Get Alerts

ٹڈی دل حملے سے قحط سالی کا خدشہ : مسئلے کا دیر پا حل کیا ہے؟

ٹڈی دل حملے سے قحط سالی کا خدشہ : مسئلے کا دیر پا حل کیا ہے؟
رواں برس کے آغاز سے کووڈ 19 کے ساتھ ایک اور سنگین مسئلے نے بھی انسانی آبادی کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ پاکستان سمیت مختلف ایشیائی اور افریقی ممالک میں ٹڈی دل کے حملے ہزاروں ایکڑ رقبے پر کھڑی فصلیں تباہ کرچکے ہیں۔ جہاں کسانوں کی محنت ضائع ہوئی وہاں فوڈ سیکورٹی پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ اگر ٹڈی دل کی آبادی کنٹرول نہ ہوئی تو خوراک کی قلت کے خدشات حقیقت میں بدل سکتے ہیں۔ آج ہم اس مسئلے کی بنیادی وجوہات اور دیرپاء حل جاننے کی کوشش کریں گے۔
پہلا سوال کہ آخر اتنی بڑی تعداد میں ٹڈی دل کیسے پیداء ہوئے؟
ٹڈی دل ایک صحرائی کیڑا ہے جو گروپ کی شکل میں رہتا ہے۔ ایک مادہ ٹڈی 150 سے زائد انڈے دے سکتی ہے۔ تاہم ان میں سے بیشتر انڈے سخت موسمی حالات کی وجہ سے ناکارہ ہوجاتے ہیں اور کچھ چھوٹے لاروے اور بچے شکاری جانوروں کی خوراک بن جانے سے ان کی آبادی کنٹرول میں رہتی ہے۔ لیکن سال 2018 میں کچھ ایسے موسمی حالات پیداء ہوگئے جن سے ٹڈی دل کی آبادی میں کئی گنا اضافہ دیکھا گیا اور انہوں نے صحراؤں سے نکل کر دور دراز علاقوں کی فصلوں کو اپنی خوراک بنانا شروع کردیا۔ اس سال جزیرہ نما عرب میں 2 سائیکلون (سمندری طوفان) آنے کے نتیجے میں معمول سے کہیں زیادہ بارشیں ریکارڈ ہوئیں۔ طویل عرصے تک چلنے والے مرطوب موسم نے ٹڈیوں کی افزائش کیلئے سازگار ماحول فراہم کیا۔ اس سال عمان، صومالیہ اور یمن میں ٹڈی دل کے حملے شروع ہوئے جو رفتہ رفتہ سعودی عرب اور ایران تک پھیل گئے۔ 2019 میں پاکستان بھی ٹڈی دل کے حملوں کی زد میں آگیا جب بے موسمی بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب نے ٹڈیوں کی بے تحاشہ افزائش کیلئے بہترین ماحول بنا دیا۔ عالمی موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی آلودگی ٹڈی دل حملوں کی بنیادی وجوہات قرار دی جاتی ہیں۔ موجودہ سال 2020 میں بھی ٹڈیوں کی یلغار قیمتی فصلیں تباہ کرچکی ہے اور تاحال اس سے نمٹنے کیلئے کوئی مؤثر حل نہیں نکالا جاسکا۔
ٹڈی دل کو تلف کرنے کیلئے کیا کوششیں ہورہی ہیں؟
جب ٹڈیوں کی تلف کرنے کی بات کی جائے تو ایک عام فہم انسان کے ذہن میں سب سے پہلے کیڑے مار زہر کا خیال آتا ہے۔ لیکن ایک تو ٹڈی پر کم شدت والا زہر بے اثر ہے اور دوسرا وسیع رقبے پر سپرے کیلئے سینکڑوں لیٹرز خطرناک زہر چاہیئے ہوگا۔ اتنے زیادہ سپرے سے نہ صرف ماحول دوست جانور مر جاتے ہیں بلکہ یہ زہر ماحول اور انسانی جان کیلئے بھی انتہائی مہلک ہے۔ اب تک ٹڈی دل تلف کرنے کیلئے کئے جانے والے زہریلے سپرے سے کئی افراد شدید بیمار ہوچکے ہیں جبکہ بعض اموات بھی رپورٹ ہوئی ہیں۔ اسی سال رحیم یارخان میں فضائی سپرے کرنے والا طیارہ کریش ہونے سے 2 پائلٹ بھی ہلاک ہوگئے تھے۔ ماہرین ماحولیات کہتے ہیں کہ زہر کی مدد سے ٹڈی دل تلف کرنے میں تو جزوی کامیابی ملتی ہے لیکن اس سے ماحول کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ دریاء، نہر اور زیر زمین پانی زہر آلود ہوجاتا ہے اور ماحول دوست شکاری حشرات کی تعداد خطرناک حد تک کم ہوجانے سے کچھ عرصے بعد فصلیں تباہ کرنے والے کیڑے مکوڑوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہوسکتا ہے۔
