آج کل پاکستان میں جمہوری نظام کو موجودہ پارلیمانی نظام سے صدارتی نظام میں ممکنہ تبدیلی کی گفتگو ہو رہی ہے۔ بحث کا آغاز پاک فوج کے ایک سینیئر افسر لیفٹیننٹ جنرل (ر) طارق خان کے مضمون کے نتیجے میں ہوا جس میں جنرل صاحب نے ملک میں صدارتی نظام حکومت کے قیام کے لئے نیشنل سکیورٹی کمیٹی (NSC) کے ذریعے ٹیکنوکریٹس پر مشتمل ایک عبوری حکومت کی تجویز دی۔ یہ بحث اب ایک تنازع میں بدل چکی ہے۔ پچھلے ہفتے ایک تحریر میں جنرل صاحب نے واضح کیا کہ ان کی تجاویز کا مقصد ایک بحث کا آغاز تھا اور ان کی تجویزہے کہ تمام تبدیلیاں جمہوری طریقے سے پارلیمان کے ذریعے ہونی چاہئیں۔ (یہ فرض کرتے ہوئے کہ پارلیمنٹ ملک کو درپیش مسائل کی سنگینی کا احساس کرے گی اور خود کو اور اس نظام کو جس کے تحت یہ موجود ہے تحلیل کرنے کے لئے اقدامات شروع کرے گی اور اقتدار NSC کے حوالے کردے گی)۔
پارلیمنٹ کی ملک کا اقتدار اور گورننس NSC کو سونپنے کی منطق کی گہرائی میں جائے بغیر آئیے کچھ متعلقہ حقائق کو سامنے لاتے ہیں جو جنرل صاحب (اوران کے ہم خیال لوگوں) کے صدارتی نظام حکومت کے مطالبے کی حمایت کرنے سے پہلے غور طلب ہیں۔ تاہم، اس سے پہلے یہ تسلیم کر لینا چاہیے کی لیفٹیننٹ جنرل (ر) طارق خان پاکستان فوج کے شاندار جرنیلوں میں سے ایک ہیں۔ جنوبی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف کا میابیاں اور بطور انسپکٹر جنرل باجوڑ سے TTPکے خاتمے کے لئے فرنٹیئر کانسٹیبلری کے ڈھانچے میں تبدیلی ایسے کام ہیں جو قوم آنے والے وقتوں میں یاد رکھے گی۔
پاکستان قدیم قومیتوں پر مشتمل ایک پیچیدہ ملک ہے۔ جہاں قریباً 80 زبانیں بولی جاتی ہیں۔ 75 سال کی عمر میں پاکستان ابھی بھی کم عمر ہے اور اپنی شناخت کے قیام اور بقائے باہمی کے فارمولے پر آنے کے لئے کوشاں ہے۔ 53 فیصد آبادی کے ساتھ پنجابی اکثریت میں ہیں۔ ان کے بعد دوسرے نمبر پر پٹھان (15%) پھر سندھی (14%) مہاجر (8%) بلوچ (4%)اور دیگر قومیتیں (6%) ہیں۔ صدارتی نظام کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پنجابیوں کی اس اکثریت کی وجہ سے کسی بھی دوسری قومیت سے کسی کا صدر بن جانے کا امکان نہایت کم ہے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ صدارتی نظام میں قریباً ہمیشہ ہی ایک پنجابی جمہوری طریقے سے صدر منتخب ہو جائے گا۔ یہ کسی بھی طرح دوسری قومیتوں کو قابلِ قبول نہیں ہوگا اور اسی وجہ سے اس مسئلے کو پنجاب کے علاوہ کسی بھی دوسرے صوبے میں پذیرائی نہیں ملی۔ یہی وہ وجہ ہے کہ 1973 کا آئین بنانے والوں نے حکومت کے لئے پارلیمانی نظام حکومت کا انتخاب کیا جو کہ مختلف قومیتوں کو مساوی نمائندگی دیتا ہے۔ اور پھر ایون بالا میں سب صوبوں کو برابر (25 نشست فی صوبہ) نمائندگی دیتا ہے۔
یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ صدارتی نظام حکومت کے لئے بھرپور حمایت موجودہ پارلیمانی نظام کی ناکامی کی وجہ سے ہے۔ لیکن اگر صدارتی نظام کا نفاذ ہی مقصد ہے تو اسے ایک طریقہ کار کے ذریعے آنا چاہیے نہ کہ ایک تجربہ کے ذریعے۔ یہاں سوچنے اور بات کرنے کے لئے کچھ تجاویز ہیں:
سب سے پہلے نئے صوبوں کا قیام ضروری ہے۔ اگر باقی صوبوں کو چھوڑ کر صرف پنجاب کے ہی مزید صوبے بنانے کی کوشش کی گئی تو سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لہٰذا، مزید صوبے بنانے کے طریقہ کار کو مساوی بنیادوں پر وضع کرنے کی ضرورت ہے جو کہ سب صوبوں کے لئے قابل قبول ہو۔ اس مقصد کے لئے سب سے بہترین تجویز یہ ہے کہ موجودہ سب اضلاع کو صوبوں کا درجہ دے دیا جائے (یعنی پاکستان میں 123 صوبے بنا دیے جائیں)۔ اس کے ذریعے (1) چھوٹے صوبوں کے مطالبات پایہ تکمیل تک پہنچ جائیں گے؛ (2) چونکہ ہر ضلع میں ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر اور انتظامیہ پہلے سے موجود ہے لہٰذا کسی بھی نئی عمارت یا نظام کی ضرورت نہیں ہوگی (اگر ہوئی بھی تو نہایت کم)؛ (3) حکومت اور فیصلہ سازی کا نظام عوام کے قریب آ جائے گا جس سے بڑھتی ہوئی آبادی کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی میں بہتری آئے گی؛ (4) سول سروسز میں نتیجہ خیز اصلاحات کی جائیں جس کے ذریعے پولیس اور خزانہ نئے صوبوں کے حوالے کیا جائے؛ اور (5) NFC ایوارڈ کو موجودہ فارمولہ کے تحت ہی آسانی سے نئے صوبوں کی سطح تک تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
