سپریم کورٹ میں ججز تعیناتی، بنچ تشکیل دینے اور ریویو پٹیشنز کے حوالے سے رولز اور طریقہ کار میں تبدیلی لائی جانی چاہئیے مگر پچھلے چند چیف جسٹس صاحبان اور موجودہ چیف جسٹس اس تجویز پر عمل نہیں کرتے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال جوڈیشل کمیشن کا اجلاس اس وجہ سے نہیں بلا رہے کیونکہ انہیں لگتا ہے ان کی مرضی کے جج سپریم کورٹ میں تعینات نہیں ہو پائیں گے۔ جوڈیشل کمیشن کے ممبران کا متفقہ فیصلہ ہے کہ ججز تعیناتی کے حوالے سے سنیارٹی کے اصول کو مقدم رکھنا چاہئیے۔ یہ کہنا ہے سینیئر وکیل اور ممبر جوڈیشل کمیشن اختر حسین کا۔
نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں چار سال سے جوڈیشل کمیشن کا رکن ہوں۔ ہمارا مطالبہ رہا ہے کہ ججوں کی تعیناتی کے طریقہ کار میں تبدیلی لائی جانی چاہئیے۔ چیف جسٹس کے صوابدیدی اختیار ہمارے جوڈیشل سسٹم کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہوں یا سپریم کورٹ کے، اپنے صوابدیدی اختیارات نہیں چھوڑنا چاہتے۔
مطیع اللہ جان نے کہا کہ سات میں سے چار ججوں نے کہہ دیا ہے کہ سپریم کورٹ الیکشن سے متعلق درخواستیں سن ہی نہیں سکتی تھی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے آج بھی یہی سوال پوچھا کہ آپ کس حکم پر عمل درآمد کروانا چاہ رہے ہیں یعنی سپریم کورٹ بنچ کا پچھلا حکم تو چار تین سے مسترد ہو چکا ہے۔ اس جھگڑے کا واحد حل یہ ہے کہ فل کورٹ بنچ بنایا جائے اور وہ اس سارے مسئلے کو دیکھے۔ مگر یہ بھی اہم مسئلہ ہے کہ موجودہ ججز تو اکٹھے ہو کر چائے نہیں پیتے، فل کورٹ کیسے بنے گا۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے 2018 میں حکومت کے لئے جس طرح کوالیفائی کیا تھا وہ طریقہ کار ہی غلط تھا۔ جب تک اس کوالیفائنگ راؤنڈ کا احتساب نہیں ہو جاتا تب تک آگے بڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ آگے بڑھیں گے تو عمران خان کے 2018 والے غیر آئینی اقدام کو آئینی شکل مل جائے گی۔ وقت آ گیا ہے کہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض کو کرسی سے باندھ کر ان سے ایک پریس کانفرنس کروا لی جائے کہ انہوں نے عمران خان کو کہاں کہاں سپورٹ فراہم کی ہے اور پھر اس کی بنیاد پر اکتوبر سے پہلے پہلے تمام ذمہ داروں کا احتساب ہونا چاہئیے۔
ضیغم خان نے کہا کہ اس وقت کا بحران ریاستی بحران کی صورت اختیار کر چکا ہے جس میں ریاست کے تینوں ستون گھر چکے ہیں۔ ایسی عدلیہ جو خود تنازعات کا شکار ہو وہ ریاستی اداروں کے جھگڑے کس طرح ختم کروا سکتی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب ہمیں سپریم کورٹ کی سب سے زیادہ ضرورت ہے چیف جسٹس صاحب معاملات مزید الجھا رہے ہیں۔ یہ مطالبہ کہ پہلے احتساب اور پھر انتخابات، میں سمجھتا ہوں یہ آئین سے ماورا بات ہے۔ کسی بھی مصلحت اور کسی بھی مجبوری میں ہمیں وقت پر انتخابات کروانے سے دستبردار نہیں ہونا چاہئیے۔
مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے دو ججوں نے جو تفصیلی فیصلہ آج جاری کیا ہے انہوں نے عدلیہ کے سر میں کیل گاڑ دیا ہے۔ جو ادارہ اپنے اندرونی مسائل کو جمہوری طور پر حل نہیں کر سکتا وہ ملک کے جمہوری مسائل کیسے حل کر سکے گا۔ وفاقی آئینی عدالت قائم ہونی چاہئیے جو آئینی معاملات کو دیکھے جبکہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس عام لوگوں کے مقدمے سنیں۔
پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ 'خبر سے آگے' ہر پیر سے ہفتے کی شب 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے پیش کیا جاتا ہے۔