حکومت کی جانب سے ٹڈیوں کو مرغی کی خوراک بنانے کا مشورہ بھی دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ حال ہی میں پڑوسی ملک چین سے 1 لاکھ بطخیں درآمد کرنے کا منصوبہ زیر غور لایا گیا ہے۔ یہ چینی بطخیں مقامی بطخ کے مقابلے 3 گنا زیادہ خوراک ہضم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور ٹڈی دل ان کا پسندیدہ کھانا ہے۔ تاہم یہاں ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ غیر مقامی پرندے ہمارے اپنے ملک کے پرندوں اور جانوروں کیلئے خطرہ بن سکتے ہیں۔ جیسا کہ باہر سے منگوایا گیا جنگلی شہتوت اسلام آباد کی زمین پر قابض ہوچکا ہے۔ یہ درخت ہر سال شدید پولن الرجی کا باعث بنتا ہے جس سے دمے اور الرجی کے سینکڑوں مریضوں کی جان خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ جنگلی شہتوت سے ہونے والی پولن الرجی سے کئی اموات بھی ہوچکی ہیں۔ دوسری طرف کچرے کی بھرمار سے کوے اور چیل کی آبادی میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے مگر طوطے اور فاختہ جیسے پرندے تیزی سے غائب ہوتے جارہے ہیں۔
کیا اس مسئلے کا کوئی مستقل اور محفوظ حل ہے؟
مستقبل میں ٹڈی دل حملوں پر قابو پانے کیلئے ہمیں اس کی بنیادی وجوہات کا تدارک کرکے دیرپاء حل کیلئے مؤثر اقدامات کرنا ہوں گے۔ یہ کیڑے موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پرورش پارہے ہیں جو کہ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے رونما ہوتی ہے۔ درختوں کی بے دریغ کٹائی ماحول کی تباہی کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔ جنگلات کے تحفظ اور شجرکاری کو فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ جنگلی حیات کا تحفظ بھی نہایت ضروری ہے تاکہ ماحول میں قدرتی توازن برقرار رکھا جاسکے۔
ایک عام شہری کو انفرادی حیثیت میں کیا کرنا چاہیئے؟
٭ پاکستان کی آبادی تقریباً 21 کروڑ افراد پر مشتمل ہے۔ اگر اسے 5 افراد فی خاندان کے حساب سے تقسیم کیا جائے تو یہ 4.2 کروڑ خاندان بنتے ہیں۔ اس طرح اگر ایک خاندان صرف ایک پودا بھی لگا دے تو سوا چار کروڑ پودے لگائے جاسکتے ہیں۔ اور یہ کام شجرکاری کے قومی دن پر صرف ایک روز میں سرانجام دینا ممکن ہے۔
٭ اپنے گھر، دفتر یا سکول وغیرہ میں ہمیشہ مقامی پودے لگائیں۔ یہ نہ صرف سستے اور ماحول دوست ہیں بلکہ آپ کی صحت کیلئے بھی خطرے کا باعث نہیں بنتے۔ باہر سے منگوائے گئے غیر مقامی پودے مہنگے اور خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔
٭ اپنے بچوں کو پودوں سے پیار کرنا سکھائیں۔ انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کریں کہ پودوں کو نقصان پہنچانا ہمارے ماحول کو تباہ کرسکتا ہے۔ جنگلات اور پودوں سے ہماری خوراک پیدا ہوتی ہے جس کے بغیر ہم زندہ نہیں رہ سکتے۔
٭ ہر خاندان کو ایک درخت کی کفالت کرنے کا ذمہ اٹھانا چاہیئے۔ اپنے پڑوس میں کم از کم ایک درخت ضرور لگائیں اور اس کی دیکھ بھال کو روزمرہ کا معمول بنا لیں۔
٭ اپنے گلی محلے یا گاؤں میں جنگلات کی حفاظت کیلئے ایک کمیونٹی بنائیں جو ٹمبر مافیا کی سرگرمیوں پر نظر رکھے اور ان کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بروقت اطلاع دے۔
٭ سکول، کالج، یونیورسٹی، بینک، دفاتر، نجی و سرکاری اداروں اور تمام مذہبی تنظیموں کو بھی ماحولیاتی آگاہی اور شجرکاری مہم میں بھرپور حصہ لینا چاہیئے۔
٭ زندگی کے خاص مواقع پر ایک درخت لگانے کی روایت کو فروغ دیں۔ سالگرہ، امتحان میں کامیابی اور شادی وغیرہ کے موقع پر درخت ضرور لگائیں۔ کچھ عرصے بعد اس درخت کو بڑھتے ہوئے دیکھ کر ماضی کی خوشگوار یاد تازہ ہوجائے گی۔

شاہدہ کوثر فاروق سماجی تنظیم صبح نو کی چیئرپرسن ہیں جو 1990 کی دہائی سے ماحولیات کے تحفظ اور عوامی مسائل کے حل کیلئے سرگرم ہے۔ مصنفہ مختلف فورمز پر ماحولیاتی آلودگی اور سماجی ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرتی ہیں۔ ان کی کاوشوں سے اسلام آباد اور کراچی میں اب تک ہزاروں ماحول دوست پودے لگائے جاچکے ہیں۔