پولیو کو شکست دینے والے شخص کی ریاست سے اپیل

پولیو کو شکست دینے والے شخص کی ریاست سے اپیل
پچاس کی دہائی کے آخر میں پولیو کا مرض پاکستان کے شہری اور دیہی علاقوں میں پھیلنا شروع ہوا۔ اس موذی مرض کا شکار ہونے اور اس سے زندگی کی بقا کی جنگ لڑنے کے ناطے میں اس مرض کی اذیت، تکلیف اور اس کے نتیجے میں سماجی رویوں کے باعث ملنے والی شرمندگی کو باآسانی سمجھ اور بیان کر سکتا ہوں۔ میں ڈسٹرکٹ میانوالی کی ایک تحصیل عیسیٰ خیل کے دور افتادہ گاؤں کھاگلانوالا میں پیدا ہوا۔ یہ گاؤں دریائے کرم کے کنارے آباد ہے جب کہ اس کے مغرب میں دریائے سندھ بہتا ہے۔

جب میں پولیو کے مرض کا شکار ہوا تو مجھے علاج کیلئے ملٹری ہسپتال بنوں لے جایا گیا۔ میانوالی میں کہیں بھی پولیو کے مرض کا شکار افراد کے علاج کیلئے کوئی ہسپتال موجود نہیں تھا۔ میرے والد کا تعلق چونکہ پاکستان بحریہ سے تھا اس لئے خوش قسمتی سے مجھے فزیوتھراپی، پٹھوں کی گرمائش اور علاج معالجے کی سہولیات دستیاب تھیں، جبکہ غریب افراد کیلئے ہماری ڈسٹرکٹ میں آج بھی اس طرح کی کوئی سہولیات دستیاب نہیں ہیں۔

پولیو کا مرض عمر بھر لاحق رہتا ہے اور اس مرض کے شکار فرد کو پولیو کے مرض کی تکلیف کے ساتھ ساتھ سماجی رویوں سے بھی نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔ سماجی اعتبار سے پولیو یا دیگر معذوریوں کو بہت کم ہی سمجھا جاتا ہے۔

جب پولیو کے مرض کا شکار یا پیدائشی طور پر معذور بچہ سکول میں داخل ہوتا ہے تو سکول میں اس کی تکالیف کا آغاز پہلے دن ہی شروع ہو جاتا ہے۔ جب اسے معذور کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ ایسے طالبعلموں کو ان کے اصل نام سے مخاطب کرنے کے بجائے انہیں لنگڑا"، "ٹنڈا" اور "لولا" کے القابات سے پکارا جاتا ہے۔ انہیں معاشرے میں ذلیل کیا جاتا ہے اور معذوری کے باعث ان سے امتیازی سلوک بھی روا رکھا جاتا ہے۔

اپنے قیام سے لے کر آج تک پاکستانی معاشرہ جسمانی طور پر معذور افراد کے بارے میں حساسیت پر مبنی رویہ تشکیل دینے میں ناکام رہا ہے۔ ریاست مکمل طور پر ان کے حقوق کا تحفظ کرنے میں ناکام ہوتے ہوئے انہیں صحت مند شہری نہیں بنا پائی۔ 1980 میں اس وقت کے فوجی آمر جنرل ضیاالحق نے معذور افراد کیلئے نوکریوں کے مواقع دینے کا آرڈینینس جاری کیا تھا۔ ضیاالحق کی اپنی بیٹی بھی معذور تھی، شاید اس لئے ضیاالحق نے ایسا قدم اٹھایا۔ لیکن حکومت نے جسمانی طور پر معذور افراد کے ملازمتوں کے کوٹے کے قانون کو مکمل طور پر نافذ کرنے کیلئے کسی بھی قسم کے ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے۔

مجھے یاد ہے کہ جامعہ کراچی سے گریجویشن کرنے کے بعد میں نے معذور افراد کے کوٹے کیلئے مختص اسامیوں کو حاصل کرنے کیلئے مختلف اداروں میں درخواستیں دیں۔ میں نے یہ درخواستیں معذور افراد کی ری ہیبیلیٹیشن کی کونسل کے ذریعے دیں جو کہ چاروں صوبوں اور وفاق میں کام کرتی تھی۔ لیکن معذور افراد کو یہ ادارہ ملازمتوں کے مواقع فراہم کرنے کے بجائے مکمل فٹ افراد کیلئے نوکریاں تلاش کرتا تھا۔

