جب میں صبح دم بیدار ہوا تو آسمان گہرے سیاہ بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ کبھی اور کہیں بجلی کے کوندے چمکتے اور گڑگڑاہٹ ہوتی میں نے چھت پر ایک کونے میں برآمدے کی اوٹ میں کرسی رکھ کر بیٹھ گیا اور رم جھم اور شدید موسلادھار بارش کا نظارا کرنے لگا۔ سگریٹ میرے ہاتھ میں سلگ رہا تھا۔ میں نے دیکھا کبوتر اور کوے بھی کسی اوٹ میں چھپنے کے لیے ادھر ادھر بھیگ رہے تھے۔ جس کو جہاں پناہ ملی وہ وہاں براجمان ہوا۔سامنے چھت پر ایک تنہا پھول بارش اور تیز ہوامیں منیرنیازی کے اشعار یاد دلا رہا تھا۔ بارش ہوتی رہی۔ بوندیں ذہن میں پلنے والے خیالوں کی طرح تیزی سے گرتی رہیں۔ میرے الفاظ اور خیال کس پناہ یا اوٹ کی تلاش میں ہیں میں ان کا سامنا کیوں نہیں کر سکتا۔ الفاظ، استعارے، نظمیں اور افسانے، زندگی کو بیان کرنے کا جتن، آنے والے کل کو جاننے کی جستجو اور نروان گھڑی کا سپنا ۔ ثاقب ندیم کی پہلی نظمیہ کتاب۔ ثاقب ندیم نے اس کے آغاز میں لکھا ہے۔
’’مجھے کہسار اور پانی سے محبت ہے۔ کہسار میری ساری طاقت کھینچ کر مجھے گنگ کر دیتے ہیں۔ میں خامشی اوڑھے گھنٹوں انہیں دیکھ سکتا ہوں۔ میں ایک زمانہ بنا تھکے سمندر کی آواز سن سکتا ہوں۔ گائوں کی گھپ اندھیری رات مجھ پہ کوئی جادو کرتی ہے۔ ایسی رات جس میں صرف جگنو دکھائی دیتے ہیں اور میرے اردگرد سے بھوتوں کے قافلے گزرتے ہیں۔ میں ان کومحسوس کر سکتا ہوں۔ کہساروں کے شایان شان مجھے لفظ نہیں ملے کہ میں کچھ کہہ سکتا۔ کاش میں اس رات اور بھوتوں کے قافلے پہ نظم لکھ سکتا۔ کاش میں اس مجذوب پہ ایک نظم لکھ سکتا جسے میں بچپن میں دیکھ کر سوچا کرتا تھا کہ ہر گائوں کا اپنا ایک مجذوب ہوتا ہے ابھی تو میں نے امردوں کے باغ میں گزاری ہوئی دوپہروں پہ کوئی نظم نہیں لکھی نہ اس طوطے پہ جس سے میں نے میٹھے امردوں کے پودوں کی پہچان سیکھی ، کوئی آخر کتنی باتیں لکھ سکتا ہے۔ کتنی یادوں کو نظم کی مٹھی میں بند کیا جا سکتا ہے؟ وہ شام کی ریل کی سیٹی ہو یا سہ پہر کی خاموشی میں حقے کی نَے سے ابھری ہوئی آواز۔ وہ ہڑپا کے کھنڈرات کے جادو میں گزارا ہوا ایک پورا دن ہو یا جتے ہوئے گھوڑوں کی ٹاپوں کی صدا۔ کتنی باتوں اور یادوں کا قرض میں چکا ہی نہیں پایا۔ اپنے آپ کو آخر کتنا برہنہ کیا جا سکتا ہے۔‘‘(اپنی بات)
’’کہیں چھوٹے موٹے خدائوں کی سانسیں اگر آتے جاتے جاتے موڑ لینے لگیں تو کسے یاد رہتا ہے کس سال کس دوڑ میں کون سے توسِن تیزیاکو فقط ہارنے آ لیا تھا؍ ہمیں یاد ہی کب رہا۔ ہمارا جو حصہ تھا وہ قطرہ قطرہ کہیں عمر چھاگل سے گرتا رہا ہے۔ پتہ ہی نہیں چل سکا کون سے پل تجھے دیکھ کر مسکرائے وہ پل ہم سے شاید کہیں کھو گیا ہے۔ یہ کیا ہو گیا ہے۔ سفر کاٹ ڈالا ہے اور راستہ اختتامی نمی سے مہکنے لگا ہے۔ ‘‘(عمر کی چھاگل سے)
