سیاست میں 2022 سے کوئی جیت رہا ہے تو وہ شہباز شریف ہے

شہباز شریف کی زندگی میں وہ لمحہ آ گیا جس کا ان کو عشروں سے انتظار تھا اور اس بار تو ماحول بھی بنا بنایا تھا۔ نواز شریف ملک سے باہر تھے، عمران خان دل سے اتر چکے تھے، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی جیسی اپوزیشن کی تقریباً ساری جماعتوں کی حمایت بھی حاصل تھی۔

سیاست میں 2022 سے کوئی جیت رہا ہے تو وہ شہباز شریف ہے

سابق وزیر اعظم نواز شریف کی پانامہ کیس میں نااہلی کے بعد جب اقتدار کے لیے نئی بھرتی کا عمل شروع ہوا تو سب سے زیادہ ریٹنگ عمران خان کی تھی جو دھرنوں کے بعد سے بھرتی والوں کی آنکھ کا تارا بن چکے تھے اور خود کو ملک کا نیا وزیر اعظم دیکھ رہے تھے۔ مگر ایسا بالکل بھی نہیں تھا، عمران خان کے ذریعے سے نواز شریف کو اقتدارسے نکالنے کے بعد بھرتی پہ متعین افراد عمران خان پر پوری طرح اعتبار کرنے کے موڈ میں نہیں تھے، یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان 'افراد' کے درمیان نئے وزیر اعظم کی بھرتی پر کچھ اختلاف تھا۔ کچھ پرانے دوست شہباز شریف کے حق میں تھے اور کچھ نئے دوست عمران خان کو وزیر اعظم دیکھنا چاہتے تھے۔

معروف صحافی اور تجزیہ کار حامد میر بھی اس بات کا انکشاف کر چکے ہیں کہ 2018 کے انتخابات سے پہلے اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے شہباز شریف کو آفر ہوئی تھی کہ اگر وہ نواز شریف کو چھوڑ کر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہاتھ ملاتے ہیں یا پھر ن لیگ میں سے ن کو مائنس کرتے ہیں تو اقتدار کا ہما ان کے سر پر بیٹھ سکتا ہے مگر شہباز شریف کو یہ ڈیل پسند نہ آئی اور وہ ایک اچھے کاروباری ثابت ہوئے۔ دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ بلاول بھٹو زرداری کو بھی وزیر اعظم بنانے کو تیار تھی، اگر وہ پیپلز پارٹی سے زرداری فیکٹر کو مائنس کرنے پر تیار ہو جاتے۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ آخر تک عمران خان کے بارے میں واضح نہیں تھی اور ان پر بھروسہ کرنے سے متعلق خدشات کا شکار تھی، مگر کوئی اور مناسب امیدوار نہ ملنے کی صورت میں 'مرتا کیا نہ کرتا' والی ضرب المثل پر عمل کرتے ہوئے عمران خان کو ہی نیا وزیر اعظم بھرتی کرنے کا خطرہ مول لینے کی ضرورت پیش آئی۔ یہاں ایک اور دلچسپ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ سے نئے، نابلد اور نابالغ افراد کو وزیر اعظم بنانے میں سکون محسوس کرتی ہے کیونکہ ان کو اچھے اور پرسکون طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

شہباز شریف عرصہ دراز سے اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا ہیں، ان کو ہمیشہ سے نواز شریف کے متبادل کے طور پر تیار کیا جاتا رہا ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں بھی اس بات کی بہت چہ مگوئیاں تھیں کہ مائنس نواز شریف کر کے شہباز شریف صاحب کو آگے لایا جائے۔ اس دور میں اس بات کے چرچے بھی تھے کہ شہباز شریف بیک ڈور رابطوں کے ذریعے سے پرویز مشرف کے ساتھ بھی بات چیت کر رہے تھے۔ اسی دور میں بیگم کلثوم نواز کی طرف سے منسوب ایک بیان سامنے آیا تھا کہ شہباز شریف جو مشورے نواز شریف کو دے رہے ہیں وہ مشورے اپنے دوست پرویز مشرف کو دیں۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ شہباز شریف اس ڈیل پر نواز شریف کو نہ منا سکے مگر انہوں نے خود اپنے بل بوتے پر یہ خطرہ کبھی مول نہیں لیا کیونکہ ان کو ایک اچھا کاروباری ہونے کی وجہ سے پتہ تھا کہ ووٹ بینک اور مقبولیت نوازشریف کی ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ وزیر اعظم بننے کے چکر میں وہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ بھی سے نہ ہاتھ دھو بیٹھیں۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ عمران خان اور ان کی حکومت سے بہت جلد مایوس ہونے لگ گئی تھی اور عوامی رائے بھی تحریک انصاف کے خلاف جانے لگی تھی۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ اسٹیبلشمنٹ سمجھتی تھی کہ یہ حکومت عمران خان اور تحریک انصاف کی نہیں بلکہ ان کی ہے اور وہ جب چاہیں اس کو ختم کر سکتے ہیں اور پھر آخر میں ہوا بھی یہی۔ اسی اثنا میں نئے وزیر اعظم کی نئی بھرتی کے لیے کسی موزوں امیدوار کی تلاش کا عمل پھر سے شروع ہو چکا تھا۔ راقم صرف ایک موقع پر عمران خان کی سیاسی بصیرت پر داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ عمران خان کو اس بات کا بخوبی علم تھا کہ اگر ان کا کوئی نعم البدل ہوا تو وہ شہباز شریف ہو گا اسی لیے تحریک انصاف کے سارے دور میں شہباز شریف مختلف کیسز میں نیب کی تحویل میں رہے۔ یہاں یہ دلچسپ صورت حال بھی ہو سکتی ہے کہ ہم اس بات کا کریڈٹ تو عمران خان کو دے رہے ہیں جبکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دوسری طرف بھرتی والے افراد شہباز شریف کو نیب کی تحویل میں رکھ کر ان کی ممکنہ بھرتی کی تیاری نہ کروا رہے ہوں۔

