سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کا مقدمہ منطقی انجام کو پہنچ چکا

سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کا مقدمہ منطقی انجام کو پہنچ چکا
چند روز قبل فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل بارے درخواستوں پر سپریم کورٹ کے 9 رکنی بنچ میں سماعت ہوئی اور سماعت کے آغاز میں ہی جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلا لیا اور انہوں نے اپنے تحفظات کھلی عدالت میں سب کے سامنے رکھ دیے۔

ان کا مؤقف بہت واضح تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ کے بعد ان کے پاس ایک ہی آپشن تھا کہ وہ حلف سے پاسداری کرتے یا عدالتی حکم پر بنچ میں بیٹھتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے آئین و قانون کی پاسداری کا حلف لیا ہوا ہے لہٰذا انہوں نے بنچ میں بیٹھنے کے بجائے چیمبر ورک کو ترجیح دی۔ ان کی دانست میں قانون کو مسترد تو کیا جا سکتا ہے مگر معطل نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ میں چہ مگوئیوں سے بچنے کے لئے کھلی عدالت میں بات کرتا ہوں۔ ان سے چیمبر ورک بارے دریافت کیا گیا تو انہوں نے 5 صفحات پر مشتمل نوٹ لکھا کہ ساتھیوں نے قانون کو معطل کر کے مجھے عجیب کشمکش میں ڈال دیا ہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے یہ بات بھی واضح کی کہ نیا قانون آنے سے پہلے بھی بنچز کی تشکیل بارے ان کو تحفظات تھے۔

اس کے علاوہ انہوں نے اپنے دیگر تحفظات سے بھی عدالت کو آگاہ کیا۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ وہ اس کیس کو سننے سے معذرت نہیں کر رہے مگر چونکہ ان کے نزدیک یہ بنچ غیر قانونی ہے اور جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ کا فیصلہ نہیں آتا وہ کسی بھی بنچ میں نہیں بیٹھیں گے۔ اس دوران اعتزاز احسن نے بھی ان کو سمجھانے کی کوشش کی اور ان کے درمیان ایک مکالمہ ہوا۔ اعتزاز احسن نے ان کو بڑے بھائی کی حیثیت سے مشورہ دیا کہ یہ گھر کا معاملہ ہے اور ان کو بنچ میں بیٹھنا چاہئیے جس پر انہوں نے کہا کہ یہ گھر نہیں، سپریم کورٹ ہے اور کیا وہ چاہتے ہیں کہ اس دفعہ میں اپنے حلف کو توڑ دوں۔ جسٹس طارق مسعود نے بھی جسٹس فائز عیسیٰ کے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے مزید کہا کہ اگر 9 ججز کا بنچ فیصلہ کر دیتا ہے تو اس کی اپیل کون سنے گا؟

چیف جسٹس نے پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ پر اپنی وضاحت پیش کی کہ حکومت اس میں ترمیم کرنا چاہ رہی ہے اس لئے وقت دیا گیا ہے لیکن 184(3) کے خلاف اپیل اور بنچز کی تشکیل کے مؤقف پر تو اعتزاز احسن نے بھی قاضی فائز عیسیٰ کے مؤقف کی تائید کی ہے۔

ایسی صورت حال میں جب وہ اس مقدمے کو سننے سے معذرت بھی نہیں کر رہے بلکہ وہ اس بنچ کا حصہ ہوتے ہوئے اپنی رائے دے رہے ہیں کہ وہ اس بنچ میں اس وقت تک نہیں بیٹھ سکتے جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ پر فیصلہ نہیں آ جاتا یا اس پر عمل درآمد شروع نہیں ہو جاتا۔ ایسے میں اب چاہئیے تو یہ تھا کہ بنچ کے سینیئر ترین ججز کی عدالتی رائے کے بعد ان کی طرف سے اٹھائے جانے والے قانونی نقاط پر پہلے فیصلہ کیا جاتا کہ آیا یہ بنچ قانونی طور پر جائز بھی ہے یا نہیں۔ چہ جائے کہ اس بنچ کو ختم کر کے نیا بنچ تشکیل دے دیا گیا جس سے ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔

