سابق وزیراعظم نواز شریف کی چھ ہفتوں کے لیے ضمانت منظور ہو چکی تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ اس میں مزید توسیع کا امکان ہے۔ اس تاثر کو سابق وزیراعظم کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان خان کے اس بیان سے بھی تقویت ملی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ کارڈیالوجسٹ اور دیگر ماہرین کے معائنے کے بعد ہی یہ علم ہو سکے گا کہ سابق وزیراعظم کا علاج چھ ہفتوں میں ممکن ہو سکے گا یا نہیں؟
انہوں نے مزید کہا، نواز شریف کو آج شریف میڈیکل سٹی منتقل کر دیا جائے گا اور ان کے دل اور گردوں کا علاج ایک ساتھ شروع کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ، نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت منظور
یاد رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے منگل کے روز سابق وزیراعظم نواز شریف کی سزا طبی بنیادوں پر چھ ہفتوں کے لیے معطل کرتے ہوئے ان کی درخواست ضمانت منظور کر لی تھی، وہ اس دوران بیرون ملک نہیں جا سکیں گے تاہم اپنے وسائل سے اپنی مرضی کے معالج سے علاج کروا سکتے ہیں اور ضمانت کی میعاد ختم ہونے پر سابق وزیراعظم کو سرنڈر کرنا ہو گا۔
احتساب عدالت نے نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں سات برس قید کی سزا سنائی تھی جس پر انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ضمانت کی درخواست جمع کروائی جسے گزشتہ ماہ 25 فروری کو مسترد کرتے ہوئے یہ فیصلہ سنایا گیا کہ نواز شریف کی کسی میڈیکل رپورٹ سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ ان کی خراب صحت ان کی زندگی کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا تھا کہ میڈیکل بورڈ میں شامل ڈاکٹروں کی مرتب کردہ رپورٹوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ درخواست گزار کو ملک میں دستیاب بہترین طبی سہولیات فراہم کی گئیں جو پاکستان میں کسی بھی فرد کو حاصل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ضمانت ہو بھی جائے تو نواز شریف علاج کے لیے بیرون ملک نہیں جا سکتے، سپریم کورٹ
سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست ضمانت دائر کر دی اور ایک علیحدہ درخواست میں جلد سماعت کی استدعا بھی کی تاہم سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے ان کی درخواست یہ کہتے ہوئے واپس کر دی کہ کارروائی معمول کے مطابق ہی ہو گی اور منگل کے روز بالآخر سابق وزیراعظم کی طبی بنیادوں پر چھ ہفتوں کے لیے ضمانت منظور کر لی گئی۔
یاد رہے کہ 24 دسمبر 2018ء کو اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے نیب کی جانب سے نواز شریف کے خلاف دائر العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز پر فیصلہ سنایا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کو کچھ ہوا تو ذمہ دار شہباز شریف ہوں گے
عدالت نے سابق وزیراعظم کو فلیگ شپ ریفرنس میں شک کی بنیاد پر بری کر دیا تھا تاہم العزیزیہ ریفرنس میں سات برس کی قید کے علاوہ ایک ارب روپے اور اڑھائی کروڑ ڈالر کے الگ الگ جرمانوں کے علاوہ 10 برسوں کے لیے کوئی بھی عوامی عہدہ رکھنے کے لیے نااہل قرار دے دیا تھا۔