اپریل 2022 کی تحریک عدم اعتماد کے بعد اسٹیبلشمنٹ کی ہر آنکھ کا تارا شہباز شریف ہی تھے۔ شہباز شریف کی زندگی میں وہ لمحہ آ گیا جس کا ان کو عشروں سے انتظار تھا اور اس بار تو ماحول بھی بنا بنایا تھا۔ نواز شریف ملک سے باہر تھے، عمران خان دل سے اتر چکے تھے، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی جیسی اپوزیشن کی تقریباً ساری جماعتوں کی حمایت بھی حاصل تھی جس کی وجہ سے شہباز شریف کا وزیر اعظم بننا ناگزیر ہو چکا تھا۔

شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانے میں ایک بڑا کردار آصف زرداری صاحب کا بھی سمجھا جاتا ہے جبکہ حقیقت میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ زرداری صاحب نے صرف شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانے پر اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت نہیں کی۔ یہ مخالفت نہ کرنے کی بھی ایک بڑی وجہ تھی اور وہ سندھ کی حکومت تھی۔ پیپلز پارٹی سندھ میں کئی ترقیاتی منصوبے شروع کر چکی تھی جن کی تکمیل کے لیے انہیں کچھ وقت درکار تھا اور ان منصوبوں کی تکمیل کے بغیر اگلے الیکشن میں جانا مشکل ہو جاتا۔ آصف زرداری صاحب کو شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے سے وقت بھی مل گیا، عمران خان سے بھی جان چھوٹ گئی اور ڈیڑھ سال کے لیے اسٹیبلشمنٹ کا خطرہ بھی ٹل گیا۔

2024 کے الیکشن کی تیاری کے سلسلے میں نواز شریف کو خاص طور پر پاکستان 'لایا' گیا۔ اس وقت بھی سیاست پر گہری نظر رکھنے والوں کو اس بات کی خبر تھی کہ نواز شریف کو الیکشن کے لیے استعمال کیا جائے گا جبکہ وزیر اعظم چھوٹے میاں شہباز شریف کو ہی بنایا جائے گا جو اب فیورٹ ہونے کے ساتھ ساتھ آزمودہ بھی ہو چکا ہے۔ الیکشن کے نتائج کے بعد نواز شریف سمیت سبھی لوگ ہارے، جو جیتا وہ صرف شہباز شریف تھا۔ ویسے تو منافع بخش کاروباری ہونے کی وجہ سے نواز شریف بھی 'ساڈا حصہ ایتھے رکھ' والی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے اپنی بیٹی مریم نواز کو پنجاب کی وزیر اعلیٰ بنوانے میں کامیاب ہو گئے۔ اسٹیبلشمنٹ کو عرصہ دراز سے ایسے ہی ایک وزیر اعظم کی تلاش تھی جو انتظامی امور بھی دیکھ سکتا ہو، پنگا نہ لینے کی سرشت بھی رکھتا ہو، اور عرصہ دراز سے دیکھا بھالا بھی ہو تو پھر ایسی صورت حال میں شہباز شریف جیسے موزوں وزیر اعظم کو بھلا 'وہ' کیسے چھوڑ سکتے تھے اور وہ بھی اس مقام پر جہاں عمرانی جنون میسرہ اور میمنہ سے ہوتے ہوئے قلب کو چیر رہا تھا۔ 2022 سے لے کر اب تک مملکت پاکستان کی سیاست میں جو جیت رہا ہے وہی شہباز ہے!

عاصم علی انٹرنیشنل ریلیشنز کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے University of Leicester, England سے ایم فل کر رکھا ہے اور اب یونیورسٹی کی سطح پہ یہی مضمون پڑھا رہے ہیں۔