جب شروع میں ہی ان کے اپنے بنائے ہوئے بنچ پر اس کے اندر موجود ججز نے ہی قانونی نقاط کھڑے کر دیے ہیں تو اس بنچ کو مزید اعتراضات کا سامنا کرنے سے کیسے بچایا جا سکتا ہے؟ ابھی تو اس میں حکومت کی طرف سے بھی مؤقف آنا ہے جس میں یقیناً وہ بھی دو معزز ججز کی عدالتی رائے کو اہمیت دیتے ہوئے اعتراضات اٹھائیں گے۔

اس پر اٹارنی جنرل کو بھی اپنا مؤقف قانونی اعتبار سے واضح کرنا چاہئیے کہ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق مسعود عباسی کا مؤقف درست ہے تو پھر ان کو بھی کہنا چاہئیے کہ ضروری ہے کہ پہلے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ پر فیصلہ کر لیا جائے۔ اگر حکومت نے بعد میں اس بنچ کے فیصلے کو متنازعہ بنانا ہے تو پھر ابھی سے اپنے مؤقف کو واضح طور پر اپنا لینا چاہئیے اور اگر اب حکومت اس بنچ اور اس کی کارروائی کو قانونی سمجھتی ہے تو پھر ان کو بعد میں اس بنچ کے فیصلے کو متنازعہ بنانے کا بھی کوئی حق نہیں پہنچتا۔

چیف جسٹس صاحب کے پاس بنچز کی تشکیل کے اختیارات کو جسٹس فائز عیسیٰ کے مؤقف کے برعکس اگر مان بھی لیا جائے جن کا استعمال کرتے ہوئے انہوں نے اپنی مرضی سے بنچ تشکیل دیا مگر دوران سماعت دو معزز ججز کی رائے سامنے آ جانے کے بعد اچانک بنچ کو توڑ کر نیا بنچ تشکیل دینا صرف اس لئے کہ دو ججز نے اس بنچ کی اہلیت پر سوال اٹھا دیے ہیں لہٰذا ان کو نکال کر نیا بنچ تشکیل دے دیا جائے، شاید اس کی اجازت ان کے اختیارات میں بھی نہ ہو۔ کیونکہ کسی بھی جج کو اس لئے علیحدہ کر دیا جائے کہ ان کی رائے سے اختلاف ہے اس کا تعلق انصاف کے عمل سے ہے نا کہ انتظامات سے۔

چیف جسٹس کے انتظامی اختیارات ایک دفعہ بنچ کی تشکیل کے بعد ختم ہو گئے اور اب یہ عدالت ہے۔ عدالت کی کارروائی شروع ہو جانے کے بعد اٹھنے والے سوالات کا تعلق عدالتی رائے سے ہے لہٰذا اب مقدمے بارے معاملات عدالت کی صوابدید ہے نا کہ انتظامی اختیارات کی۔ اب ان نقاط کا حل عدالتی رائے سے ہی طے ہونا چاہئیے تھا اور عدالتی رائے پر مبنی ان اختلافات کو عدالت کی کارروائی سے علیحدہ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی فیصلے سے۔

چیف جسٹس صاحب کو نئے بنچ کی بجائے پہلے والے بنچ کو لے کر چلنا چاہئیے تھا۔ سپریم کورٹ کے تمام ججز اہلیت اور اختیارات کے لحاظ سے برابر ہوتے ہیں اور ہر ایک کی رائے کو سپریم کورٹ کی رائے کا درجہ حاصل ہے۔ کسی بھی جج کی رائے کو بنچ سے علیحدہ کر کے نہ تو دبایا جا سکتا ہے، نہ ہی اس سے انحراف کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی انتظامی اختیارات کو عدالتی رائے پر حاوی کر کے نئے بنائے ہوئے بنچ کے فیصلے کو اصولی طور پر انصاف کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔ ورنہ ایسے فیصلوں کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔

میرے خیال میں بنچ کو 9 ججز کا ہی سمجھنا چاہئیے اور اگر دو ججز اس کو جائز نہیں سمجھتے تو باقی ججز پہلے اٹھائے جانے والے نقاط کو طے کر لیں کہ یہ بنچ قانونی حیثیت رکھتا ہے یا نہیں۔ اگر باقی ججز سمجھتے ہیں کہ قانونی طور پر بنچ جائز ہے تو وہ اپنی کارروائی جاری رکھ سکتے ہیں۔ فیصلہ 9 رکنی بنچ کی طرف سے ہی جاری ہونا چاہئیے جس میں دو ججز کی رائے کو اختلافی نوٹ کی صورت دی جا سکتی ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ کے تحفظات کا یہ حل ہو سکتا ہے وگرنہ اس کے بعد میں نتائج اچھے ہونے کی امید نہیں نظر آ رہی۔ چیف جسٹس صاحب اپنے انتظامی اختیارات کا اپنے ہی ہاتھوں مذاق نہ بنائیں۔

