فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کے خلاف کیس میں جسٹس منصور علی شاہ کے بعد جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی فل کورٹ بینچ تشکیل دینے کا مطالبہ کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ کیس سننے والے بینچ میں موجود ججز کے تحریری اعتراضات انتہائی سنجیدہ ہیں جنھیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے 23 جون کی سماعت کا تحریری حکمنامے جاری کر دیا گیا جس میں وفاقی حکومت کی جانب سے بینچ پر کیے گئے اعتراضات کے حوالے سے بینچ میں شامل جسٹس یحییٰ آفریدی کا نوٹ بھی شامل ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے نوٹ میں لکھا کہ چیف جسٹس پاکستان فل کورٹ بینچ تشکیل دیں۔ نظام عدل کی ساکھ کی عمارت عوامی اعتماد پر کھڑی ہے۔ موجودہ حکومت کی مدت ختم ہونے کو ہے اور اس وقت ملک میں انتخابات کے لیے سیاسی ماحول کا منظرنامہ چارج ہے۔
تحریری حکمنامے کے نوٹ میں لکھا ہے کہ ایسے سیاسی چارج ماحول میں موجودہ عدالتی بینچ کے خلاف اعتراض کیا جا سکتا ہے اور فوجی عدالتوں کے خلاف کیس سننے والے بینچ میں موجود ججز کے تحریری اعتراضات انتہائی سنجیدہ ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
ایک سینیئر جج کے اعتراض پر اس وقت مناسب نہیں ہے کہ رائے دوں۔ ایک سینیئر جج کے اعتراض عدالت میں ہم آہنگی اور عوامی اعتماد کی بحالی کے لیے مناسب اقدامات کا تقاضا کرتے ہیں۔ لہٰذا پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ فل کورٹ بینچ تشکیل دیا جائے۔
اس سے قبل عدالتی حکم نامے میں جسٹس منصور علی شاہ کا تین صفحات پرمشتمل نوٹ شامل کیا گیا جس میں انہوں نے لکھا کہ فوجی عدالتوں سے متعلق درخواستوں میں سے ایک درخواست گزار سابق چیف جسٹس آف پاکستان جواد ایس خواجہ میرے رشتہ دار ہیں جس کا تمام قانونی برادری کو پہلے سے علم تھا۔22 جون کو پہلی سماعت پر میں نے کھلی عدالت میں پوچھا تھا کہ کیا کسی کو اس بات پر کوئی اعتراض ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل سمیت تمام وکلاء نے کہا تھا کہ انہیں کوئی اعتراض نہیں۔ سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے عوامی مفاد میں سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، موجودہ زیر سماعت کیس سے جواد ایس خواجہ کسی طرح بھی متاثر نہیں ہوئے ہیں۔
معزز جج نے مزید لکھا کہ اٹارنی جنرل نے آج سماعت کے آغاز پر کہا وفاقی حکومت کا اعتراض ہے کہ میں بینچ میں نہ بیٹھوں۔ جب ایک جج پر اعتراض اٹھایا جائے تو اسی جج نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ بینچ میں بیٹھے یا انکار کرے۔ جب ایک جج پر اعتراض اٹھایا جاتا ہے تو وہ یہ دیکھتا ہے کہ عوامی اعتماد کو ٹھیس تو نہیں پہنچ رہی۔اعلیٰ عدلیہ کے ججز کا حلف کہتا ہے کہ ہمیں اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہونا چاہیے۔ عدالتی نظام میں غیر جانبداری اخلاقی نہیں بلکہ عملی ہونی چاہیے۔ عوامی اعتماد کے لیے بینچ سے الگ ہوا ہوں۔ اگر کسی جج پر معقول اعتراض ہو تو اُسے اعتماد کے لیے بینچ سے علیحدہ ہوجانا چاہیے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا میں نے خود سے فوجی عدالتوں کے خلاف کیس سننے والے بنچ سے علیحدگی اختیار نہیں کی۔ میں نے آئین پاکستان کے دفاع اور حفاظت کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ اس کیس میں شفاف ٹرائل، بنیادی انسانی حقوق، انسانیت کی تکریم اور آزادی کا سوال ہے۔ مجھے شدید تحفظات تھے کہ اس عوامی مفاد کے کیس پر سماعت کیلئے فل کورٹ بنچ تشکیل دیا جانا چاہیے تھا۔ سپریم کورٹ کے تمام ججز پاکستان میں موجود تھے۔ میرے تحفظات کے باوجود میں فوجی عدالتوں کے خلاف کیس کی سماعت کرنے والے بنچ کا حصہ بنا۔ اعتراض کی صورت میں جج کے ساتھ ساتھ ادارے کی ساکھ کا بھی معاملہ ہوتا ہے۔ انصاف کی فراہمی کی غیر جانبداری مصنوعی نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں ہونی چاہیے۔ ظاہری اور حقیقی غیر جانبدارانہ انصاف عوامی اعتماد اور قانون کی حکمرانی کیلئے ضروری ہے۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عدالتی غیر جانبداری سے عوامی اعتماد، شفاف ٹرائل، قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی بقاء برقرار رہتی ہے۔ عدالتی نظام میں حقیقی غیر جانبدارانہ سے جمہوری روایات، شہریوں کی بنیادی حقوق کی حفاظت ہوتی ہے۔ اگر کسی جج پر اعتراض کی معقول وجہ ہو تو عوامی اعتماد برقرار رکھنے کیلئے بینچ سے الگ ہو جانا چاہیے۔ میں تسلیم کرتا ہوں جواد ایس خواجہ میرے عزیز ہیں۔ ایک عام شہری کیلئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ درخواست گزار نے درخواست عوامی مفاد میں دائر کی یا ذاتی مفاد میں، میں وفاقی حکومت کے اعتراضات کی روشنی میں خود کو بینچ سے الگ کرتا ہوں۔