'بیٹے کو کھونے کے بعد سے میں لعل کے مزار پر نہیں جاتی، وہ یاد آتا ہے'

'بیٹے کو کھونے کے بعد سے میں لعل کے مزار پر نہیں جاتی، وہ یاد آتا ہے'
سہون میں لال شہباز قلندر کے مزار پر ہونے والے بم دھماکے کو پانچ برس بیت گئے ہیں۔ سانحے میں جاں بحق ایاز احمد سولنگی کے ماں باپ تاحال غم سے نڈھال ہیں۔ میاں بیوی بلڈ پریشر اور ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ انہوں نے گھر کے ایک کمرے کی دیوار پر بیٹے کی تصویر آویزاں کر رکھی ہے۔ تصویر دیکھ کر دوںوں آہیں بھرتے ہیں۔ ایاز احمد سولنگی کے والد نے سانحے کے بعد لال شہباز قلندر کے مزار پر جانا ترک کر دیا ہے لیکن ان کی والدہ کبھی کبھار مزار پر دعا کے لئے جاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں ہمت نہیں رہی کہ وہ اس جگہ جائیں جہاں ان کا جواں سال بیٹا بیدردی سے جاں بحق ہوا۔ مزار پر جانے سے بیٹے کی یاد کا درد مزید گہرا ہو جاتا ہے۔ جواں سال بیٹے کی وفات کے بعد انہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ دونوں زندہ درگور ہیں۔ اب مزید جینے کی تمنا بھی نہیں رہی لیکن موت کا ایک دن معین ہے۔ وہ اپنے وقت پر ہوگی۔

چوبیس سالہ ایاز احمد سولنگی کے والدین الھ ڈنو سولنگی اور نذیراں مائی پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ کے شہر سہون کے مکین ہیں۔ ان کے اب دو بیٹے اور چھ بیٹیاں ہیں۔ ایاز سولنگی 16 فروری2017 کو قلندر شہباز کے مزار پر خود کش دھماکے میں جاں بحق ہوئے تھے۔ سہون اسپتال انتظامیہ کے مطابق اس دھماکے میں 79 افراد جاں بحق اور 350 افراد زخمی ہوئے تھے۔ بعد ازاں دھماکے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔ جاں بحق افراد میں ایاز احمد سولنگی سمیت اختیار علی مگنہار، ذیشان لاکھو اور عبدالعلیم پہنورکا تعلق سہون سے تھا جب کہ دو زخمیوں محسن علی مگنہار اور منیر احمد شیخ کا تعلق بھی سہون شہر سے ہی ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی سے 300 کلومیٹر دور سہون شہر سندھ کے شمال مغرب میں دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر واقع ہے۔ اس شہر میں صوفی بزرگ قلندر لعل شہباز کا مزار ہے جسے عرف عام میں قلندر شہباز، لعل شہباز اور لعل بھی کہا جاتا ہے۔ سہون میں اسلامی کیلنڈر کے مطابق 18 شعبان کو ہر سال سرکاری طور پر قلندر شہباز کے عرس کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ عرس کے موقعے پر پنجاب سمیت سندھ اور دیگر صوبوں کے علاقوں سے بھی ان کے عقیدت مند کثیر تعداد میں حاضر ہوتے ہیں۔ سہون کے اکثر مکینوں کا روزگار لعل شہباز کے عرس اور زائرین کی روزانہ آمد کے سے جڑا ہوا ہے۔ دھماکے میں سہون کے جاں بحق اور زخمی مزار پر ہی صفائی کا کام کرتے تھے۔ شہباز قلندر کے حوالے سے لوگوں کا عقیدہ ہے کہ تمام امیدیں اور خواہشیں لعل پر حاضری سے پوری ہو جاتی ہیں۔ لوگ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ لعل سے بے اولاد جوڑے بھی مراد پاتے ہیں۔ مزار پر اذان مغرب کے بعد دھمال ایک معمول ہے جہاں خواتین و حضرات سمیت بچے اور بزرگ بھی دھمال میں شامل ہوتے ہیں۔ جس روز دھماکہ ہوا اس روز بھی دھمال جاری تھی۔ دھمال کے دوران ہی مزار کے اندرونی حصے میں دھماکہ ہوا جس کے نشان آج تک موجود ہیں۔



