Get Alerts

آئندہ بجٹ اور محصولات

آئندہ بجٹ اور محصولات
آنے والے بجٹ کے لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے ایسی تمام تجاویز کو اہمیت دینے کا فیصلہ کیا ہے جن سے محصولات میں اضافہ ممکن ہو۔ اس سلسلے میں اگرچہ پہلے بھی بہت کچھ لکھا جاچکا ہے، مگر چندضروری گزارشات مقرر پیش کی جارہی ہیں۔ ایف بی آر اس بات کا گلہ نہیں کرسکتا کہ محصولات میں اضافے کے لیے قابلِ عمل تجاویز کی کمی ہے۔ ہاں اسے سوچنا چاہیے کہ ان پر عمل درآمد کے لیے کس چیز کی کمی ہے یا کون سی چیز مانع ہے۔

کاروباری حضرات کا دعویٰ کہ وہ واجب ٹیکسز ادا کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کے راستے میں اصل رکاوٹ خود ایف بی آر ہے کیونکہ یہ اُنہیں اپنے رویے سے خائف رکھتا ہے۔ اگر وہ ایف بی آر کی طرف سے روارکھے جانے والے جابرانہ رویے کی شکایت لے کر جائیں تو اس کے پاس تیز رفتار تلافی کاکوئی نظام نہیں ہوتا۔ وہ سیلز ٹیکس کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس شعبے میں بددیانت تاجروں، ٹیکس چوروں اور بدعنوان ٹیکس افسران کا مافیا فعال ہے۔ اس کی وجہ سے  اٹھارہ فیصد سیلز ٹیکس کی بجائے صرف5.7 فیصد سیلز ٹیکس وصول ہورہا ہے۔

موجودہ ٹیکس قانون مطلوبہ محصولات اکٹھا کرنے میں ناکام ثابت ہورہا ہے لیکن اس نظام کی سخت گیری کی وجہ سے کروڑوں افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ ستم یہ ہے کہ جو قانون دولت مند تاجروں سے رقم نہیں نکلوا سکتا ، اس کی وجہ سے عام شہری رگڑے جاتے ہیں۔ سیلز ٹیکس اور اس جیسے دیگر ٹیکسز کا بوجھ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کی وجہ سے آخر کار حتمی صارف پر منتقل ہوجاتا ہے۔ اس سے دولت مند طبقے کو فائدہ پہنچتا ہے۔ چونکہ صارف اس ملک کا عام شہری ہے، اس لیے یہ نظام اس کی جیب کاٹ کر سرمایہ داروں کی جیب مزید بھاری کردیتا ہے۔

آنے والے بجٹ میں حکومت کے لیے ضروری ہے وہ دس فیصد سیلز ٹیکس متعارف کرائے اور اس کا اطلاق سب پر ہو۔ اس کی وجہ سے موجودہ سیلز ٹیکس سے تین گنا زیادہ محصولات اکٹھے ہوجائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر قسم کے مستثنیات کومنسوخ کرکے سختی سے انکم ٹیکس وصول کیا جائے۔ اس دوران صوبے بھی دس  فیصد کے فکس ریٹ پر زرعی ٹیکس اور خدمات پرٹیکس وصول کریں۔ ملک کو برائی اور جرائم کی طرح نقصان پہنچانے والے ایس آر او کلچر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جائے۔ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے سیکشن 111(4) اور اس طرح کی دیگر ٹیکس مراعات کو منسوخ کرتے ہوئے حکومت سخت قوانین بنائے اور ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کے اثاثہ جات ضبط کرنا شروع کردے۔

سمجھیں یہ بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ایک اہم مرحلہ ہے۔ یاد رکھیں دنیا بھر میں انکم ٹیکس سختی سے ہی وصول کیا جاتا ہے، چنانچہ یہاں بھی اس سلسلے میں کسی نرمی اور لچک کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔ یہ بات بارہا کہی جاچکی کہ اگر ریاست شہریوں سے محصولات حاصل نہ کرسکے تو اس کے وجود پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ ضروری ہے کہ وہ تمام اثاثے، جن پر ٹیکس ادا نہیں کیا گیا اور جو بیرون ممالک میں چھپائے گئے ہیں، اُن پر ٹیکس وصول کیا جائے اور اگر ان کا مالک ایسا نہ کرے تو ان اثاثوں کو ضبط کرنے کے اقدامات کیے جائیں۔

