سینئر تجزیہ کار افتخار احمد نے کہا ہے کہ میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ حکومت جانے والی ہے۔ جو کھیل شروع ہوا تھا، اس میں تھوڑے عرصے کیلئے ٹھہرائو آئے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس ٹھہرائو کیلئے چودھری پرویز الٰہی کی زیادہ ضرورت ہے۔ وہ اس عرصے میں صوبائی اسمبلی کی اچھی خاصی نشستوں کو اپنے قابو میں لانے کی کوشش کرینگے جبکہ قومی اسمبلی کی بھی کچھ نشستیں بڑھائیں گے۔
یہ بات انہوں نے نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں اپنا سیاسی تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہی۔ افتخار احمد کا کہنا تھا کہ چودھری پرویز الٰہی ماضی میں ایک اچھے وزیراعلیٰ ثابت ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کچھ ایسے فیصلے کئے جو بہت پاپولر ہوئے اور اب بھی کامیابی کیساتھ چل رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر عمران خان کا یہ خیال ہے کہ وہ چودھری پرویز الٰہی کے ذریعے پنجاب اسمبلی کو ختم کرنے کی خواہش کو عملی جامہ پہنا سکیں گے تو ایسا کبھی بھی نہیں ہوگا کیونکہ یہ کام وہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے ذریعے بھی کر وا سکتے تھے۔
افتخار احمد نے کہا کہ موجودہ نظام چلا تو پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کے درمیان مفادات کا ٹکرائو بڑھتا جائے گا اور ایک نئی سچویشن بنے گی جو سب کیلئے اہم بھی ہوگی اور اسی میں آئندہ انتخابات کے نتائج چھپے ہونگے۔
آئندہ کی سیاسی صورتحال پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں نے سال پہلے پیش گوئی کی تھی کے اگلے الیکشن میں کسی کو اکثریت نہیں ملے گی مخلوط حکومت بنے گی اور اس حکومت میں اپنا حصہ لینے کیلئے آصف زرداری صاحب اپنی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ضمنی الیکشن میں 20 نشستوں کے نتائج اور سرائیکی بیلٹ سے جو صورتحال سامنے آئی ہے وہ اتنی خوشگوار نہیں، مجھے نہیں لگتا کہ پیپلز پارٹی کیلئے کوئی جگہ بنے گی۔
انہوں نے کہا کہ سرائیکی بیلٹ کے نتائج یہ ثابت کرتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی ان علاقوں سے جیت مشکل ہے کیونکہ اگر مسلم لیگ (ن) خود کو نہیں بچا پائی تو پی پی پی کیلئے بہت مشکلات ہونگی۔
پروگرام میں آج دوبارہ سینئر قانون دان عرفان قادر شریک ہوئے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے معاملے پر بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ری ویو فائل ہوتا ہے تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ جج صاحبان اپنے فیصلوں کے بارے میں اتنے حساس ہوتے ہیں کہ ہر قسم رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں کہ ری ویو پہنچے ہی نہ۔
عرفان قادر نے اس موقع پر ماضی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ سابق چیف جسٹس کھوسہ نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کو سپریم کورٹ کے اندر سے خطرہ ہے۔ کچھ جج اتنے طاقتور ہو جاتے ہیں کہ باقی سپریم کورٹ مفلوج ہو کر رہ جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آخری چیف جسٹس جو تھے ہمارے میاں صاحب، ان کے بھی دو فیورٹ تھے اور اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ گلزار صاحب کے بھی دو فیورٹ تھے، آج بھی ہم یہ ہی دیکھ رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ججز کو اگر ہلکا سا اشارہ مل جائے کہ کوئی سائل نہیں چاہتا کہ وہ اس کیس میں بیٹھے تو ایک سکینڈ سے پہلے ججز اٹھا جایا کرتے ہیں، مگر یہاں وہ بیٹھے رہے۔
سینئر قانون دان نے کہا کہ اس بار ہماری سیاسی جماعتوں کے ایک بڑے حصے کی جانب سے بائیکاٹ ہوا۔ پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی یہ ڈیمانڈ تھی کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کا کیس فل کورٹ کو بھیجا جائے۔