گُل ناز کوثر نے ثاقب ندیم کی کتابِ زندگی کے اوراق پر ایک طائرانہ نظر کچھ اس طرح ڈالی ہے۔
’’جاوید انور ،وحید احمد ،حسین عابد اور ثاقب ندیم چار نام ، مشاعرے، ادبی محافل، رسالوں میں چھپنا چھپانا، پھر اپنا ادبی پرچہ نکالنے کی کوشش۔۔۔ ثاقب ندیم کی زندگی میں بھی ایسے کئی اتار چڑھائو ضرور آئے ہوں گے۔ دھیان بھٹکانے والے لمحات کہ یہ لو مدھم پڑ جائے لیکن انہوں نے کبھی کبھار اسے دھیما تو کر دیا مگر مکمل بجھنے نہیں دیا۔ گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ، ہسپتال اور کلینک کے درمیانی اوقات میں دیر رات نیند او رآرام تج کر زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جینے کے باوجود یہ شعلہ انہوں نے بجھنے نہیں دیا۔ مطالعے کا شوق مدھم پڑا تو اردو نظم نگاروں کے انتخاب کو اکٹھا کرنے اور ’’نظم گویا ہوئی‘‘ کے نام سے نظم کے سفر کو منزل منزل بیان کرنے کی ٹھان لی۔ نظم لکھنے میں دیر ہوئی تو تراجم کیے۔ کیلیگرافی ،کلاسیکل میوزک، نظمیں ان کی پوروں سے کھیلتی ہیں۔ شعر ان کے دل کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور گیتوں کے ٹکڑے بادلوں کی طرح ان کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ لیکن وہ ایسے شاعر ہرگز نہیں جو اپنے گردوپیش سے بے خبر اپنی ذات میں گم رہتے ہیں۔ جاوید انور اور حسین عابد پہلے ہی اس سارے ماحول سے بددل ہو کر یورپ کی شانت فضائوں کا رخ کر چکے تھے۔ سو ثاقب ندیم بھی حالیہ صدی کے آغاز میں برطانیہ منتقل ہو گئے۔ شاعری سے رشتہ جوڑے گو چار دہائیاں گزر گئیں لیکن کتا ب آنے میں دیر ہوئی۔ اس کتاب کے علاوہ بھی غزلوں، نظموں اور نثری نظموں کا ایک چھپا ہوا جہان ہے جو منظرعام پر آنے کا ابھی منتظر ہے۔میڈیسن کی تعلیم کے ساتھ ادبی مشاغل جاری تھے کہ اسی دوران ان کا ایک شعر کالج بھر میں مشہور ہو چکا تھا۔
فراق آنکھ میں برسوں کی پیاس بھر دے گا
اُداس شخص ہے سب کو اداس کر دے گا
گُل ناز کوثر نے کیا خوب لکھا ہے۔
’’جھرنوں، پہاڑیوں، وادیوں نے گیت گانا سکھایا، آرٹ ان کی زندگی میں ایک بار داخل ہوا تو انہوں نے اسے اپنی سانسوں کے ساتھ باندھ لیا۔ انہیں دیکھ کر اور خصوصاًتھوڑی دیر گفتگو کے بعد صاف پتہ چلتا ہے کہ وہ کچھ بھی ہونے سے پہلے اور سب کچھ ہونے کے باوجود صرف اور صرف ایک آرٹسٹ ہیں۔نظمیں ان کی پوروں سے کھیلتی ہیں۔ شعر ان کے دل کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور گیتوں کے ٹکڑے بادلوں کی طرح ان کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں لیکن وہ ایسے شاعر ہرگز نہیں جو اپنے گردوپیش سے بے خبر اپنی ذات میں گُم رہتے ہیں۔‘‘