دھماکے میں جاں بحق ایاز احمد سولنگی کے ماں باپ اپنے بیٹے کے غم کے باعث دونوں میاں بیوی کی طبیعت ناساز رہتی ہے۔ محلے والوں کے اصرار پر کبھی کبھی ایاز کی والدہ مزار پر جاتی ہیں لیکن ان کے والد واقعے کے بعد مزار پر کبھی نہیں گئے۔ ایاز کے والد الھ ڈنو سولنگی کا کہنا ہے کہ انہیں ہمت نہیں رہی کہ وہ اس جگہ جائیں جہاں ان کا جواں سال بیٹا دھماکے میں مارا گیا ہو۔ جواں سال بیٹے کے بچھڑنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم دونوں میاں بیوی زندہ لاش بن کر رہ گئے ہیں۔ اب تو چلنا پھرنا بھی مشکل ہے۔ انہیں دوائی بھی بچے لا کر دیتے ہیں۔ ان کے 24 گھنٹے میں گھر میں ہی گزر جاتے ہے۔ بچوں کا روز گار نہیں ہے۔ ایک بچی پرائیویٹ سکول میں پڑھاتی ہے اور دو بیٹے دکان پر نوکری کرتے ہیں۔ مشکل سے گھر چل رہا ہے۔ سرکاری ملازمت کے وعدے تو بہت کیے گئے لیکن تاحال ملازمت نہیں ملی۔ سہون میں روزگار کے ذرائع نہیں ہیں۔ بس مزار پر کام ہوتا تھا لیکن الھ ڈنو کہتے ہیں کہ ایاز کے بعد بیٹوں کو مزار پر کام کے لئے نھیں بھیج سکتا، ڈر لگتا ہے۔

ایاز کے والدین کہتے ہیں کہ دوسرے بچوں کی شادی اور روزگار کی آس لیے وہ زندہ ہیں۔ ایاز کی والدہ اپنے بیٹے کو یاد کرتے ہوئے سسکیاں بھرنے لگتی ہیں۔ کہتی ہیں بس ان بچوں کے لئے جی رہے ہیں، اب وہ زندہ ہو کر بھی مردہ ہیں۔ جس روز واقعہ ہوا، اسی روز ایاز دو گھنٹے قبل گھر سے مزار پر گئے تھے۔ کیونکہ ایاز دکان پر پرائیویٹ نوکری کے ساتھ شام کو مزار پر بھی کام کیا کرتے تھے جس سے وہ گھر کے اخراجات میں بھی حصہ ڈالتے تھے اور اپنا خرچ بھی چلاتے تھے۔ ان کی والدہ کا کہنا ہے کہ دھماکے سے قبل وہ میرے ساتھ اپنی شادی کے متعلق ہی بات کر رہا تھا۔ انہوں نے لڑکی پسند کر لی تھی۔ وہ کہتے تھے بس ان کی جلد شادی کرائیں۔ میں نے اسے کہا بس لعل کا عرس گزر جائے، پھر آپ کی شادی ہے۔ عرس کے بعد ایاز کی شادی طے کر دی تھی لیکن یہ سب کچھ نہیں ہو سکا اور ایاز ہم سے ہمیشہ کے لئے بچھڑ گیا۔

ایاز کے والد دھماکے کے متعلق بتاتے ہیں کہ اس لمحے وہ اپنے گھر میں موجود تھے۔ زور دار دھماکے کی آواز سنائی دی۔ اتنا زوردار دھماکہ ہوا کہ گھر بھی ہل گئے تھے۔ کہتے ہیں میں گھر سے باہر نکلا تو لوگ گلیوں میں بھاگ رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ لعل کے مزار پر دھماکہ ہوا ہے۔ میرا بیٹا بھی مزار پر تھا۔ میں مزار کی طرف دوڑا لیکن وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔ پولیس نے بتایا کہ جاں بحق اور زخمیوں کو اسپتال پہنچا دیا گیا ہے۔ مجھے اپنے بیٹے کی فکر ہونے لگی۔ پھر اسپتال کی طرف دوڑا۔ اسپتال میں میرے کچھ رشتہ دار موجود تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ایاز زخمی ہوا ہے، آپ گھر چلیں، ہم بھی آ رہے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد ایمبولینس میں ایاز کی لاش گھر پہنچائی گئی۔ آپ اندازہ کریں ایک باپ کی حیثیت سے اس وقت میری کیا حالت ہوگی!