اب سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب قاضی فائز عیسیٰ پہلے سے اپنے مؤقف کو واضح کر چکے تھے تو پھر چیف جسٹس کا ان کو بنچ کا حصہ بنانے کا مقصد کیا ہے؟ اسی طرح ایک مرتبہ پہلے بھی جب چیف جسٹس گلزار احمد تھے تو ان کی سربراہی میں ایک بنچ نے جسٹس فائز عیسیٰ کو عمران خان کے خلاف مقدمہ سننے سے روک دیا تھا تو اب اس مقدمے میں بھی تو عمران خان پارٹی ہیں۔ شاید چیف جسٹس سرخ گلابوں کی شجرکاری کے بعد سے یہ محسوس کرنے لگے ہوں کہ اب جسٹس فائز عیسیٰ اپنے آئینی حلف کو بھول جائیں گے، وہ ان کے مؤقف کو آئینی سمجھ ہی نہیں رہے تھے یا وہ کم ازکم ان کے صحیح مؤقف ہونے کی گواہی لینا چاہتے تھے۔

بہرحال اس سے یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ قوم کو سپریم کورٹ کے اندر کی صورت حال کھل کر معلوم ہو گئی ہے اور اب تو چیف جسٹس کو بھی کسی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہئیے کہ جسٹس فائز عیسیٰ اگلے نامزد چیف جسٹس ہیں اور موجودہ سپریم کورٹ کے تمام بنچز کو غیر قانونی کہہ رہے ہیں تو ایسے میں ان بنچز کے فیصلوں کی اہمیت کیا ہو گی اور دو اڑھائی ماہ بعد اگر انہی فیصلوں کے خلاف ان کے سامنے کوئی اپیل آتی ہے تو پھر ان فیصلوں کی حیثیت کیا ہو گی۔ چیف جسٹس کو اب ہر حال میں سب سے پہلے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ پر فیصلہ کرنا چاہئیے اور وہ بھی فل کورٹ بنچ کے اندر۔ یہ پاکستان اور اعلیٰ عدلیہ کی ساکھ کا معاملہ ہے، اسے سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔

میں تو سمجھتا ہوں کہ اس مقدمے کے درخواست گزاران کو بھی چاہئیے کہ وہ بنچ کے سامنے یہ مؤقف رکھیں کہ پہلے دو معزز ججز کی طرف سے اٹھائے جانے والے نقاط کو زیر بحث لا کر ان پر عدالت فیصلہ کرے۔ میں نے تو اپنے پچھلے کالم میں بھی یہ گذارش کی تھی کہ اعتزاز احسن صاحب کو اپنی درخواست کے ساتھ ہی فل کورٹ کی استدعا بھی کرنی چاہئیے تھی تا کہ کل فیصلہ متنازعہ نہ ہو سکے۔ جب بنچ کی قانونی حیثیت پر اعتراض آ جائے تو قانونی نقطے پر بحث کروائے بغیر نئے بنچ کی تشکیل کی موجودہ صورت حال اختیارات سے تجاوز کا تاثر دے رہی ہے۔ لہٰذا ادارے کی ساکھ کو بچانے کے لئے ایسے تاثر کو ختم کرنا چاہئیے۔ اگر ان اعتراضات کے باوجود بھی 7 یا 6 ججز کے بنچ کی طرف سے فیصلہ جاری کر دیا گیا تو یہ فیصلہ متنازعہ بن جائے گا اور اس پرعمل درآمد خطرے میں پڑ سکتا ہے۔