گُل ناز کوثر نے نو سو چھبیس الفاظ میں ثاقب ندیم کے فن و شخصیت کے تاروپود کو یکجا کرکے ایک تصویر میں ڈھال دیا ہے اور یہ تصویر ایک لفافے میں بند کرکے اس پر غالب کا یہ شعر لکھ دیا ہے۔
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا
ثاقب ندیم سے میری دوستی پچیس تیس برسوں پر محیط ہے۔ جاوید انور، حسین عابد، ڈاکٹر سلیم، فواد ملک، ربانی، ڈاکٹر خالد کون ایسا دوست ہے جن کے ساتھ رات گئے ہونے والی محافل میرے اور شیراز راج کے بغیر ممکن ہوتی تھی۔ لیکن یقین کریں مجھے اس کی شخصیت کے ان پہلوئوں کا قطعی اندازہ نہیں تھا۔ جس کی گُل ناز کوثر صاحبہ کو بخوبی خبر ہے ۔ اسے گیلیگرافی کا شوق تھا مجھے نہیں پتہ تھا ۔ اتنا پتہ ہے کہ وہ کسی ’پیکر کے خطوط‘ کو دیکھ کر اپنی ’کوتاہی فن‘ کا گلہ ضرور کیا کرتا اور پھر کئی نشیب و فراز سے آشنا ہونے میں قطعی کوئی تامل نہ کرتا تھا۔اس کا کلاسیکل میوزک سے لگائو بھی مجھ پر پہلی بار منکشف ہوا ہے۔
میرے خیال میں ثاقب ندیم ایک مسکراہٹ کا نام ہے۔ وہ آنکھوں سے دل میں اترتا ہے۔ اور پھر ایک خوبصورت خواب کی طرح ہمیشہ دل وجاں میں رہتا ہے۔ میری والدہ کی زندگی کے آخری ایام تھے اور میرے گھر آنے والوں میں شیراز راج اور ثاقب ندیم ہی تھے جو مجھ سے کہیں زیادہ والدہ مرحومہ کے نزدیک تھے اور ان کی ہر طرح سے دل جوئی بھی کیا کرتے۔ ثاقب میوہسپتال میں ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ تھا اور وہاں میرا آنا جانا معمول تھا۔ سب مجھے ثاقب کا بھائی سمجھتے تھے بلکہ ایک دفعہ مسز ثاقب اپنی والدہ کے چیک اپ کے لیے ہسپتال آئی ہوئی تھیں تو انہیں پیرامیڈیکل سٹاف میں سے کسی نے میرے بارے بتایا کہ آپ کا دیور بھی آیا ہوا ہے تو وہ بہت حیران ہوئیں اور مجھے بھی کسی سٹاف ممبر نے کہا کہ آپ کی بھابی آئی ہوئی ہیں۔لیکن پھر بعدازاں یہ عقدہ کھلا۔
ماں چلی گئی۔ شیراز اور ثاقب دونوں بیلجئم اور برطانیہ جا کر مقیم ہو گئے اور میں واقعی یتیم ہو گیا ۔
پہلے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
والی کیفیت تھی ۔ میرے قہقہے بھی یہ دونوں اپنے ساتھ ہی لے گئے۔ ثاقب نے کئی بار میری بھیانک تنہائی کے بارے میں سوچا اور مجھے ایک سے دو ہونے کا نہ صرف مشورہ دیا تھا بلکہ ’امیدوار‘ بھی مہیا کر دیا۔ تھا لیکن میں تنہائی کو گلے لگا چکا تھا۔ اور شام گئے اس صبح نو کے طلوع ہونے کے نظارے کا حوصلہ مجھ میں نہ تھا۔