مجھے کبھی بھی کسی سرکاری ادارے سے میری ملازمت کی درخواست پر کوئی جواب نہیں ملا، حالانکہ ان کے پاسی کئی اسامیاں خالی تھیں۔ سرکاری اداروں میں یہ رجحان بھی پایا جاتا تھا تھا کہ معذور افراد کے کوٹے کیلئے مختص اسامیوں کو اند ہی اندر یا توتبادلوں کے ذریعے پر کر لیا جاتا تھا یا پھر محکمے کے ایسے افراد کو تعینات کر دیا جاتا تھا جو دوران ملازمت کسی معذوری کا شکار ہو جایا کرتے تھے تاکہ ٹیکس فری گاڑیاں خریدنے اور دیگر مراعات حاصل کرنے کا موقع مل سکے۔

اس کے باعث ایک اصل اور حقدار معذور شخص کی حق تلفی ہو جایا کرتی تھی جو معذور افراد کے لئے مختص نوکریوں کے کوٹے کے معیار پر پورا اترتے تھے۔ آج بھی معذوریوں کا شکار افراد معذور افراد کے کوٹے کی نوکریوں کے حصول کیلئے مارے مارے پھرتے ہیں، کیونکہ مرکز اور صوبوں میں معذور افراد کی مدد کیلئے قائم کی گئی کونسلز بالکل غیر مؤثر اور غیر فعال ہیں۔

پولیو کے مرض کا تذکرہ دوبارہ کرتے ہیں۔ اس مرض کے شکار افراد کو اکثر اپنے والدین کے غصے اور ناراضگی کا نشانہ بننا پڑتا ہے کیونکہ اس مرض کی شدت اور پیچیدگی کے باعث اس کا شکار افراد اپنے والدین پر ایک بوجھ کی مانند تصور کیے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اکثر جسمانی معذوری کے شکار بچوں کو ان کے والدین سکول بھیجنا بھی بند کر دیتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک روایتی تعلیم کا معذور بچوں کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔

ایسے بچوں کو اکثر والدین کسی اور مقام پر درزیوں کا یا اس سے ملتا جلتا کام سیکھنے کیلئے بھیج دیتے ہیں۔ چونکہ ریاست پاکستان ابھی بھی عام افراد کو صحت اور تعلیم کی وہ بنیادی سہولتیں فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائی جو کہ کسی بھی ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے اس لئے اس صورتحال میں جسمانی طور پر معذور افراد کو زیادہ نقصان بھگتنا پڑتا ہے۔

ایسے افراد کو مستقل بنیادوں پر واپس صحت مند زندگی گزارنے کے لئے علاج اور کونسلنگ کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ جوں جوں ان افراد کی عمر بڑھتی ہے، ان کی صحت اور جسم کی حالت پولیو کے مرض کے باعث مزید بگڑتی جاتی ہے۔ نسیں اور پٹھے پولیو کے بعد کے مضر اثرات سے کمزور ہوتے چلے جاتے ہیں اور انہیں ہمہ وقت نگہداشت اور علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ چونکہ اس بیماری کا علاج انتہائی مہنگا ہے اس لئے دیہاتوں کے ساتھ ساتھ اسلام آباد جیسے اہم اور جدید شہر میں بھی اس کے علاج معالجے کے مراکز ناپید ہیں۔

اسلام آباد میں گو پولیو کے علاج کا ایک مرکز موجود ہے لیکن وہاں پر تعینات عملہ محض تنخواہیں اور مراعات بٹورنے کے علاوہ کچھ نہیں کرتا۔ معذور افراد کیلئے ڈیوٹی فری کاروں کی سہولت بھی کسی مذاق سے کم نہیں ہے۔ ان کاروں کو حاصل کرنے کیلئے جس قدر مشکل طریقہ منسٹری آف کامرس نے وضع کیا ہوا ہے اسے پورا کرنا کسی معذور فرد کے بس کی بات نہیں ہے۔

اپنی بات ختم کرنے سے پہلے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ معذور افراد کے حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے۔ اس لئے سرکاری مشینری کو اس قابل بنانا چاہیے کہ سرکار پولیو کے مرض کا شکار اور دیگر معذور افراد کی ضروریات کا خیال رکھ سکے۔ ریاست کی مشینری یا انتظامیہ کو معذور افراد کی مدد کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے۔

اگر ریاست معاشرے میں بسنے والے تمام شہریوں کے حقوق پورے نہیں کر سکتی تو کم از کم اسے معذور شہریوں کیلئے ایک فلاحی ریاست کا کام سرانجام دیتے ہوئے کم سے کم معذور افراد کے حقوق ضرور پورے کرنے چاہئیں۔

مصنف سینئر صحافی ہیں اور ان سے asmatniazi@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