مزار سے دو سو فٹ فاصلے پر مکین گلزارعلی مگنہار کا خاندان مکین ہے۔ وہ لعل قلندر کے مزار پرپشتوں سے دھمال کے لئے ڈھول بجاتے ہیں۔ یہی ان کے گھر کی آمدن کے ذرائع ہیں۔ دھماکے کے وقت گلزار علی کے تین بیٹے مزار پر تھے۔ گلزار بتاتے ہیں کہ وہ اپنے گھر میں موجود تھے، دھمال جاری تھی۔ ایک زوردار آواز سنائی دی۔ "کبھی اس طرح کی آواز نہیں سنی تھی۔ مجھے خوف ہونے لگا کہ کیا ہوا۔ لوگوں کا اندازہ تھا کہ تیل اور گیس نکالنے والی کمپنیز پہاڑوں پر دھماکے کرتی رہتی ہیں۔ یہ اسی دھماکے کی آواز ہوگی۔ لیکن یقین نہیں آیا۔ گھر سے باہر آیا تو لعل شہباز کے مزار کی کھڑکیوں سے شیشے بکھرے ہوئے تھے۔ پھر بڑے دروازے کی طرف دوڑا کیونکہ میرے تین بیٹے مزار کے اندر تھے۔ میں خوف زدہ ہو گیا۔ ان دنوں ملک میں مزاروں پر دھماکے ہو رہے تھے۔ ویسے تو مجھے یقین تھا کہ لعل کے مزار پر دہشت گرد ایسا نہیں کر سکتے لیکن چیزل شاہ اور نورانی کے مزاروں پر دھماکوں کے بعد کبھی کبھار خوف سا محمسوس ہوتا تھا کہ کہیں دہشت گرد لعل پر کوئی ایسی حرکت نہ کر دیں۔ میں نے جیسے مزار کے اندر داخل ہونے کی کوشش کی تو روکا گیا۔ درگاہ کے گدی نشین نے کہا اندر مت جاؤ، دھماکہ ہوا ہے۔ دہشت گرد مزید بھی دھماکے کر سکتے ہیں۔ دہشت گرد ایسا کرتے ہیں جب لوگ جمع ہوتے ہیں تو پھر دوسرا دہشتگ گرد خود کش دھماکہ کر دیتا ہے۔ سب باہر ہی رکیں۔ لیکن باپ تھا، تین بیٹے اندر تھے، کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ میں نے گدی نشین کو زور سے ہٹایا اور مزار کے اندر چلا گیا۔ میرا بیٹا جو جاں بحق ہوا ہے وہ تو دھماکے سے 10 منٹ قبل گھر سے مزار گیا تھا۔ جب اندر داخل ہوا تو لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ اعضا کے ٹکڑے نظر آ رہے تھے۔ ہر طرف خون ہی خون تھا۔ میں حواس باختہ ہو گیا اور سمجھ گیا کہ یہ دہشتگرد ہیں۔ ایک ایک کر کے ہر لاش اور سر کو دیکھا۔ کہیں یہ میرے بیٹے تو نہیں ہیں۔ لیکن ان میں سے میرا کوئی بیٹا نہیں تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ میرا ایک بیٹا اس دنیا میں نہیں رہا۔"

دھماکے میں گلزار کا ایک بیٹا جاں بحق اور ایک بھتیجا زخمی ہوا۔ جب کہ ان کے دو بیٹے محفوظ رہے۔ لیکن کئی ماہ تک ایک بیٹے جاوید علی کو سنائی نہیں دیتا تھا۔ علاج کے بعد اب وہ اس قابل ہے کہ سن سکتا ہے۔ زخمی بھتیجے کا باپ معذور ہے جس کے سبب وہ کمانے کے قابل نہیں ہے۔ "بس لعل کے دروازے پر صبح چار بجے سے 10 بجے تک کھڑے ہو جاتے ہیں۔ زائرین سے بھیک مانگتے ہیں۔ کچھ نہ کچھ زائرین اسے دے ہی جاتے ہیں۔ جس سے گھر چل رہا ہے۔"



حکومت سندھ نے جاں بحق افراد کے ورثا کے لئے پندرہ، پندرہ لاکھ اور شدید زخمیوں کے لئے دس، دس لاکھ روپے اور کم زخمیوں کو پانچ، پانچ لاکھ روپے امداد دینے کا اعلان کیا تھا۔