محبت ہو یانظم، نوکری ہو یا دوستی ثاقب جو بھی کام کرتا ہے پوری دیانت ،کمٹ منٹ ،لگائو اور جذبے سے سب کچھ بھول کر کرتاہے۔
’نظم گویا ہوئی‘ کے اوراق یا نظمیں اس نے جس طرح اکٹھی کی، میں اس کا چشم دید گواہ ہوں۔ پہلے تو مجھے سمجھ نہ آئی وہ کیا کر رہا ہے لیکن ایک فریم اس نے متعین کر لیا تھا۔ ہم دونوں معروف ادیب ،مترجم ،مدیر سلیم الرحمن صاحب کے گھر گئے۔ ان کو بتایا وہ بہت متاثر ہوئے اور اس مجموعے میں شامل نظموں کی ترتیب،نظم کے شاعر کے سن وفات یا تاریخ پیدائش کے اعتبار سے کرنے کا مشورہ دیا۔ میں باغ جناح یعنی لارنس گارڈن کے کسی گوشے میں بیٹھا سگریٹ پھونکا کرتا اور ثاقب قائداعظم لائبریری کے اندر کتابوں میں گم ایک ایک کتاب اور ادبی جریدے کی ورق گردانی میں مصروف ہوتا۔ اور جب باہر آتا تو اس کے ہاتھ آٹھ دس یا بارہ نظموں کی فوٹوسٹیٹ ہوتی۔ اور میں اکتا کر کہتا یار کیااس لیے مجھے اپنے ساتھ لائے ہو۔ کل سے میں نہیں آئوں گا،میں غصے میں اُسے کہتا مگر وہ مجھے لینے دوسرے دن پھر آدھمکتا۔جب وہ برطانیہ گیا تو ’’نظم گویا ہوئی‘‘ کا تمام مسودہ میرے پاس چھوڑ گیا تھا۔ میں نے کسی نہ کسی طور اسے سنبھال کر رکھا کہ ثاقب کی یہ برسوں کی محنت تھی۔ جب وہ واپس آیا تو اس نے آتے ہی پوچھا کہ ’’نظم گویا ہوئی‘‘ کا مسودہ کہاں ہے۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’’ویچ دیتا اے‘‘بولا ’’اوئے ظالما اے کیہ کیتا ای‘‘جب میں نے اسے سو پرتوں میں رکھا ہوا ’’نظم گویا ہوئی‘‘ کا مسودہ واپس کیا تو اس کی جان میں جان آئی۔
اس کے نظمیہ مجموعے ’’نروان گھڑی کا سپنا‘‘میں کل پچاسی نظمیں شامل ہیں۔ یہ کڑا انتخاب ہے۔
تمام عمر تیرا انتظار ہم نے کیا
اس انتظار میں کس کس سے پیار ہم نے کیا
زندگی کے گزرتے ماہ و سال میں اوسطاً فی سال اس کے ذہن میں دو نظمیں منور ہوئیں۔گویا وہ زود نویس نہیں ہے۔ میری اس سے کل شب بات ہوئی تو اس نے بتایا کہ اس نے بیس پچیس نظمیں اس مجموعے میں شامل نہیں کی ہیں جو مختلف جرائد میں چھپ چکی ہیں اور جنہیں دوستوں نے بہت داد دی تھی۔اور بقول اس کے ’کس تخلیق میں کتنی شعریت ہے‘یہ اہم ہوتا ہے۔
میں نے اس کی نظموں سے کچھ ٹکڑے اٹھائے ہیں۔
میں وہاں بھی گیا تھا
جہاں شب کی دیوار
خوابوں کی الجھن سے متلی زدہ تھی
جہاں وقت نے راہ فردا پہ پائوں دھرا تک نہیں تھا
وہاں پر کسی نے فقط کن کہا اور گھڑی چل پڑی
(میرا خواب مجھ سے آگے چل رہا ہے)
________
خواب جو چلتے پھرتے دیکھے
