گے اور عمران خان کسی 1 کو سپورٹ کریں گے تو باقی 3 وکیل جو مفت میں ان کا کیس لڑ رہے ہیں، ان سے ناراض ہو جائیں گے اور ان کی ناراضگی کا بھگتان بھی عمران خان کو بھگتنا پڑے گا۔