سپریم کورٹ کو چاہئیے کہ درخواست گزاروں کے وہ مؤقف لے جب وہ صاحب اختیار تھے۔ عمران خان جب وزیر اعظم کے منصب پر فائز تھے تو وہ کہتے تھے کہ ہر دہشت گرد کا مقدمہ فوجی عدالت میں چلنا چاہئیے۔ ان کے اس وقت کے مؤقف کو عدالت دیکھے۔ اسی طرح اعتزاز احسن جب 2015 میں ترمیم کی گئی تو وہ سینیٹ کے ممبر اور لیڈر آف اپوزیشن تھے۔ اسی طرح جواد ایس خواجہ بھی اعتزاز احسن کی طرح اس کیس میں یوں تو متاثرہ فریق نہیں اور اگر ان کے مؤقف کو بھی جاننا ہے تو جب وہ جج تھے تو ان کا کیا مؤقف تھا اس کو بھی دیکھا جائے۔ اس سے خودبخود ہی واضح تصویر سامنے آ جائے گی کہ یہ سب لوگ واقعی فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف ہیں۔ ان کو انسانی حقوق کا مسئلہ درپیش ہے یا کوئی سیاسی مقاصد ان کو سپریم کورٹ آنے پر مجبور کر رہے تھے۔ ویسے تو اس بنچ میں موجود ججز کی بھی سابقہ فیصلوں میں عدالتی آرا موجود ہیں۔

اگر تو آئین و قانون کی نظر میں سویلین کے انسانی حقوق کا معاملہ ہی ہے تو پھر جو اسباب ان حقوق کی خلاف ورزی کا مؤجب بنتے رہے ہیں اور جو 70 سالوں سے اس پر عمل درآمد کرواتے رہے ہیں بلکہ اس کو صحیح بھی گردانتے رہے ہیں اور جب اب ان کی اپنی باری آئی ہے تو ان کو اپنے سابقہ مؤقف اتنی جلدی کیوں بھول گئے ہیں۔ قانون کا ایک بہت ہی خوبصورت میکنزم ہے کہ He who comes into equity must come with clean hands.

جو بھی عدالت آتا ہے اس کے اپنے ہاتھ صاف ہونے چاہئیں۔ اب موصوف سابق وزیر اعظم جو ان تمام فریقین میں سے اس مقدمے کے متاثر فریق ہیں ان سے پوچھا جائے کہ جن لوگوں کے ٹرائل ان کے دور حکومت میں ان کی اجازت سے ہوئے ان کا ذمہ دار کون ہے؟ ان سے پوچھا جائے کہ کیا اب انہی عدالتوں کو چیلنج کرنے کا ان کے پاس کوئی قانونی یا اخلاقی جواز ہے؟

حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اگر فوجی عدالتوں میں 9 مئی کے ملزمان کا ٹرائل قانونی نہیں تو کیا جو کچھ سپریم کورٹ میں ہو رہا ہے اور سپریم کورٹ کے اندر اس صورت حال پر تحفظات موجود ہیں اور اسی بنچ کے ججز کے بقول چیف جسٹس اپنے اختیارات سے متجاوز اور زبردستی انصاف دینے کی کوشش کر رہے ہیں تو کیا اس کارروائی کا جاری رہنا سب کچھ انصاف کے اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے؟ جن حالات کو سپریم کورٹ کی اپنی عدالتی رائے قانون سے متصادم سمجھتی ہے ان کا کوئی کیسے تحفظ کر سکتا ہے؟

اب جس طرح سے جسٹس فائز عیسیٰ کے نوٹ کو سپریم کورٹ پر اپ لوڈ ہونے کے بعد ہٹا دیا گیا ہے اس کی بھی انکوائری ہونی چاہئیے۔ ان کے نوٹ کو ہٹانا تو عدالتی رائے کو ختم کرنے یا فیصلے کو اپنے سیاق و سباق سے علیحدہ کر کےعدالتی ریکارڈ کو مسخ کرنے کی کوشش ہے جس کو کسی بھی طرح سے جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔

اگر موجودہ طرز کے بنچز کے پہلے والے فیصلے دیکھیں اور ان میں پیش گوئیوں سے لے کر عمل درآمد تک کے احوال کو زیر غور لائیں تو معلوم یوں ہوتا ہے گویا یہ بنچ بھی اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکا ہے کیونکہ ٹاک شوز میں تبصروں سے لے کر پارلیمان میں تقریروں تک اس پر عدم اعتماد ہو چکا ہے جس کی بنیاد بھی عدالتی حکمت و دانائی ہی ہے جس کو بنچ کے اندر سے ہی بلند کیا گیا ہے جس کو نظر انداز کرنے کے بعد باقی سیاسی چاہت و نوازشات کی داستانیں ہی بچیں گی جن کا انجام سب کے سامنے ہے۔ جب تک سپریم کورٹ کے اندر کے بنیادی اختلافات کو ختم کر کے آگے نہ بڑھا جائے کسی بھی فیصلے پر عمل درآمد خطرے سے دوچار لگ رہا ہے۔