وکٹوریا...... میرا ایک درخت تھا

زیرنظر نظم 21 برس کے عراقی شاعر علی رحمان کی تخلیق ہے جس میں ایک ایسے نوجوان کے جذبات کی جھلک دکھائی دیتی ہے جو جنگ سے ہونے والی تباہ کاریوں سے جوجھ رہا ہو۔ قارئین ’’نیا دور‘‘ کے لیے اس نظم کا ترجمہ احمد ترات نے نہایت عمدگی کے ساتھ کیا ہے  جس کے باعث اس پر ترجمے کا گمان تک نہیں ہوتا اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ ان کی طبع زاد تخلیق ہو۔

ترجمہ؛ احمد ترات


وکٹوریا


میرا ایک درخت تھا


جس کو میں نے


وکٹوریا نام دے رکھا تھا


یہ درخت میں نے


پانچ برس کی عمر میں لگایا تھا


تاکہ اس پر چڑیاں آشیانہ بنائیں


مگر ہمارے پڑوسیوں نے


اپنی دیوار اونچی کر لی


تاکہ وہ دھوپ کو


درخت تک آنے سے روک سکیں


دس سال بعد


جب وکٹوریا کے پتے


ایک ایک کر کے جھڑ گئے


تو یہ درخت


بالکل مردہ ہو گیا


تب پڑوسیوں نے


اپنی طرف


ایک سدا بہار درخت لگایا


اب میں خود


ایک ایسی چڑیا کی مثل ہو گیا ہوں


جس نے پہلے


وکٹوریا پر آشیانہ بنایا تھا


اور اب


سدا بہار درخت پر جا کر


دیگر چڑیوں کے ساتھ


 مل گئی ہے