دھواں اُڑاتے
خواب جو تیری آنکھوں میں تھے
خواب جو میری وحشت میں تھے
نظم نہیں کر پایا میں
(نروان سمے کا ہاتھ سے پھسلتا منظر)
_______
اور خوا ب پر خواب کا شائبہ ہو رہا ہے
یہاں خواہشیں سانس لیتی ہوئی
خواب اور نیند میں خواہشیں
خواہشیں حدِ امکاں سے باہر
یہ بے مائیگی تو نہیں ہے جو مٹی میں جاتے ہوئے جسم کا ساتھ دے گی
یہ خواہش ہے
(خوابوں بھری نیند کی تلاش)
_______
اپنے دیرینہ دوست شاعر جاوید انور مرحوم کے نام ایک نظم
یک طرفہ راستے کا مسافر
(آخری بند)
درد جگاتی شام کا غم ہے
سرخی مائل آنکھ بھی نم ہے
ایش ٹرے میں رکھا سگریٹ
یوں ہی رکھا رہ جاتا ہے
خالی کرسی خالی رہ رہ تھک جاتی ہے
جن رستوں پہ خواب سناتے، نظمیں کہتے جیون بیتا
جس فٹ پاتھ پہ باتیں کرتے رات بِتائی
جن جھیلوں میں سورج ڈوبتے ہم نے دیکھے
جن رستوں پہ ڈگ بھرے تھے
وہ پوچھیں تو کیا کہنا ہے؟
_____
اورطاہر اصغر’’زندہ مرحوم‘‘کے لیے ایک نظم
چپ ہو جائو
(آخری بند)
سینہ پیٹیتی سوچوں سے تم باہر نکلو
کمپیوٹر سکرین پہ آخر تھوکتے تھوکتے تھک جائو گے
سانسوں کی یہ ڈفلی کتنی دیر بجے گی
کب گنتے ہو
ماضی کی دیوار سے گرتے کتنے پل تھے
جن کی سمت کا پتا نہیں ہے
وقت کے رتھ کواپنی مرضی سے مت موڑو
نفرت کا سیال بھرا ہے جس پیالی میں اس کو توڑو
خوشیاں بانٹو، خواب دکھائو
اپنے آپ کو، دنیا کو بھی
یا پھر چپ کی چادر اوڑھو
خاموشی کو گلے لگائو
اور سو جائو
میں اس کے دیگر شعری مجموعوں اور خاص طور سے اس کی تحقیق ’’نظم گویا ہوئی‘‘ کا شدت سے منتظر ہوں کہ میرا انتظار میری زندگی پر ختم نہ ہو اور یہ کتاب میں دیکھ نہ سکوں۔اس نے بڑے اہتمام کے ساتھ جدید نظم کا محاکمہ بھی کیا ہے۔ جو یقینا اس تحقیق کا پیش لفظ ہو گا۔ دوستوں کی نظمیں خود اپنی شاعری سے انتخاب اس کے لیے کڑا امتحان ہوگا مگر یہ ایسا کوئی پل صراط نہیں ہے کہ جسے عبور نہ کیا جا سکے۔
نظم سے وہ یوں مکالمہ کرتا ہے، جیسے وہ کوئی کردار ہو، دیرینہ دوست ہو، ہم راز ہو، گم شدہ خوشبو ہو، یا کوئی معشوق اور خواب یا نیند جیسے الفاظ اس کی اکثر نظموں میں بالالتزام موجود ہیں۔ خواب، بشارتوں کی علامت ہوتے ہیں۔ نیند کسی اَن دیکھے جہان میں لے جانے کا نام ہے۔ ثاقب ندیم نے ان دواستعاروں کو نظموں میں خوب استعمال کیا ہے۔
’’نروان گھڑی کا سپنا‘‘ کتاب کا عنوان ہونے کے ساتھ ساتھ نظم بھی ہے۔ کچھ نظموں کے عنوان یوں ہیں
میرا خواب مجھ سے آگے چل رہا ہے
خواب بھری نیند کی تلاش
خواب میں قرار ہے
روبوٹ کا خواب
خواب در خواب خوابوں کی زنبیل اس کا حاصل کلام ہے۔
تھا خواب میں خیال کو تُجھ سے معاملہ
