بھٹو کی اہلیہ شیریں امیر بیگم جنہیں جہیز میں 30 ہزار ایکڑ ملے

میں نے ان کی ذوالفقار علی بھٹو سے آخری ملاقات کے بارے میں پوچھا تو بولیں؛ 'ان سے بہت سی باتیں ہوئیں'۔ کیا بے نظیر کی شادی سے متعلق بھی کوئی بات ہوئی؟ تو انہوں نے کہا، 'ضرور'۔ پھر اس سوال پر کہ بھٹو اگر آج زندہ ہوتے تو، وہ کہنے لگیں، 'بے نظیر کی شادی حاکم علی زرداری کے بیٹے کے ساتھ!! وہم و گمان میں نہیں آتا'۔

بھٹو کی اہلیہ شیریں امیر بیگم جنہیں جہیز میں 30 ہزار ایکڑ ملے

یہ دسمبر کی ایک اداس اور سرد شام تھی جب میں نے تین تلوار کلفٹن میں ایک متوسط یا اپر متوسط طبقے کی ایک کثیر منزلہ رہائشی بلڈنگ کے ایک فلیٹ کے دروازے پر پہنچ کر اس کی گھنٹی بجائی تھی۔ 'مجھے بیگم صاحبہ سے ملنا ہے۔ میں نیوز لائن رسالے سے آیا ہوں۔ انہیں پتہ ہے کہ مجھے کس نے بھیجا ہے'۔ میں نے دروازہ کھولنے والے صاحب سے کہا۔

'جی جی بیگم صاحبہ آپ ہی کا انتظار کر رہی ہیں'۔ انہوں نے بتایا اور پھر مجھے اندر لاتے ہوئے ڈرائنگ روم میں بٹھا دیا۔ میں نے ڈرائنگ روم پر نظر دوڑائی۔ یہ ایک سادہ سا ڈرائنگ روم تھا۔ مناسب سا صوفہ سیٹ، دو چار کرسیاں، ٹیبل، صوفہ کے ایک کونے پر تہہ شدہ جائے نماز بھی پڑی ہوئی تھی۔ جس چیز نے میری توجہ اپنی طرف کھینچی وہ میرے سامنے والی دیوار پر لگا ذوالفقار علی بھٹو کی تصویر والا وال کلاک تھا۔

'وقت کہے میں بادشاہ' کے عنوان سے مجھے بچپن میں پرائمری سکول میں سندھی کی درسی کتاب میں پڑھی ہوئی ایک نظم یاد آئی۔

یہ فلیٹ ذوالفقار علی بھٹو کی پہلی بیوی شیریں امیر بیگم کی بیٹی اور داماد کا تھا۔

1965 میں قاہرہ جانے والی پی آئی اے کی افتتاحی پرواز 705 والا طیارہ حادثے کا شکار ہوا تھا جس کے سب مسافر ہلاک ہو گئے تھے، سوائے ایک ایئر ہوسٹس سمیت 6 لوگوں کے۔ اس طیارے پر صحافی بھی سوار تھے۔ اس فضائی حادثے میں ہلاک ہونے والے ایک صحافی کی بیٹی کو اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے اڈاپٹ کیا تھا۔ اسی لڑکی کو بے اولاد شیریں امیر بیگم نے اپنے پاس رکھ کر ماں بن کر پالا تھا۔ اب میں اسی لڑکی کے فلیٹ پر شیریں امیر بیگم سے انٹرویو کر رہا تھا۔ شیریں امیر بیگم جب بھی کراچی آتیں، اپنی اسی بیٹی کے پاس قیام کرتیں۔ وہ کبھی 70 کلفٹن یا بلاول ہاؤس نہیں گئیں۔

میں یہاں ذوالفقار علی بھٹو پر ایک جامع پروفائل لکھنے کو اپنی تحقیق کے لیے شیریں امیر بیگم کا انٹرویو کرنے پہنچا تھا۔ میں ان سے انٹرویو کرنے ولا دوسرا اور شاید آخری صحافی تھا۔ 'تم سے قبل بیگم صاحبہ سے انٹرویو کرنے والا صحافی صادق جعفری ہے'، مجھے بیگم صاحبہ تک رسائی رکھنے والا میرا دوست بتا رہا تھا جس نے ذوالفقار علی بھٹو کی ان بڑی بیگم کو مجھے انٹرویو دینے کو راضی کر لیا تھا۔ اس میرے دوست کی رسائی بھٹو بیگمات و خواتین تک تھی اور آج کل یورپ میں کہیں پاکستان کے سفارت کار ہیں۔