محتاط اندازہ ہے کہ ہم اپنے وفاقی ٹیکس کے حجم کو سولہ ٹریلین روپے تک پہنچا سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوجائے تو غیر ملکی قرضوں سے نجات مل جائے گی اور ہم وہ کشکول توڑ دیں گے جو ہمیں بہت بُرا (اچھا؟) لگتا ہے۔ آنے والے برسوں میں ہمارا بنیادی ہدف صنعتی ترقی اور سماجی بہتری ہونی چاہیے تاکہ عوام کو جمہوریت کے ثمرات دکھائی دیں۔ یہ کام ٹیکس کی وصولی کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح آج ہم جس دوراہے پر کھڑے ہیں، اُس میں جمہوریت اور واجب ٹیکسزکی وصولی لازم و ملزوم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم درست طریقے سے ٹیکس وصول کرنے کے لیے ایک مربوط اور بے لچک نظام بنالیتے ہیں تو صنعتی اور معاشی ترقی کی منزل خود بخود حاصل ہوجائے گی۔

مختلف حکومتیں، چاہے وہ فوجی تھیں یا سول،عوام کو غربت کی اذیت سے بچانے میں بری طرح ناکام رہیں۔ پاکستان بطور ایک فلاحی ریاست کے اپنا وجود منوانے میں ناکام رہا۔ ہو سکتا ہے کہ ہم نے کچھ شعبوں میں ترقی کی ہو لیکن عوام کی حالت نہیں بدل سکی۔ اسی طرح ریاست عوام کو جان و مال کا تحفظ فراہم کرنے میں بھی ناکام رہی۔ تعلیم، صحت، رہائش اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات عام آدمی کے لیے ایک خواب کی مانند ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اول توحکومت  استعدادکے مطابق ٹیکس وصول نہیں کرپاتی اور پھر وصول شدہ ٹیکس کا بے جا اسراف دکھائی دیتا ہے۔ عوام کی محنت سے کمائی ہوئی رقم سود، غیر ملکی دوروں (اکثر بلا ضرورت) اور سیکیورٹی معاملات پر خرچ کردی جاتی ہے، اس کے باوجود عوام کو سیکیورٹی میسر نہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتاکہ 1991 سے لے کر اب تک، پاکستان میں فزوں تر غربت اور ٹیکس کی چوری میں براہ ِ راست تعلق رہا ہے۔ اسی وجہ سے دولت مند طبقہ مزید امیر اور غریب طبقہ مزید غریب ہوتے چلے جارہے ہیں۔ یہ طبقاتی فرق بہت سی دیگر خرابیوں کا باعث ہے کیونکہ اس دوران ٹیکس کا بوجھ غریب عوام نے اٹھایا جبکہ حکمرانی اور سہولیات کے مزے اشرافیہ نے لوٹے۔ آج بھی غریب عوام 38 فیصد جبکہ دولت مند صرف 18 فیصد ٹیکس ادا کررہے ہیں۔

درحقیقت براہ ِ راست اور بالواسطہ ٹیکسز کے درمیان عدم توازن کی وجہ سے پاکستان میں غربت، اور اس کے نتیجے میں جرائم اور افراتفری میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہمارے ملک میں خطِ غربت کے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد ساٹھ ملین سے کم نہیں۔ ایف بی آر کا دعویٰ ہے کہ براہ ِراست ٹیکس کا حصہ چالیس فیصد تک بڑھا دیا گیا ہے۔ یہ ایک سفید جھوٹ ہے۔ اگر بالواسط withholding ٹیکسزکو نکال دیا جائے تو براہ ِر است ٹیکسز کا حصہ بمشکل پچیس فیصد ، بلکہ اس سے بھی کم رہ جاتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹیکس کا موجودہ نظام انتہائی جابرانہ ہے۔ چونکہ آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کو ہمارے ٹیکس کے نظام سے کوئی غرض نہیں، اس لیے ہم امیروں سے زیادہ غریبوں پر ٹیکس لگا کرکل حجم دکھادیتے ہیں۔

حکومت کو یہ بات کھلے دل سے تسلیم کرلینی چاہیے کہ ہمارا ٹیکس کا نظام  فرسودہ  اور استحصالی ہے۔ یہ اہداف کو کم کرکے بھی حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ اس لیے آج کی اشد ترین ضرورت اس کو بہتراور فعال کرنے کی ہے۔ درحقیقت ٹیکس نظام کو بہتر بنا کر غربت کو کم کرنا اور دولت مند افراد پر ٹیکس لگانا، نہ کہ اہداف طے کرکے کسی بھی طریقے سے حاصل کرلینا، ہمارا ہدف ہونا چاہیے۔ حکومت کو فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے  کم شرح کاسیلز ٹیکس عائد کردینا چاہیے۔ اس میں دوشرائط رکھی جائیں کہ اس میں کوئی ری فنڈنہیں ہوگا اور دوسری کہ تمام کاروباری حضرات انکم ٹیکس ادا کریں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو اپنے اخراجات کم کرتے ہوئے عوام کی حقیقی فلاح کی طرف توجہ دینا چاہیے۔

مضمون نگار وکالت کے شعبے سے وابستہ ہیں اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ وہ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS) میں ایڈجنکٹ فیکلٹی، ممبر ایڈوائزری بورڈ اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (PIDE) کے سینیئر وزٹنگ فیلو ہیں۔