’حکومت نے ٹڈی دل پر قابو نہ پایا تو ملک میں غذائی اجناس کا سنگین بحران پیدا ہو سکتا ہے‘

’حکومت نے ٹڈی دل پر قابو نہ پایا تو ملک میں غذائی اجناس کا سنگین بحران پیدا ہو سکتا ہے‘
دنیا کے متعدد ممالک کی طرح پاکستان بھی ٹڈی دل کے حملوں کی زد میں ہے، یہ ٹڈیاں بڑے پیمانے پر فصلیں تباہ کر رہی ہیں، جس سے خوراک کی قلت کے خدشات پیدا ہونا شروع ہو گئے ہیں۔

یہ ٹڈیاں جون میں ایران کے راستے پاکستان میں داخل ہوئی تھیں اور بڑے پیمانے پر فصلوں کو تباہ کر چکی ہیں۔ ٹڈیوں کے حملے سے سب سے زیادہ کپاس، گندم اور مکئی کی فصلیں متاثر ہوئی ہیں۔

ٹڈی دل کے حملوں سے جہاں ملک کے کسانوں کو شدید نقصان ہو رہا ہے وہیں ملک غذائی اجناس کے ایک سنگین بحران کی جانب بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے، لیکن وفاقی اور صوبائی حکومتیں ابھی تک اس مسئلے پر کوئی متفقہ پالیسی نہیں بنا سکیں۔

اقوام متحدہ کے خوراک و زراعت کے ادارے کے ایک محقق ژینس لائرکے کے مطابق ٹڈیوں کا ایک چھوٹا گروپ 35 ہزار انسانوں کی خوراک ایک دن میں چٹ کر جاتا ہے۔

کسان رہنما عامر حیات بھنڈارا کا کہنا ہے کہ ٹڈی دل کے حملے صرف کسانوں کی بات نہیں، حکومت کسانوں کے معاملات کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی۔

انہوں نے کہا کہ میں گذشتہ دو سالوں سے گندم پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات پر بات کر رہا ہوں، جس کی وجہ سے ہمیں گذشتہ موسم سرما میں گندم کے بحران کا سامنا کرنا پڑا۔

عامر حیات بھنڈارا کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے ٹڈیوں کے خلاف بروقت اقدامات اٹھا کر اس مسئلے پر قابو نہ پایا تو موسمیاتی تبدیلیوں کے بعد ٹڈیوں کے حملے ہزاروں ایکڑ رقبے پر کاشت کی جانے والی فصلوں، جیسے کپاس، مکئی، گنے، چارہ کے لیے خطرناک ثابت ہوں گے۔ جس سے آنے والے برسوں میں ملک میں معاشی تباہی اور غذائی اجناس کا سنگین بحران پیدا ہو سکتا ہے۔

خیال رہے کہ گذشتہ سال بھی ٹڈی دل نے ملک بھر میں فصلوں کو شدید نقصان پہنچایا تھا اور بڑی تعداد میں کسانوں کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

واضح رہے کہ پاکستان کا ماحول ٹڈیوں کی افزائش نسل کے لیے سازگار ہے۔ ایک مادہ ٹڈی ریت میں انڈے دیتی ہے۔ ماہرین کے مطابق ٹڈیاں اڑنے والے کیڑوں میں سب سے تیز رفتار ہوتی ہیں جبکہ یہ روزانہ ایک سو سے دو سو کلومیٹر تک کا سفر کر سکتی ہیں۔

دوسری جانب ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل نے کہا ہے کہ ٹڈی دل کے خلاف آپریشن پہلے سے ہی جاری ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ٹڈی دل کے حملے ایک سنجیدہ مسئلہ ہے اسے سیاسی رنگ نہیں دینا چاہیے، میں تمام مذہبی، سیاسی اور سماجی قیادت سے اپیل کرتا ہوں کہ پوائنٹ سکورنگ کے بجائے ایک ساتھ مل کر ٹڈی دل کے خاتمے پر غور کریں۔

انہوں نے بتایا کہ حالیہ ٹڈی دل کا حملہ جھنڈ کی شکل میں نہیں تھا بلکہ گروہوں کی شکل میں تھا، جو مقامی طور پر پیدا ہوئے۔ بلوچستان کے علاقوں میں جنوری اور فروری کے دوران شدید سردی اور برف باری کی وجہ سے ٹڈی دل واپس افریقہ اور ایران نہیں جاسکے اور پاکستان میں ٹھہر کر انہوں نے افزائش نسل کی۔ چنانچہ جنوبی پنجاب میں موجود ٹڈی دل مقامی ہے لیکن یہ دوسرے صوبوں میں بھی موجود ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ این ڈی ایم اے اور پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی صوبائی ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹیز کی 15 سو ٹیموں کی مدد سے 2 ہفتے قبل آپریشن شروع کیا جاچکا ہے۔ یہ ٹیمیں 15 دنوں سے ایک رات بھی نہیں سوئیں کیوں کہ ٹڈی دل کے خلاف آپریشن زیادہ تر رات میں اور سورج نکلنے سے پہلے کیا جاتا ہے۔

چیئرمین این ڈی ایم اے نے بتایا کہ ٹڈی دل کو ختم کرنے کے لیے درکار تمام اشیا مکمل ہیں کیوں کہ چینی حکومت نے پاکستان کو 3 لاکھ 75 ہزار کیڑے مار ادویات بطور تحفہ ارسال کی اور جاپان سے 50 ہزار لیٹر کا تحفہ آئندہ ہفتے پہنچ جائے گی۔ اس کے علاوہ این ڈی ایم نے ایک لاکھ 75 ہزار اور ایک لاکھ لیٹر کیڑے مار ادویات خریدی بھی ہیں جبکہ پاک فوج کے 5 ہیلی کاپٹر سمیت 9 ایئر کرافٹ اسپرے کے لیے دستیاب ہیں۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ٹڈی دل کے حملوں کا شکار اضلاع میں بلوچستان کے 11، خیبرپختونخوا کے 14، سندھ کے 8 اور پنجاب کے 13 اضلاع شامل ہیں جس میں سے 2 لاکھ 18 ہزار 315 کلومیٹر کا سروے کیا جاچکا ہے جبکہ ایک لاکھ 61 ہزار 724 کلومیٹر کا سروے ہونا باقی ہے۔