کچھ دیر بعد بیگم صاحبہ بھی ڈرائنگ روم میں داخل ہوتی ہیں۔ صوفے پر میرے سامنے براجمان ایک باوقار، سادہ سی لیکن کسی سندھی بڑے یا وڈیرے گھر کی بڑی۔ جسم پر ایک شال اوڑھے ہوئے، ہاتھ سونے کی چوڑیوں سے لدے، اداس لیکن پرشکوہ سندھی، شمالی یا اترادی، لیکن کہیں کہیں تحکمانہ لہجے میں صاف اور سیدھی بات کرتے ہوئے۔ 'کئی عظمتوں کی امین یہ خاتون'، میں انہیں کہوں گا۔

'ہمارے کسی نوکر کو کسی چوری کے معمولی کیس میں بھی سزا نہیں ہوئی'، وہ میرے ایک سوال کے جواب میں ذوالفقار علی بھٹو کی تصویر والے وال کلاک کی طرف دیکھتے ہوئے بڑے تاسف سے کہہ رہی تھیں، 'لیکن ذوالفقار جیسے آدمی کو قتل کے مقدمے میں پھانسی کی سزا ہوئی'۔ ڈرائنگ روم میں ایک خاموشی جسے وال کلاک کی ٹک ٹک کسی سنار کی سی ہتھوڑی کی طرح مار رہی تھی۔ شیریں امیر بیگم کے لہجے میں اس پر تفاخر کے بجائے پچھتاوا صاف لگ رہا تھا۔ برخلاف رائج الوقت شہادت کے فلسفے کے، عیسیٰ کی سنت کے، اس میں ایک عظیم سینس آف لاس نظر آتا تھا۔

وہ ذوالفقار علی بھٹو کو ذوالفقار کہتی تھیں۔

ذوالفقار علی بھٹو سے جب ان کی شادی ہوئی، شیریں امیر بیگم ان سے 14 سال بڑی تھیں اور بھٹو صاحب بمبئی میں پڑھتے تھے۔ شیریں امیر بیگم بھٹو خاندان کے سب سے بڑے رئیس احمد خان بھٹو کی بڑی اولاد تھیں۔ 'لوگ کہتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو سے شادی میں امیر بیگم جہیز میں 30 ہزار ایکڑ زمین لائی تھیں'۔

'لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ میرے سُسر شاہنواز نے ذوالفقار کی مجھ سے شادی زمین کی وجہ سے کروائی تھی'، وہ کہہ رہی تھیں۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

ذوالفقار بھٹو اور شیریں امیر بیگم شادی کرنے کے فوری بعد بمبئی چلے گئے جہاں ذوالفقار علی بھٹو کی ہائی سکول تعلیم جاری رہی۔ تعلیم کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کا جنون کی حد تک شوق کرکٹ تھا جہاں مشہور کرکٹ مبصر اور ان کے دوست عمر قریشی بھی ان کے ساتھ سکول کی کرکٹ ٹیم میں تھے۔ ان کے ان دنوں سے دوست پیلو مودی لکھتے ہیں؛ 'نو بیاہتا بھٹو نے بیڈ روم میں کرکٹ کی گیند چھت سے ٹانگی ہوئی تھی اور بلے سے بیٹنگ کی پریکٹس کرتے رہتے'۔

میں نے اس بات کا شیریں امیر بیگم سے پوچھا تو انہوں نے اس کی تصدیق کی۔ انہوں نے بتایا کہ کچھ دن بمبئی میں ان کے ساتھ رہ کر، گھوم پھر کر وہ واپس لاڑکانہ آ گئی تھیں۔ 'ذوالفقار پھر چھٹیوں میں آتے رہتے'۔ وہ لاڑکانہ اور کراچی بھی ان کے ساتھ رہیں۔

'لیکن جب سے وہ نصرت کو بیاہ کر لے آئے اس کے بعد سے میں نے پھر کبھی 70 کلفٹن نہیں دیکھا'، انہوں نے بتایا۔ نصرت بھٹو جو شادی سے قبل نصرت اصفہانی کہلاتی تھیں، سے شادی کو ذوالفقار علی بھٹو نے شروع میں خفیہ رکھا تھا۔ وہ الہٰی بخش سومرو کے کافی قریب تھیں، بلکہ ان کی بھٹو سے شادی میں الہٰی بخش سومرو کا ہاتھ تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نصرت اصفہانی کو جو بعد میں بیگم نصرت بھٹو کہلائیں، اپنے قریبی دوست ستار مستی خان کی کار میں گھر لے آیا تھا۔