حکومت سندھ کی جانب سے ایاز احمد سولنگی، ذیشان لاکھو، اختیار علی مگنہار اور عبد العلیم پہنور کے ورثا کو پندرہ، پندرہ لاکھ روپے دیے گئے۔ گلزار علی نے اسی رقم سے دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کی شادی کرائی جب کہ باقی رقم سے 8 لاکھ روپے میں سے ایک پلاٹ خریدا ہے۔ ان کا کہنا ہے بیٹے اور بیٹیاں پڑھی لکھی ہیں لیکن انہیں ملازمت نہیں ملی۔ حکومت نے جاں بحق افراد کے ورثا اور زخمیوں کے لئے سرکاری نوکری کا اعلان کیا تھا لیکن تاحال سرکاری نوکری نہیں دی گئی۔ زمانے کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے بچوں کو انٹر تک پڑھایا لیکن سرکاری ملازمت نہیں ملی۔ پھر بچوں کو اپنے اسی باپ دادا کے کام میں لگا دیا ہے۔

گلزار علی کے تین بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ دھماکے کے بعد بھی انہوں نے لعل کے مزار پر جانا ترک نہیں کیا۔ ان کے دو بیٹے اب بھی مزار پر ہوتے ہیں اور خود بھی مزار پر جاتے ہیں۔ وہیں سے ہی ان کی آمدنی ہوتی ہے۔ مزار پر سرکاری ملازم خود کام نہیں کرتے۔ وہ پرائیوٹ لوگوں سے کام کرواتے ہیں۔ ان کے بیٹے بھی ان ملازمین کے لئے کام کرتے ہیں۔ پھر وہ بھی انہیں کچھ دے ہی دیتے ہیں۔ میرا جو بیٹا سانحے میں جاں بحق ہوا وہ بھی مزار پر خدمت کرتا تھا۔ سمجھدار تھا۔ اس کے ہوتے ہوئے اچھی آمدنی تھی۔ لیکن کیا کریں؟ ایسا ہی ہونا تھا۔ اب میرے دو بیٹے لعل کے مزار پر ہوتے ہیں۔ تیسرا بیٹا پرچون کی دکان چلا رہا ہے۔ ایک غیر سرکاری تنظیم نے انہیں پرچون کی دکان چلانے کی تربیت دی۔ پھر ایک لاکھ 40 ہزار روپے کا پرچون کا سامان بھی دیا۔ اچھا کام چل رہا تھا لیکن کورونا وبا نے پھر ہاتھ تنگ کر دیا ہے۔ لعل کا مزار وبا کے باعث کافی عرصہ بند رہا ہے۔ وہاں سے جو آمدنی تھی وہ بھی بند ہو گئی۔ پھر پورے گھر کے اخراجات کا انحصار پرچون کی دکان پر ہو گیا۔ آمدنی سے زیادہ گھر کے اخراجات تھے، اس لئے اب دکان کا سٹاک کم ہو گیا ہے اور آمدنی بھی کافی کم ہو گئی ہے۔ وبا سے قبل پرچون کی دکان میں ڈیڑھ لاکھ تک کا سٹاک موجود تھا جو اب کم ہو کر 20 ہزار تک کا رہ گیا ہے۔ بس گزارا ہو رہا ہے۔



گلزار علی کا کہنا ہے کہ 2017 میں ملک میں دہشتگردی اور مزاروں پر حملوں کے پیش نظر لعل کے مزار پر سکیورٹی انتظامات برائے نام تھے۔ آج جو سکیورٹی کے انتظامات ہیں یہ پہلے ہوتے تو یہ نقصان نہیں ہوتا۔ دھماکے سے قبل انتظامیہ بتاتی تھی کہ 40 اہلکار ڈیوٹی پر تعینات ہیں لیکن ڈیوٹی پر صرف چند اہلکار ہوتے تھے۔ اس وقت جو سکیورٹی تھی، ان میں سے ایک اہلکار ایسا بھی ڈیوٹی پر تعینات تھا جسے ایک آنکھ سے نظر آتا ہے۔ وہ اب بھی ڈیوٹی پر ہے۔ اس طرح کی سکیورٹی سے نقصان ہونا تھا۔

اب مزار پر سخت سکیورٹی کے انتظامات ہیں۔ مزار کے دونوں دروازوں پر لوہے کی لائنیں بنا دی گئی ہیں جس سے زائرین کا لائن بنائے بغیر اندر داخلہ ممکن نہیں ہے۔ پھر ان کی چیکنگ بھی کی جاتی ہے۔

