وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ستاروں پر وار کیوں کیا؟

وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ستاروں پر وار کیوں کیا؟
اسلام آباد: وزیر اعظم پاکستان نے سال 2016 میں ٹویٹر پر ایک پیغام میں صوبہ خیبر پختونخوا کی کابینہ میں افواہوں پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ کابینہ کے دو وزیر شہرام خان ترکئی اور محمد عاطف خان دونوں میرے ستارے ہیں اور دونوں نے اپنی وزارتوں میں اچھی کارگردگی دکھائی ہیں مگر بطور وزیر اعظم انہوں نے کل صوبے میں وزیر اعلی محمود خان کے خلاف گروپ بندیوں کے مبینہ الزام میں اپنے دونوں ستاروں سمیت ایک اور وزیر کو بھی کابینہ سے فارغ کیا۔

صوبہ خیبر پختونخوا میں اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے 95 صوبائی اسمبلی کے ممبران ہیں اور مبینہ بیس ممبران کی گروپ بندی سے حکومت پر کوئی اثر تو نہیں پڑے گا مگر خیبر پختون خوا کی سیاست پر نظر رکھنے والے صحافیوں اور ماہرین کا ماننا ہے کہ اس فیصلے سے نہ صرف پارٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ پنجاب کے وزیر اعلی عثمان بزدار کے خلاف گروپ بندیوں کے تاثر کو بھی تقویت ملی جن کی وجہ سے عمران خان کی حکومت پر لوگوں کا اعتماد مزید کمزور ہو گا۔

بعض ماہرین کی رائے ہے کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اس فیصلے سے دیگر حکومتی ممبران کو بھی سخت پیغام دیا کہ پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی اور سازش کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ کل جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق گورنر خیبر پختونخوا نے آرٹیکل 132 کا استعمال کرتے ہوئے صوبائی وزرا محمد عاطف خان، شہرام خان ترکئی اور شکیل خان کو اپنے عہدوں سے ہٹا دیا ہے۔خیبر پختونخوا کی سیاست پر نظر رکھنے والے صحافی اور تجزیہ کار رفعت اللہ اورکزئی نے نیا دور میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کہ عاطف خان اور شہرام خان ترکئی کی آپس میں رشتہ داری ہے اور شہرام خان ترکئی کی پارٹی عوامی جمہوریہ اتحاد نے سال 2013میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کے ساتھ اتحاد کیا تھا مگر سال 2018 میں صوبائی الیکشن میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد شہرام خان ترکئی کے خاندان نے اپنی پارٹی تحریک انصاف میں ضم کی جس میں عاطف خان کا بنیادی کردار تھا۔

رفعت اللہ اورکزئی نے مزید کہا کہ عاطف خان نے اس فیصلے سے عمران خان کو ایک پیغام دیا کہ وہ وزیر اعلی کے عہدے کے لئے ایک مضبوط امیدوار ہیں کیونکہ پارٹی کے پاس وفاق میں اکثریت نہیں تھی اور پرویز خٹک کو وفاقی حکومت میں جانا تھا، اس وقت عاطف خان بھی ایک مضبوط امیدوار تھے مگر پرویز خٹک اس کے لئے تیار نہیں تھے اور کچھ میٹینگز کے بعد خٹک نے عمران خان کو پیغام دیا کہ عاطف خان کو وزیر اعلی بنا کر اپنے لئے مسائل کھڑے کردینگے جس کے بعد خان صاحب کو مجبورا محمود خان کو وزیر اعلی بنانا پڑا حالانکہ محمود خان کا نام اس وقت منظر عام پر نہیں تھا۔

رفعت اللہ اورکزئی کا ماننا ہے کہ عثمان بزدار کی طرح عمران خان اور خصوصا پرویز خٹک کی بھی یہ خواہش تھی کہ صوبے میں ایک ایسے کمزور شخص کو لایا جائے جن پر اسلام آباد سے حکمرانی کی جا سکے اور محمود خان کو اس لئے چنا گیا۔

محمود خان کی بطور وزیر اعلی صلاحیت پر بات کرتے ہوئے اورکزئی کا کہنا تھا کہ محمود خان ایک شریف انسان ہے اور ان کے پاس یہ صلاحیت نہیں کہ وہ صوبے کو چلا سکے کیونکہ وہ میڈیا پر  آنے سے کتراتے ہیں اور سیاسی چال بازیوں سے ناواقف ہے اس وجہ سے حکومت کے اندر ان کا اثر رسوخ نہیں ہے۔

محمد عاطف خان اور شہرام خان ترکئی کی گروپ بندی پر بات کرتے ہوئے اورکزئی نے کہا کہ بنیادی طور پر یہ کوئی خاص گروپ بندی نہیں تھی بلکہ اپ اس کو خاندانی معاملات کہہ سکتے ہیں کیونکہ عاطف خان کے پاس اتنے کارکن نہیں تھے کہ وہ وزیر اعلی کے خلاف کوئی سنجیدہ لائحہ عمل سامنے لاتے اور ان کو وزارت اعلی سے باہر نکالتے۔

ایک سوال کے جواب پر کہ صوبے میں گروپ بندی کیوں کی گئی؟ رفعت اللہ اورکزئی نے کہا کہ کچھ وقت پہلے یہ افواہیں چل رہی تھی کہ صوبہ خیبر پختون خوا اور پنجاب کے وزرائے اعلی کو تبدیل کیا جا رہا ہے جس پر عاطف خان نے اس گروپ بندی سے ایک پیغام دیا کہ محمود خان کی کارگردگی مایوس کن ہے اور وہ وزارت اعلی کے مضبوط امیدوار ہے مگر عمران خان کی ملک واپسی کے بعد عاطف خان اور ان کے ہمنواوٗں کو ایک سرپرائز کے ذریعے کابینہ سے باہر کیا گیا۔

 

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