الہٰی بخش سومرو، مستی خان اور کاؤسجی فیملی بھٹو کے کراچی میں قریبی دوست تھے۔ پھر جب وہ اقتدار میں آئے تو انہوں نے ان تینوں خاندانوں کو اپنے عتاب کا نشانہ بنایا۔ الہٰی بخش سومرو کو کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) سے برطرف کیا، اردشیر کاؤسجی کے والد کو جیل میں ڈالا اور اکبر مستی خان اور یوسف مستی خان کو حیدرآباد سازش کیس میں پھنسایا۔

میں نے شیریں امیر بیگم سے اس کہانی کی بھی تصدیق چاہی کہ کیا پیر پگارو اور بھٹو خاندان کے درمیان بھی اس قدر دوستی تھی کہ جب ان کے یعنی شیریں امیر بیگم کے والد احمد خان بھٹو کا انتقال ہوا تو پیر پگارو سکندر شاہ ان کی تعزیت پر آئے تھے تو بھٹو خواتین سے بھی تعزیت کرنے ان کے بنگلے کی ڈیوڑھی پر آئے تھے۔ بھٹو خواتین نے اس موقع پر پیر پگارو کو اپنے خاندانی زیورات و جواہرات کی ایک گٹھڑی بنا کر امانتاً دی تھی کہ نا جانے ذوالفقار کس وقت ان زیورات کو بھی اپنے قبضے میں لے لے، نا جانے کب کون سا خراب وقت آئے۔ جاننے والے کہتے ہیں کہ پیر پگارو نے وہ زیورات پھر کبھی واپس نہیں کیے۔

'جی ہاں، ہمارے خاندان اور پگارو کے درمیان بہت دوستی تھی۔ ان کا آنا جانا تھا'، شیریں امیر بیگم نے کہا اور پھر کہا کہ یہ بات درست ہے۔

'ذوالفقار کی سیاست کی وجہ سے ہی پیر پگارو اور ہمارے خاندان کے درمیان تعلقات بگڑ گئے'، وہ کہہ رہی تھیں۔

پیر پگارو بھٹو کہانی کچھ یوں ہے کہ بہرحال ذوالفقار علی بھٹو کو یہ تو معلوم پڑ گیا تھا کہ ان کے خاندان کی خواتین نے پیر پگارو کو ڈیوڑھی میں ان کے خاندانی زیورات اور جواہرات کی پوٹلی امانتاً حوالے کی ہے۔ بھٹو اندرون خانہ اس بات پر خفا تو تھے کہ پیر پگارو کون ہوتا ہے جو ان کے خاندان کے اندرونی معاملات میں دخل دے یا خاندان کی خواتین پیر پگارو کو اپنا خاندانی سونا اور جواہرات امانت کے طور پر دیں جو کبھی پیر پگارو نے واپس نہیں کی۔

بھٹو اور پگارو خاندان کے کچھ پرانے تعلق دار بھی اس کہانی کی تصدیق کرتے ہیں۔

بھٹو کو بہرحال یہ جسے پنجابی میں کہتے ہے 'خندق' رہی اور جب وہ پاکستان کے صدر بنے تو پہلا فون پیر پگارو کو کیا، ان کو یہ پیغام دینے کے لیے کہ اب خبردار رہنا۔ کہتے ہیں کہ یہی وجہ ہے پیر پگارو باقی ساری عمر اپنا فون خود اٹھاتے تھے۔ بھٹو جو اپنے حلقہ انتخاب میں 'کچا حُر' اور 'پکا حُر' کی اصطلاح استعمال کرتے تھے، یعنی کچا حُر پیر پگارو کا وہ حُر جو ووٹ بھٹو کو دے۔ اور اپنے جیالوں کو بھٹو 'پکا حُر' کہتے۔ پیر پگارو کا یہ دعوٰی کہ ذوالفقار علی بھٹو کو سکندر مرزا کی کابینہ میں انہوں نے وزیر چنوایا، پھر وہ فوٹو بھی عام ہوا کہ جس میں بھٹو پیر پگارو کے آگے جھک کر ان کے قدم چھو رہے ہیں۔ اس کے باوجود جب بھٹو اقتدار میں آیا تو اس نے سندھی میں کہتے ہیں پیر پگارو اور ان کے حُروں سے 'کر گزاری'۔ یہاں تک کہ پیر پگارو کے 6 حُروں کے قتل کے علاوہ پی این اے یا 9 ستارہ تحریک کے دوران پیر پگارو کو ہوٹل انٹر کانٹینینٹل راولپنڈی میں نظربند بھی کیا، جہاں پھر بھٹو ان سے ملنے بھی آئے۔

