اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے خط کے معاملے پر چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے فل کورٹ اجلاس طلب کرلیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے خفیہ اداروں کے عدالتی معاملات میں مداخلت سے متعلق خط پر فل کورٹ اجلاس طلب کیا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے اس سلسلے میں اٹارنی جنرل منصور عثمان سے مشاورت بھی کی جس کے بعد فل کورٹ اجلاس طلب کیا ہے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں فل کورٹ اجلاس کچھ دیر میں ہوگا۔
دوسری جانب صحافیوں سے گفتگو میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ ججز کے خط کا معاملہ سنجیدہ ہے جس کی تحقیق ہونی چاہیے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے خط پر 4 بار ایسوسی ایشنز نے تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنانے اورچیف جسٹس پاکستان سے انکوائری اورملوث افراد کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6ججز کے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھنے کے معاملے پر اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کا ہنگامی اجلاس ہوا جس دوران بار ایسوسی ایشن نے عدلیہ کی آزادی و خود مختاری کے منافی اقدامات اور مداخلت پر لکھے گئے خط پر تشویش کا اظہار کیا۔
اعلامیے کے مطابق عدلیہ کی آزادی پر حرف آنا نظام عدل، انصاف اور معاشرے کیلئے شدید نقصان دہ ہے۔ آئین و قانون کی عملداری، عدلیہ کی آزادی اور خود مختاری کے اصولوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔
اعلامیے میں چیف جسٹس پاکستان سے انکوائری اورملوث افراد کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ عدلیہ کی آزادی کی خاطر تحریک بھی چلانا پڑی توگریز نہیں کریں گے۔ آزاد اور خود مختار عدلیہ کے آئینی اصول کی پاسداری کرتے ججز کے پیشہ ورانہ امور کی آزادانہ ادائیگی کو یقینی بنایا جائے۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
دوسری جانب سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کا ہنگامی اجلاس ہوا جس کے اعلامیے میں کہا گیا ہےکہ اجلاس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے خط کا جائزہ لیا گیا۔
سندھ ہائیکورٹ بار نے ججز کےخط پر تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے تین ججز پر مشتمل جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے۔
سندھ ہائیکورٹ بار نے عدالتی معاملات میں مداخلت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ کے معاملات میں مداخلت عدالتی نظام پر ضرب لگانےکے مترادف ہے۔
علاوہ ازیں میاں داؤد ایڈووکیٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے خط کی اوپن کورٹ تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی۔
سپریم کورٹ میں آئینی درخواست میاں داؤد ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی جس میں ہائیکورٹ ججز کے خط پر سپریم کورٹ کا بااختیار کمیشن بنا کر انکوائری کرانے کی استدعا کی گئی ہے۔
میاں داؤد ایڈووکیٹ نے درخواست میں مؤقف اختیار کیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کا خط ایک طے شدہ منصوبہ لگتا ہے اور سپریم جوڈیشل کونسل ایسے تنازعات کی تحقیقات کا ادارہ نہیں ہے۔
درخواست گزار کا مؤقف ہے کہ ججزکا سپریم جوڈیشل کونسل کو خط عدلیہ کو سکینڈلائز (متنازع) کرنے کے مترادف ہے۔ 6 ججز نے اپنے خط میں بانی پی ٹی آئی کے صرف ایک مقدمے کی مثال پیش کی اور اس کے علاوہ کسی ایک بھی مقدمے کا واضح حوالہ اور ثبوت نہیں دیا۔
واضح ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کو خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت کے حوالے سے مشترکہ طور پر خط لکھا ہے۔ انہوں نے اس خط میں متعدد واقعات کا ذکر کیا ہے۔ ججز کی جانب سے جوڈیشل کنونشن بلانے کی درخواست کی گئی ہے۔
جوڈیشل کونسل کو خط لکھنے والوں میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحاق، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز شامل ہیں۔
مذکورہ ججز کے لکھے گئے مشترکہ خط کی کاپی سپریم جوڈیشل کونسل کے تمام ممبران اور سپریم کورٹ کے تمام جج صاحبان کو بھجوائی گئی ہے۔
خط میں عدالتی امور میں ایگزیکٹو اور ایجنسیوں کی مداخلت کا ذکر کیا گیا ہے۔
ججز کے جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ عدلیہ میں خفیہ اداروں کی مداخلت اور ججز پر اثر انداز ہونے پر جوڈیشنل کنونشن بلایا جائے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ عدالتی امور میں مداخلت پر کنونشن طلب کرنے سے دیگر عدالتوں میں ایجنسیوں کی مداخلت کے بارے میں بھی معلومات سامنے آئیں گی۔
خط میں مؤقف اختیار کہا گیا کہ کنونشن سے عدلیہ کی آزادی کے بارے میں مزید معاونت ملے گی۔
خط لکھنے والے ججوں نے اپنے اوپر دباؤ کی کوششوں پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو 2023 اور 2024 میں لکھے خطوط بھی شامل کیے ہیں۔