تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کیلئے مولانا نے تحریری ضمانت مانگ لی

پی ٹی آئی کے بعض اہم رہنما بھی ہر صورت جے یو آئی سے اتحاد چاہتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ مذاکرات کی کامیابی کے لیے مولانا فضل الرحمان عمران خان سے ملنے اڈیالہ جیل جائیں۔ پی ٹی آئی نے اس ضمن میں 6 رکنی کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے۔

تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کیلئے مولانا نے تحریری ضمانت مانگ لی

جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ باضابطہ اتحاد سے پہلے تحریری طور پر ضمانت مانگ لی ہے۔ دوسری طرف پی ٹی آئی نے جے یو آئی سے مذاکرات کیلئے 6 رکنی اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان پی ٹی آئی سے اتحاد کے خواہاں ہیں تاہم پی ٹی آئی کے بعض رہنماؤں کے کردار کے حوالے سے انہیں تحفظات ہیں۔ اس صورت حال کے پیش نظر مولانا کسی بھی اتحاد سے پہلے تحریری ضمانت چاہتے ہیں۔

پی ٹی آئی کے بعض اہم رہنما بھی ہر صورت جے یو آئی سے اتحاد چاہتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ مذاکرات کی کامیابی کے لیے مولانا فضل الرحمان عمران خان سے ملنے اڈیالہ جیل جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹی نے اس ضمن میں 6 رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے جو مستقبل میں جے یو آئی سے اتحاد کیلئے تمام شرائط طے کرے گی۔ کمیٹی میں پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان، سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرعمرایوب خان اور سینیٹر شبلی فراز شامل ہیں۔

مولانا فضل الرحمان نے اپنی طرف سے کمیٹی کے ناموں کو 29 جون کو اپنی پارٹی کے سب سے بڑے فورم یعنی مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس کے بعد دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے ایک سینیئر رہنما نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ مولانا کے ساتھ اتحاد کیلئے چار بنیادی نکات پر اتفاق ہو گیا ہے جن میں ملکی سیاست سے اسٹیبلشمنٹ کے کردار کے خاتمے، آئین کی بالادستی، خیبر پختونخوا کے وسائل اور مسائل جبکہ پڑوسی ملک افغانستان کے ساتھ دیرینہ تعلقات شامل ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ مذاکرات کو کامیاب بنانے کیلئے پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور اور مولانا کے درمیان سیز فائر بھی کرا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دو تین ہفتوں سے علی امین گنڈاپور کی طرف سے مولانا کے خلاف کوئی بیان نہیں آیا ہے۔

تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

مذاکرات پر نظر رکھنے والے بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ مولانا کو اپوزیشن اتحاد کے سربراہ محمود خان اچکزئی کی صدارت پر کوئی اعتراض نہیں اور وہ اس حوالے سے اچکزئی کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں تاہم ان کی سوچ میں ملکی صدارت کا عہدہ موجود ہے۔

اگرچہ تحریری معاہدے میں اس کا ذکر شاید شامل نہ ہو لیکن زبانی طور پر اس مسئلے پر ضرور بات ہو گی۔ جے یو آئی کے مرکزی ناظم انتخاب اور صوبائی جنرل سیکرٹری مولانا عطاء الحق درویش نے اس سلسلے میں بتایا کہ 29 جون کو ہمارے قائد پی ٹی آئی کے ساتھ اب تک ہونے والے مذاکرات سے متعلق شوریٰ کو آگاہ کریں گے اور مستقبل کا لائحہ عمل بھی تیار کیا جائے گا۔

دونوں جماعتوں کے درمیان ماضی کی تلخیوں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ہماری کوئی ذاتی لڑائی نہیں ہے، بس پالیسیوں کا اختلاف ہے۔ اگر پی ٹی آئی قیادت ہمارے تحفظات دور کرتی ہے تو ان کے ساتھ مستقبل میں اتحاد میں کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی اور عین ممکن ہے کہ ہمارا اتحاد ہو جائے۔

سینیئر صحافی اور پشاور میں ڈان ٹی وی کے بیورو چیف علی اکبر نے اس ضمن میں بتایا کہ ماضی میں دونوں جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کے قریب اور ایک دوسرے کے خلاف رہی ہیں، اتحاد دونوں کی ضرورت ہے لیکن یہ غیر فطری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پی ٹی آئی کو مستقبل میں احتجاج کیلئے جے یو آئی کی مدد کی ضرورت ہو گی جبکہ مولانا کا مسئلہ یہ ہے کہ گذشتہ انتخابات میں ان کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا اس لئے وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ حساب برابر کر رہے ہیں۔

اس اتحاد کے حوالے سے مذاکرات میں شامل پی ٹی آئی کے دو رہنماؤں سے رابطہ کیا گیا تاہم دونوں نے اس معاملے پر بات کرنے سے انکار کر دیا۔