آڈیو لیکس تحقیقاتی کمیشن کی تشکیل کیخلاف عمران خان سمیت دیگر کی درخواستوں پر حکم جاری کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس تحقیقاتی کمیشن کو مزید کام سے روک دیا۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے دوران سماعت فیصلہ سنا دیا۔ بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس حسن اظہر رضوی شامل تھے۔
مبینہ آڈیو لیکس کی انکوائری کیلئے قائم جوڈیشل کمیشن کے خلاف 4 درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔ وفاقی حکومت نے مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں کمیشن تشکیل دیا تھا۔
انکوائری کمیشن کے خلاف عمران خان، صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری، ریاض حنیف راہی اور مقتدر شبیر نے درخواستیں دائر کی تھیں۔ درخواستوں میں مبینہ آڈیو تحقیقاتی کمیشن کی تشکیل کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔
سپریم کورٹ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے آڈیو لیکس کمیشن کی تحقیقات کے لیے تشکیل دیے گئے کمیشن کا نوٹیفکیشن معطل کرتے ہوئے 31 مئی کو اگلی سماعت کے لیے اٹارنی جنرل سمیت دیگر فریقین کو نوٹسز جاری کردیے تھے۔
جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے خلاف درخواستوں پرمختصر حکمنامہ جاری کر دیا گیا۔تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ چیف جسٹس کی مرضی کے بغیر سپریم کورٹ کے کسی جج کو کمیشن کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا۔جسٹس قاضی فائز سمیت جوڈیشل کمیشن میں شامل دیگر دو ممبران پر بھی ایک ہی اصول لاگو ہوگا۔ جوڈیشل کمیشن میں شامل دیگر دو ممبران ہائیکورٹس کے چیف جسٹسز ہیں۔ حکم نامے میں کہا گیا کہ ہائیکورٹس کے چیف جسٹسز کی کسی کمیشن میں شمولیت بھی چیف جسٹس پاکستان سے مشروط ہے۔ حکومت کی جانب سے قائم جوڈیشل کمیشن کی تشکیل مشکوک ہے۔
دوسری جانب وفاقی حکومت کی جانب سے عدلیہ اور ججوں سے متعلق مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی انکوائری کمیشن کا دوسرا اجلاس ہوا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ اور بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹسز عامر فاروق اور نعیم افغان کمیشن کا حصہ ہیں۔
اجلاس کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب میرا خیال ہے کہ کوئی عدالتی حکم آیا ہے۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے کمیشن کو کام سے روکنے سے متعلق سپریم کورٹ کے حکمنامے کی کاپی طلب کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ کے پاس عدالتی حکم کی کاپی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کمیشن کو سپریم کورٹ کے حکم کی کاپی فراہم کی اور گزشتہ روز کا عدالتی حکم پڑھ کر سنایا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ انکوائری کمیشن کو سماعت سے قبل نوٹس ہی نہیں تھا تو کام سے کیسے روک دیا۔ سپریم کورٹ رولز کے مطابق فریقین کو سن کر اس کے بعد کوئی حکم جاری کیا جاتا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ قواعد کے مطابق فریقین کو پیشگی نوٹسز جاری کرنا ہوتے ہیں۔ کمیشن کو کسی بھی درخواستگزار نے نوٹس نہیں بھیجا۔ سپریم کورٹ کے رولز پر عملدرآمد لازم ہے۔
اس موقع پر کارروائی روکتے ہوئے سربراہ آڈیو لیکس کمیشن نے کہا کہ ہم مزید آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ہم کمیشن کی مزید کارروائی نہیں کررہے۔ گواہان سے معزرت خواہ ہوں ہم کارروائی آگے نہیں چلا سکتے۔ اٹارنی جنرل صاحب ہم معذرت خواہ ہیں۔ سپریم کورٹ کورٹ کا جوڈیشل آرڈر ہے اس لئے مزید کام جاری نہیں رکھ سکتے۔