دوئم، موجودہ صوبوں کو امریکہ میں موجود معاشی ریجنز کی طرز پر Economic Zones بنایا جا سکتا ہے۔ موجودہ چار صوبے علاقائی معاشی زونز (Regional Economic Zones) بن سکتے ہیں۔ جنہیں ڈویژن سطح پر Sub Economic Zones میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ امریکی معاشی ریجنز کی ہی طرح ان چار Economic Zones کا مقصد ''ایک صاف، شفاف، انصاف پر مبنی، قابل رسائی اور اعتدال پسند معاشی نظام اور معاشی سرگرمیوں کی فراہمی'' ہو۔
سوئم، ایک مضبوط مقامی حکومت کا نظام تشکیل دیا جائے جو عوام کی روز مرہ کی بنیادی سہولیات ان کی دہلیز تک پہنچائے۔
چہارم، سیاست میں پیسہ اور طاقت کے استعمال کو روکنے کے لئے عام انتخابات میں متناسب نمائندگی کا نظام اپنایا جائے۔ جس کے ذریعے ایک سیاسی جماعت کی پارلیمنٹ میں نشستوں کی تعداد اس جماعت کو عام انتخابات میں پڑنے والے ووٹوں کی شرح سے مطابقت رکھتی ہو۔ اس طرح ان ووٹرز کی مایوسی دور ہوگی جن کے امیدوار موجودہ ''فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ'' سسٹم (یعنی51% جیتتا ہے جب کہ 49% ہارتا ہے) کی وجہ سے ناکام ہو جاتے ہیں۔ پارٹی قائدین کو بھی آسانی ملے گی اور وہ باعزت اور تعلیم یافتہ امیدواران کو میدان میں لا سکیں گے اور الیکشن سے پہلے ہی الیکشن کمیشن آف پاکستان کو فہرست دے سکیں گے۔ (بجائے اس کے کہ بااثر خاندانوں سے آنے والے امیدواران کے ہاتھوں مجبور اور بلیک میل ہوں جو نتائج کی پروا کیے بغیر ہر حکومت میں شامل ہونے کے لئے اپنی وفاداریاں بدلتے رہتے ہیں)۔ بہت ہی کم قانون سازی کے ذریعے انتخابی نظام میں مزید عملی تبدیلیاں کی جا سکتی ہیں جن کے ذریعے انتخابات کا بہت مثبت نتیجہ نکل سکتا ہے۔
مندرجہ بالا تبدیلیوں کے ساتھ پاکستان کے نظام حکومت میں ایک مکمل تبدیلی آ سکتی ہے۔ اور امکان ہے کہ اس بہتری کی وجہ سے صدارتی نظام میں تبدیلی کا مطالبہ بھی ختم ہو جائے گا۔ تاہم، اگر اوپر دیے گئے طریقوں سے اطمینان بخش تبدیلی نہیں آتی تو بھی یہ صدارتی نظام کے لئے ایک بہتر بنیاد فراہم کر دے گا (یعنی کہ 123صوبوں کی بدولت، کوئی بھی صوبہ واضح اکثریت میں نہیں ہوگا)۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ 123 صوبوں کے قیام کے بعد مزید صوبے بنانے کا مطالبہ بھی ختم ہو جائے گا۔ یہ بھی امکان ہے کہ اس کے ذریعے بھٹکے ہوئے فراری اور عسکریت پسندوں کے مطالبات بھی ختم ہو جائیں۔
آخر میں، ہمیں 1971میں مشرقی اور مغربی پاکستان کی تقسیم کے پیچھے چھپی وجوہات کو نہیں بھولنا چاہیے۔ بنگالی (جو کہ اکثریت میں تھے) حکومت بنانے کے اپنے آئینی حق سے محروم کر دیے گئے۔ جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش معرض وجود میں آیا۔ لہٰذا ہمیں ایسے نظام کو دہرانے کے بارے میں گفتگو نہیں کرنی چاہیے جس کے ذریعے جمہوری نظام ہمیشہ ایک پنجابی صدر کا ہی انتخاب کرے اور دوسری قومیتوں میں حق رائے دہی سے محروم ہونے کا احساس ابھرے۔ یہ ایک نوعمر اور تنظیم کے ارتقائی عمل سے گزرتے ہوئے معاشرے کے لئے ایک ہولناک زلزلے کی طرح ہوگا۔ ایسا معاشرہ جو پہلے ہی بقائے باہمی سیکھنے کے عمل سے گزر رہا ہے۔
مصنف ماہر معاشیات اور گورننس ہیں۔ یہ سابق مشیر برائے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب رہ چکے ہین اور پاکستان فریڈم موومنٹ کے چیئرمین ہیں۔