سکیورٹی انچارج عزیز حسین جتوئی کے مطابق مانیٹرنگ کے لئے دو کنٹرول رومز بنائے گئے ہیں۔ ڈرون کیمرا سے بھی مانیٹرنگ کی جاتی ہے جب کہ 166 سی سی ٹی وی کیمراز نصب کیے گئے ہیں اور تین شفٹوں میں 20 خواتین اہلکاروں سمیت 130 اہلکار ڈیوٹی پر معمور ہیں۔ تمام اہلکار کمانڈو تربیت یافتہ ہیں۔



حادثے میں زخمی محسن کے والد فدا حسین مگنہار مزار پر بھیک مانگتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ روڈ ایکسیڈنٹ میں زخمی ہوئے تھے۔ حادثے کے باعث ایک ٹانگ کاٹ دی گئی تھی۔ بڑا بیٹا مزار پر کام کرتا تھا۔ زخمی ہو گیا تو گھر کی آمدنی بند ہو گئی۔ پھر مزار پر کھڑے ہو کر مانگنا شروع کر دیا۔ بچوں کے لئے روٹی بھی مزار کے لنگر سے مل جاتی ہے۔ حکومت سندھ سے زخمی بچے کے لئے 5 لاکھ روپے امداد دی گئی۔ اس میں بیٹی کی شادی کرائی اور باقی بیٹے کا علاج کرایا۔ ان کے بچے پڑھے لکھے تو ہیں لیکن ان کی ملازمت نہیں ہے۔

منیر احمد شیخ سہون کے رہائشی ہیں۔ وہ اس دھماکے میں زخمی ہوئے تھے۔ وہ بھی لعل کے مزار پر پرائیویٹ کام کرتے تھے۔ صفائی اور جھاڑو دیتے تھے۔ ان کی آمدنی بھی زائرین سے ہوتی تھی۔ جب زخمی ہوئے تو مزار پر کام کرنے کے قابل نہیں رہے۔ اب وہ این جی او کی امداد سے پرچون کی دکان چلاتے ہیں۔ انہیں زیادہ آمدنی تو نہیں ہوتی لیکن گھر کے اخراجات پورے کرنے میں اس دکان سے انہیں مدد مل جاتی ہے۔ دھماکے میں ان کی دونوں ٹانگیں زخمی ہوئی تھیں۔ ایک ٹانگ میں گہرا زخم ہوا۔ حکومت سندھ کی جانب سے منیر کو بھی 10 لاکھ روپے کی امداد دی گئی لیکن اس میں سے زیادہ رقم ان کے علاج پر خرچ ہو گئی۔ ابھی مکمل صحتیابی کے لئے انہیں مزید ایک سرجری کی ضرورت ہے لیکن غربت کے باعث وہ علاج نہیں کرا سکتے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب دھماکہ ہوا تو پہلے انہیں سہون اسپتال پہنچایا گیا۔ کہتے ہیں کہ چھوٹے شہروں کے سرکاری اسپتالوں میں سہولیات کا فقدان ہے۔ اس وقت یہی حال سہون سول اسپتال کا تھا۔ مناسب طبی امداد نہیں مل پائی۔ بعد میں زخمیوں کو حیدرآباد اور دیگر بڑے شہروں کے اسپتالوں میں منتقل کیا گیا۔ ان کا اندازہ ہے کہ اس تاخیر کی وجہ سے جانی نقصان بھی زیادہ ہوا۔



سہون اسپتال میں 2017 کے دوران سہولیات نہ ہونے کے برابر تھیں۔ اس وقت ایک ایمبولنس کارآمد تھی۔ گیس فراہمی کا انتظام نہ ہونے کے برابر تھا۔ اس طرح کے اسپتال میں اتنے بڑے حادثے میں زخمیوں کو طبی امداد فراہم کرنا ممکن نہیں تھا۔ فلاحی ادارے اور سرکاری ذرائع نے زخمیوں کو بڑے شہروں کے اسپتالوں میں منتقل کیا۔ اب سہون اسپتال میں سب سہولیات موجود ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ سید عبداللہ شاہ کے نام سے منسوب (سید عبداللہ شاہ میڈیکل انسٹیٹیوٹ سہون) کے ڈائریکٹر معین الدین صدیقی کا کہنا ہے کہ اس طرح کے بڑے حادثے کے لئے ایک اسپتال ناکافی ہے۔ ایک سے زائد اسپتال کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن اس وقت سہون اسپتال میں بہت زیادہ سہولیات ہیں۔ ایک ٹیچنگ اسپتال میں جو سہولیات ہونی چاہئیں، وہ سب اس میں موجود ہیں۔ اس وقت اسپتال میں 350 بیڈ ہیں، 4 سے 5 ہزار روزانہ کی او پی ڈی ہوتی ہے۔ ماہر ڈاکٹرز تعینات ہیں۔ گیس فراہمی کے انتظامات سمیت 12 ایمبولینسز موجود ہیں۔ گیس فراہمی کے لئے وی ٹینک، آئی سی یو وارڈ، اور وینٹیلیٹر کا مکمل بندوبست ہے۔

