چیف صاحب! کرونا کو سنجیدہ لینا ہو گا

چیف صاحب! کرونا کو سنجیدہ لینا ہو گا
حال ہی میں عدالت عظمی کے معزز چیف صاحب کا کرونا وائرس اور شاپنگ مالز کے متعلق بیان دیکھا تو بہت حیرت کا شکار ہوا۔ سب سے پہلے تو مجھے اس بات پر حیرانی ہوئی کہ معزز چیف صاحب نے شاپنگ مالز کھولنے کے متعلق جو ازخود ایکشن لیا ہے وہ تو عدلیہ سے زیادہ انتظامیہ کا فیصلہ بنتا تھا۔ میرے ناقص علم کے مطابق دنیا کے کسی اور ملک میں ان دنوں میں کسی عدالت نے وائرس کے مسئلہ پر وائرس کو کنٹرول کرتی انتظامیہ کے معاملہ میں مداخلت نہیں کی۔ اور مزید جان کی امان پاؤں تو عرض کرتا ہوں کہ اس مداخلت سے جہاں چیف صاحب کے وائرس کے بارے ریمارکس اور علم جگ ہنسائی کا باعث بنے وہاں پاکستانی عوام کی اکثریت نے بھی ان ریمارکس کو سنجیدہ لے کر وبا کو غیر سنجیدہ لینا شروع کر دیا ہے۔

معزز چیف صاحب نے جب سماعت کے دوران یہ فرمایا کہ ملک بھر میں شاپنگ مالز بشمول وہ دوکانیں بھی کھول دی جائیں جو کہ سندھ حکومت نے ایس او پیز کی خلاف ورزی کرنے پر بند کی تھیں، کیوں کہ کرونا جیسی بیماری سے کیا ڈرنا جو کہ نظر ہی نہیں آتی۔ اور مزید فرمایا کہ دوسری کئی بیماریاں ہیں جن پر حکومت کو زیادہ توجہ اور فنڈز دینے کی ضرورت ہے کیوں کہ ان کی شرح اموات یا خطرے کا لیول کرونا سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ چیف صاحب لوگوں کے عید کی خریداری اور نئے کپڑوں کے بارے میں بھی کافی پریشان نظر آئے۔

یہ سارا بیان دیکھ کر میں تو سکتہ کی کیفیت میں آگیا کہ واقعی چیف صاحب نے سنجیدگی سے یہ ریمارکس دیے ہیں یا وہ حالت مذاق میں تھے۔ سب سے پہلے تو جیسا میں اوپر بیان کر چکا ہوں کہ یہ معاملہ عدلیہ کی مداخلت سے زیادہ انتظامی نوعیت کا تھا اور اگر انتظامیہ یا کوئی متاثرہ فریق عدالت سے رجوع کرتا تو پھر عدالت اس پر مداخلت کرتی۔

اس کے بعد جناب جو بھی بیماریاں ہوتی ہیں وہ نظر نہیں آتیں بلکہ ان کی علامات نظر آتی ہیں اور جو بھی کرونا کا شکار ہوئے ہیں ان سے پوچھ لیا جائے تو وہ پوری تفصیل سے علامات بتا دیں گے۔ اگر ایک انتظامی معاملے میں ایکشن لے ہی چکے تھے تو پھر وبا سے متعلقہ ڈاکٹروں اور سائنسدانوں کو بلا کر ان کا مؤقف لے کر پھر ریمارکس دینے چاہیے تھے۔

اس کے بعد سننے میں آیا کہ اگلے دن چیف صاحب نے کم از کم کرونا کو وبا تسلیم کر لیا تھا مگر ہم ان لوگوں کا کیا کریں اب جو لگتا ہے چیف صاحب کے پہلے دن کے بیانات کو بنیاد بنا کر بازاروں میں امڈ آئے ہیں اور تل دھرنے کی جگہ نہیں مل رہی۔ اب ظاہر ہے ان لوگوں کو بغیر روک ٹوک اور کرونا کو مذاق کا نشانہ بناتے ہوئے نئے کپڑوں کی خریداری کی اجازت دی ہے تو ان میں سے اکثر لوگ بغیر ماسک کے بازاروں میں امڈ آئے ہیں۔

ایک نجی رپورٹر نے کچھ لوگوں سے کرونا کے بارے میں پوچھا تو ان کی اکثریت کا کہنا تھا کہ کرونا کچھ نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو خود ہی اتنا ہجوم دیکھ کر بھاگ جائے گا۔ یہ تو حال ہے ہماری مجموعی سنجیدگی کا۔ بازار اور مالز کھلنے کے بعد ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ اموات اور نئے کیسز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور ابھی یہ تو وہ لوگ ہیں جن کا پتا چل رہا ہے، جب کہ بیشتر ایسے ہیں جو بیمار ہونے کے بعد گھروں پر ہی ہیں یا وہ احتیاط نہیں کر رہے اور حکومت کے پاس بھی ان کا کوئی ریکارڈ نہیں جاتا۔

آخر میں اتنی گزارش ہی کرنا چاہوں گا کہ جناب چیف صاحب جس کا کام ہو اسی کو اچھا لگتا ہے۔ آپ منصف اعلی ہیں اور قانون پر آپ کی گرفت ہو گی مگر طب سے متعلقہ معاملات ڈاکٹر اور متعلقہ شعبہ کے سائنسدان ہی بہتر جانتے ہیں اور وہی بتا سکتے ہیں۔ اسی طرح انتظامی معاملات کو انتظامیہ ہی بہتر جانتی ہے اللہ کرے کے ملک میں سب کچھ قابو میں رہے اور لوگ بھی احتیاط کا مظاہرہ کریں کیوں کہ جان بچ گئی اور مدافعتی نظام ٹھیک سے کام کرتا رہا تو ہی زندگی کی رونقیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ احتیاط اور دعا ہی واحد علاج ہے۔ اگر وبا قابو سے باہر ہو کر خدانخواستہ پھیل گئی اور دیہی علاقوں تک بھی پہنچ گئی تو پھر سنبھلنا بہت مشکل ہو گا۔

احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