سابق وزیر اعظم عمران خان صاحب ایک تو پروں پر پانی نہیں پڑنے دیتے۔ نرگسیت کا یہ عالم ہے کہ گذشتہ دو، تین پریس کانفرنسز تو ایسی بھی ہوئی ہیں جن میں یا تو کوئی صحافی موجود ہی نہ تھا کہ سوال کر سکے یا پھر صرف ARY کا ایک رپورٹر بٹھا رکھا تھا جو کہ ایک طرح سے پارٹی پالیسی کا پابند رہ کر ہی سوال کر سکتا ہے۔ اب انہوں نے 25 مئی کو لانگ مارچ کا اعلان کرنا تھا تو پالیسی میں ذرا تبدیلی آئی کہ صحافی بھی آ جائیں۔ خان صاحب خود اتنے جارحانہ انداز میں جواب دیتے کہ ٹیڑھے سوال کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ صحافی یہی سوچتے رہتے کہ کہیں میرے خلاف ہی غداری کا فتویٰ نہ آ جائے۔ خیر، اللہ اللہ کر کے مارچ ہوا۔ وزیر داخلہ رانا ثنااللہ پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ خونی انقلاب کی باتیں کرنے کے بعد ان کو دارالحکومت پر دھاوے کی اجازت نہیں دی جا سکتی جب تک کہ یہ پچھلے دعووں کے لئے معافی نہیں مانگ لیتے۔ وہی ہوا۔ حکومت نے پکڑ دھکڑ بھی کی، پولیس کو بھی متحرک کیا۔ مارچ والے دن صبح سے ہی آنسو گیس کی شیلنگ، پولیس کے لاٹھی چارج، گرفتاریوں اور کنٹینروں کے ذریعے راستے روکنے کا سلسلہ شروع تھا۔ سپریم کورٹ کا بنچ ایک روز قبل ہی بنا دیا گیا تھا۔ یہ صبح اٹھتے ہی عدالت آ کر بیٹھ گیا۔ سارا دن اس بنچ کی کارروائی بھی جاری رہی۔ حکومت خود ہی مظاہرین کو بلوائی قرار دے کر ان پر تشدد کا استعمال کرتی رہی۔ سپریم کورٹ نے بالآخر یہ فیصلہ دے دیا کہ مظاہرین کو آنے دیا جائے لیکن ساتھ ہی ان کے لئے ایک جگہ مختص کرنے کا فیصلہ بھی دے دیا۔ بلکہ جگہ بھی خود ہی مختص کر دی۔
عمران خان صاحب آئے، اس جگہ سے آگے آ کر ڈی چوک میں پہنچ گئے۔ دوسری طرف حکومت نے بھی شیلنگ کا استعمال مسلسل جاری رکھا۔ سپریم کورٹ کے احکامات یوں ہوا میں اڑتے پھر رہے تھے گویا ان کی کوئی وقعت ہی نہ ہو۔ جب عدالتیں سیاسی معاملات میں پارٹی بنتی ہیں تو ان کے فیصلوں کے ساتھ ایسے ہی ہوتا ہے۔ خیر، عمران خان آئے تو ڈی چوک لیکن پھر انہیں دو وجوہات کی بنا پر فوراً ہی واپس بھی جانا پڑا۔ ایک تو سپریم کورٹ کی جانب سے مختص کی ہوئی جگہ سے آگے آ کر وہ توہینِ عدالت کے مرتکب ہو رہے تھے۔ دوسرے جتنی بری طرح ان کے کارکنان پولیس، آنسو گیس، گرمی کی شدت اور کنٹینرز ہٹانے کی جدوجہد میں تھک چکے تھے، ان کے پاس اب دھرنا دینے کی قوت باقی بچی نہیں تھی۔ خان صاحب نے واپسی کی راہ لی۔ بس اتنا اعلان کیا کہ چھ دن بعد پھر آؤں گا۔ کارکنان بڑے مایوس ہوئے۔ پارٹی لیڈر کے فیصلے پر تنقید بھی کی۔ خان صاحب نے ضروری سمجھا کہ ایک پریس کانفرنس کر کے اپنا نقطۂ نظر رکھیں اور ورکرز کو اعتماد میں لیں۔
سوچ تو درست تھی لیکن یہ سمجھ نہیں آئی کہ وہ بغیر سوالات یا صرف ARY کے رپورٹر والا فارمیٹ کہاں گیا؟ اسے واپس کیوں متعارف نہیں کروایا گیا؟ صحافی سوال کریں گے اور ان کی پہلے سے سکریننگ بھی نہیں ہوگی تو بیانیہ بنانے میں مسائل تو ہوں گے۔ یہاں بھی ایک صحافی ٹکر گیا۔ پوچھ بیٹھا کہ پچھلے الیکشن میں تو آپ نے گورنر ہاؤس اور صدارتی محل کی دیواریں گرا کر انہیں یونیورسٹیاں بنانے کے خوشنما اعلان کیے تھے، چار سال میں ہم نے تو وہ ہوتا دیکھا نہیں، اب کیا نعرہ لے کر عوام میں جائیں گے؟ دوسرا سوال اس نے یہ داغا کہ سوشل میڈیا پر آپ کے حامی سارا دن جنرلز اور ججز کو گندی گالیوں سے نوازتے ہیں، ان کو کیوں نہیں منع کرتے، ان کی تربیت تو کریں کچھ۔ بس۔۔۔ خان سیب کا تو میٹر گھوم گیا۔ ذرا یہ مڈبھیڑ تو دیکھیں، کہ اندر ہوا کیا:
https://twitter.com/mudsays/status/1530186098395123716
اب ایسے سوال کریں گے تو خان صاحب کو غصہ تو آئے گا نا۔ اٹھ کر ہی جاتے۔ آئندہ امید ہے کہ اس قسم کی غلطی نہیں دہرائی جائے گی۔ سوال اول تو ہوں گے ہی نہیں۔ ہیروز سے سوالات نہیں ہوتے۔ اور اگر ہوئے بھی تو ARY کے صحافی کریں گے اور وہ بھی پہلے سوال خوشخط لکھ کر لائیں گے، چیک کروائیں گے، اس میں ضروری قطع و برید کی جائے گی اور اس کے بعد صرف پرچی سے دیکھ کر سوال پڑھا جائے گا۔ عمران خان کو پرچی والے مخالفین پسند نہیں۔ حامی تو انہیں اچھے ہی نہیں لگتے اگر طے شدہ لائن سے ذرا بھی اِدھر اُدھر ہوں۔ اسی لئے تو ان کے سپورٹرز کو پڑھا لکھا کہا جاتا ہے۔ یہ بس وہی بات کرتے ہیں جو پٹی انہیں پڑھا دی جائے۔