مشہور باحجاب سُپر ماڈل ''حلیمہ عدن'' ریاض سیزن میں شرکت کریں گی

مشہور باحجاب سُپر ماڈل ''حلیمہ عدن'' ریاض سیزن میں شرکت کریں گی
دنیا کی مشہور ترین باحجاب خاتون سپر ماڈل حلیمہ عدن ''ریاض سیزن'' میں شرکت کے لیے آئندہ ماہ کے آغاز میں سعودی عرب پہنچیں گی۔

ریاض سیزن ایک ثقافتی ایونٹ کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ توقع ہے کہ 11 اکتوبر سے 15 دسمبر تک جاری رہنے والے ریاض سیزن میں 2 کروڑ سے زیادہ افراد آئیں گے۔ ریاض سیزن کے دوران 100 سے زیادہ سرگرمیوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے جن کو 12 مقامات پر تقسیم کیا گیا ہے۔ سیزن کی ایک سرگرمی کا تعلق علاقائی اور عالمی سطح پر فیشن کی دنیا بھی ہے۔ اس سلسلے میں لیکچروں، مباحثوں، ورک شاپس اور نئے رجحانات سے متعلق جان کاری کے سیشنوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔

صومالی نژاد 22 سالہ امریکی ماڈل حلیمہ عدن نے گرم جوشی کے ساتھ اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ ریاض سیزن کے شرکاء سے ملاقات کر کے فیشن سیکٹر کے حوالے سے خیالات کا تبادلہ کرنا چاہتی ہیں۔

حلیمہ عدن کون ہیں؟ 

حلیمہ عدن کینیا کے ایک مہاجر کیمپ میں پیدا ہوئیں، ان کے خاندان کا تعلق صومالیہ سے تھا جو سنہ 1992 میں ملک میں ہونے والی خانہ جنگی کے دوران اس وقت ہجرت پر مجبور ہوا جب فسادات کے دوران ان کا گھر جلا دیا گیا۔

حلیمہ اسی پناہ گزین کیمپ بستی میں پلی بڑھیں جہاں 2 لاکھ کے قریب افراد کیمپوں میں رہائش پذیر تھے۔

حلیمہ کے بچپن میں ہی اس کے والدین کسی طرح امریکا میں داخل ہوگئے اور امریکی ریاست منی سوٹا میں اپنا ٹھکانہ تلاش کرلیا۔ یہاں سے حلیمہ نے اپنی شناخت کا سفر شروع کیا اور سنہ 2016 میں وہ مس منی سوٹا مقابلے کی پہلی امیدوار بنیں جس نے حجاب اور برکنی کے ساتھ تمام ایونٹس میں حصہ لیا۔

بعد ازاں حلیمہ نے ماڈلنگ شروع کردی، ماڈلنگ کے دوران بھی انہوں نے اپنی شناخت یعنی حجاب نہیں چھوڑا اور جلد ہی وہ اپنی منفرد پہچان بنانے میں کامیاب ہوگئیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ جب 2016 میں انہوں نے پہلی بار برکنی کے ساتھ مقابلہ حسن کے لیے ریمپ پر واک کی تو امریکیوں کو تو اعتراض ہوا ہی، لیکن ان کی اپنی افریقی کمیونٹی نے بھی سخت ناراضگی کا اظہار کیا جن کا کہنا تھا کہ مسلمان لڑکیوں کو ماڈلنگ نہیں کرنی چاہیئے۔

لیکن حلیمہ اپنی دھن کی پکی نکلیں، وہ تنقید کو ذرا بھی خاطر میں نہ لائیں اور اپنا سفر جاری رکھا۔ آج وہ دنیا بھر میں مختلف فیشن شوز میں حجاب کے ساتھ ماڈلنگ کرتی ہیں۔

حلیمہ کہتی ہیں کہ انہیں دوہری مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، ایک تو وہ سیاہ فام تھیں، پھر مسلمان بھی تھیں۔ ’لیکن میں اپنی ہم عمر لڑکیوں کے لیے ایک مثال بننا چاہتی تھی کہ وہ کچھ بھی کرسکتی ہیں‘۔

وہ بتاتی ہیں کہ مہاجر کیمپ میں رہتے ہوئے وہ زندگی کی ناپائیداری کو کسی دوسرے انسان کی نسبت زیادہ سمجھ سکتی ہیں، ’آپ سے کبھی بھی کچھ بھی چھن سکتا ہے، آپ کا گھر، آپ کے پیارے یا آپ کی کوئی بھی عزیز شے۔ صرف وہی آپ کے ساتھ رہے گا جو آپ نے سیکھا اور سمجھا‘۔

ماحلیمہ کہتی ہیں کہ کینیا کا یہ مہاجر کیمپ ان کا فخر ہے، کیونکہ آج وہ جو بھی ہیں اسی کیمپ کی وجہ سے ہیں۔

وہ لوگوں کو پیغام دیتی ہیں، ’یہ آپ کی ذمہ داری ہے اور پہلی ترجیح ہونی چاہیئے، کہ آپ اپنا بیسٹ ورژن دنیا کے سامنے پیش کریں‘۔