جب آنکھ کُھل گئی نہ زِیاں تھا نہ سُود تھا
اور اس کی کتاب سے یہ ایک خوبصورت نظم۔
بوڑھی ہوتی یاد
زمانوں کی الجھن
سوالوں کے نیزے
صدیوں کے نیزوں سے چھلنی ہوا
آفتابِ تعلق
حسابِ شب و روز کرتے ہوئے
کس اندھیرے کے پاتال میں گر گیا ہے؟
ادھر میرے بالوں میں
مرتے ہوئے سرد سورج سے
بچھڑی ہوئی اک کرن کھو گئی ہے
نومبر تیری یاد کے نخل کو سینچتا ہے
زمانوں کے گنجل میں الجھی ہوئی عمر کی زرد شامیں
ترے درد سے ہیں لبالب
کہ جن میں تری یاد کے زہر کی کاٹ ہے
شام ہے اور مرے ہاتھ میں اپنے محبوب کا غم
فقط ایک ٹوٹا ہوا پات ہے
________
روشنی، خواب اور نئی زندگی،حرف وآہنگ کا پیراہن نوشتہ خیال رنگ و چنگ کا کمال ،اک تصورزیست ناتمام ۔ ہمارے سامنے حرف و معنی کی اک نئی کائنات ہے جسے سمجھنے، جاننے اور غور کرنے کے لیے کسی نئی نظر کی تلاش ہے۔ جی ہاں ثاقب کے الفاظ میں :
’’ہمارا جو حصہ تھا وہ قطرہ قطرہ کہیں عمر چھاگل سے گرتا رہا۔ سفر کاٹ ڈالا ہے۔ راستہ اختتامی نمی سے مہکنے لگا ہے۔ اپنے آپ کو آخر کتنا برہنہ کیا جا سکتا ہے۔‘‘
ثاقب نے بین الاقوامی ادب کو بھی پڑھا ہے اور معاصر اردو ادب کاخوشہ چیں ہونے کے ساتھ ساتھ وہ اردو شاعری کی کلاسیک اور جدید روایت سے بخوبی آگاہ ہے۔ ہر دن مطالعہ اس کے لیے اہم ہوتا ہے۔ وہ تمام روایتوں سے شدید انحراف کرتا ہے۔ وہ جدت پسندی محض لفظوں اور ہیت کے تجربات کو نہیں سمجھتا۔ اپنی نظموں میں لفظوں کو جس پیرائے اور پس منظر کے ساتھ وہ پیش کرتا ہے ان سے پہلی بار سابقہ ہوتا ہے۔ میں اسے اردو نظم کے نئے ڈکشن اور جدیدیت کے نئے منشور کا اکلوتا شاعر سمجھتا ہوں۔ جسے کسی لسانی تشکیلات کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ اپنی نظم کی لغت خود ترتیب دے چکا ہے اور اس کا اصل تخلیقی کارنامہ یہی ہے جس سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کو بغور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ درحقیقت ثاقب ندیم حرف و معنی کی نئی کائنات کے لیے ’حرفِ کن‘ کہنے والا شاعر ہے۔
اور یہ کیسے ممکن ہے کہ میں اسے وہ گیت نذر نہ کرو جو وہ اکثر میرے ساتھ گنگنایا کرتا تھا۔
جادو ہے یا نشہ ہے
موسم مستانہ رستہ انجانا۔۔ جانے کس موڑ پہ مل جائے کوئی دیوانہ
آگے بھی جانے نہ تو پیچھے بھی جانے نہ تو جو بھی ہے بس یہی اک پل ہے
آ جارے پردیسی۔ میں تو کب سے کھڑی اس دوار کہ اکھیاں تھک گئیں پنتھ نہار
یہ شام مستانی مدہوش کیے جائے۔ مجھے ڈور کوئی کھینچے تیری اوڑلیے جائے
مجھے چھو رہی ہیں تیری گرم سانسیں کہ میرے رات اور دن مہکنے لگے ہیں
(ناتمام)