میں نے ان سے پوچھا کہ ذوالفقار علی بھٹو سے ان کی ازدواجی زندگی کیسی گزری۔ اس پر انہوں نے کہا؛ 'وہ ہر عید پر یا چھٹیوں میں آتے اور میرے پاس ہی رہتے۔ میں ان کو منع تھوڑی کر سکتی تھی۔ یہ ان کا اپنا گھر تھا۔ لیکن میں پھر کبھی 70 کلفٹن یا المرتضیٰ نہیں گئی جب سے وہ اس کو بیاہ کر لائے'۔ میں نے پوچھا؛ 'کس کو؟' تو انہوں نے جواب دیا، 'نصرت کو اور کس کو؟' پھر کہا، 'لیکن بچے بے نظیر، مرتضیٰ، صنم اور شاہنواز چھٹیوں میں نوڈیرو آتے تو میرے پاس ہی رہتے۔ خاص طور پر مرتضیٰ اور بے نظیر۔ گھڑ سواری کرتے۔ ان کے گھوڑے میری زمینوں پر ہوتے'۔

میں نے پوچھا، کیا ممتاز بھٹو بھی آپ کا رشتہ دار ہے؟ تو جواب ملا، 'ممتاز ذوالفقار کا دور کا رشتہ دار ہے'۔

انہوں نے مجھے بتایا؛ 'ذوالفقار نے میری بیٹی کو کبھی بیٹی نہیں کہا بلکہ وہ چڑتا تھا جب وہ اسے ڈیڈی کہتی تھی'۔

اس لڑکی کا نام لبنیٰ ہے اور انہوں نے ایک بڑا عرصہ اپنے شوہر کے ساتھ سعودی عرب میں گزارا۔ اب مجھے نہیں معلوم کہ لبنیٰ کو بھی ذوالفقار علی بھٹو یا شیریں امیر بیگم کی بیٹی کی حیثیت سے بھٹو اسٹیٹ کی جاگیروں اور دوسرے اثاثوں میں سے بھی حصہ دیا گیا یا نہیں جن میں کہتے ہیں سوئس بینکوں اور امریکی بینکوں میں رکھے ڈھیروں روپے شامل تھے۔ یہی تو سگے بھٹو بہن بھائیوں کے درمیان اصل جھگڑا تھا۔

یہ بے نظیر بھٹو حکومت کا دوسرا دور تھا۔ میں نے ان سے بے نظیر کے ان کی طرف رویوں کا پوچھا تو انہوں نے کہا؛ 'لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ بے نظیر میری فلور مل بھی لے گئیں۔ زمینیں بھی لے گئیں'۔

پھر میں نے ان سے ذوالفقار علی بھٹو سے ان کی آخری ملاقات کا پوچھا۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ بھٹو سے ان کی اہلیہ کی حیثیت سے جیل میں آخری ملاقات کے لیے ضیاء الحق آمرانہ فوجی حکومت نے انہیں سرکاری خرچ پر راولپنڈی بلایا تھا۔ اس ملاقات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ' کم از کم ضیاء الحق نے ذوالفقار کی پہلی اہلیہ کی حیثیت مانتے ہوئے مجھے آخری ملاقات کے لیے راولپنڈی سرکاری خرچ پر بلایا اور ہوٹل میں رہائش بھی دی'۔

میں نے ان کی ذوالفقار علی بھٹو سے آخری ملاقات کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا؛ 'بہت سی باتیں ہوئیں۔ خاندان کے بارے میں، بچوں کی شادیوں اور دیگر معاملات پر'۔ تو میں نے پوچھا کوئی تفصیل جو آپ بتا سکتی ہوں تو انہوں نے کہا، 'نہیں یہ خاندانی معاملات ہیں'۔ کیا بے نظیر کی شادی سے متعلق بھی کوئی بات ہوئی؟ تو انہوں نے کہا، 'ضرور'۔ پھر میرے اس سوال پر کہ ذوالفقار علی بھٹو اگر آج ہوتے تو، وہ کہنے لگیں، 'بے نظیر کی شادی حاکم علی زرداری کے بیٹے کے ساتھ!! وہم و گمان میں نہیں آتا'۔

ابھی ان سے بہت سارے سوالات پوچھنا باقی تھے لیکن اسی اثنا میں شیریں امیر بیگم کے داماد کمرے میں داخل ہوئے اور ٹیبل پر رکھا ہوا میرا ریکارڈر یہ کہہ کر آف کر دیا کہ 'بہت باتیں ہو چکیں!!'