منیر شیخ بتاتے ہیں کہ سہون اسپتال میں علاج کی سہولت نہ ہونے کے باعث انہیں حیدرآباد کی کمبائنڈ ملٹری ہاسپٹل (سی ایم ایچ) میں داخل کیا گیا وہ اکیس روز تک اسپتال میں داخل تھے۔ علاج بھی مفت میں کیا گیا۔ لیکن بعد میں حیدرآباد سے ہی علاج ہوتا رہا۔ وہ سہون سے حیدرآباد علاج کے لئے جاتے رہے۔ حکومت سندھ نے انہیں 10 لاکھ روپے امداد بھی دے دی لیکن اس میں سے زیادہ رقم علاج پر خرچ ہو گئی، کچھ گھر کے اخراجات پورے کیے اور اس دوران قرض بھی چڑھ گیا کیونکہ زخمی ہونے باعث وہ کمانے کے قابل نہیں تھے اور گھر میں ہی بیٹھ گئے تھے۔ بعد میں حکومت سندھ کی جانب سے محکمہ اوقاف میں ایک کانٹریکٹ پر سرکاری نوکری دی گئی لیکن 18 ماہ بعد وہ ملازمت ختم ہو گئی۔ حالانکہ حکومت سندھ نے اعلان کیا تھا کہ جن کے پاس سندھ کا ڈومیسائل ہے، انہیں سرکاری نوکری دی جائے گی۔



منیر دھماکے کے متعلق بتاتے ہیں کہ اس وقت وہ مزار کے اندر تھے۔ جب دھماکہ ہوا تو وہ فرش پر گر گئے۔ ان کے کان بند ہو گئے۔ انہیں کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا اور سمجھ بھی نہیں آ رہا تھا کہ آخر ہوا کیا ہے۔ میں نے تین بار اٹھنے کی کوشش کی لیکن نہیں اٹھ پایا۔ بلآخر ایک ٹانگ پر کھڑا ہوا۔ بہت زیادہ جلنے کی بو آ رہی تھی۔ لوگوں کے اعضا بکھرے ہوئے دیکھے تو اندازہ ہوا کہ شاید دھماکہ ہوا ہے۔ اس دوران سہارے پر باہر نکل گیا۔ پھر پولیس نے موبائل میں ڈال کر اسپتال پہنچایا۔

کائونٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے نومبر 2017 میں سہون بم دھماکے کے لئے سہولتکاری کرنے کے الزام میں نادر علی جھکرانی عرف مرشد اور فرقان عرف فاروق بروہی کو گرفتار کیا تھا۔ سی ٹی ڈی کے مطابق نادر علی سہون دھماکے کے لئے ٹیم کو لیڈ کر رہے تھے اور بابر بروہی خود کش بمبار تھے جو بلوچستان کے علاقے مستونگ کے رہائشی تھے۔ سی ٹی ڈی کا دعویٰ ہے کہ نادر علی نے مشترکہ تفتیشی ٹیم کے روبرو اعتراف کیا ہے کہ ان کا تعلق داعش سے ہے۔ اس سے قبل وہ لشکر جھنگوی کے لئے کام کرتے تھے۔



ان کے اعترافی بیان کے مطابق وہ سہون بم دھماکے میں ملوث ہیں۔ گرفتار دونوں ملزمان پر کراچی کی انسداد دہشتگردی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا۔ عدالتی کارروائی میں 29 گواہوں نے بیان رکارڈ کرائے جن میں سے بیشتر پولیس ملازم تھے جب کہ دو پرائیویٹ گواہ جوعینی شاہد تھے دونوں پرائیویٹ گواہوں نے ملزمان کی شناخت کی تھی کہ وہ دھماکے سے قبل سی سی ٹی وی وڈیو میں نظر آ رہے تھے۔ عدالت نے مئی 2019 میں نارد علی اور فرقان کو سزائے موت سنائی اور ایک کروڑ 40 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا۔