سپریم جوڈیشل کونسل نے مبینہ آڈیو لیک سکینڈل پر جسٹس مظاہرنقوی کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے 10 نومبر تک تحریری جواب داخل کرنے کی ہدایت کردی۔
سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے زیر صدارت منعقد ہوا جو کہ دو گھنٹے تک جاری رہا۔ اجلاس میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ امیر بھٹی اور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ نعیم افغان نے بطور ممبر شرکت کی۔ ان کے علاوہ رجسٹرار سپریم کورٹ اور اٹارنی جنرل بھی اجلاس میں شامل تھے۔
آڈیو لیک سکینڈل میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف شکایات کا معاملہ زیر بحث لایا گیا۔
جسٹس مظاہر نقوی پر آمدن سے زائد اثاثہ جات اور ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا الزام تھا۔جس پر سپریم جوڈیشل کونسل نے شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے 10 نومبر تک جواب طلب کرلیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے اکثریت کی بنیاد پر جسٹس مظاہر علی نقوی کو شوکاز نوٹس جاری کیا، کونسل کے تین کے مقابلے میں دو ارکان نے جسٹس مظاہر کو شوکاز نوٹس کی مخالفت کی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اٹارنی جنرل سپریم جوڈیشل کونسل کے آئندہ اجلاس میں بطور پراسیکیوٹر پیش ہوں گے جبکہ جسٹس مظاہر کو کونسل کی کارروائی کھلی عدالت میں چیلنج کرنے کا اختیار بھی حاصل ہے۔بطور جج مستعفی ہونے پر جسٹس مظاہر نقوی پنشن اور دیگر مراعات کے حقدار ہوں گے۔
میاں داؤد ایڈووکیٹ نے سپریم کورٹ کے جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف کرپشن ریفرنس دائر کیا تھا۔ وکیل نے ریفرنس کے ساتھ جسٹس نقوی، ان کے بیٹوں کے نام مشکوک انداز میں خریدی گئی جائیدادوں کی دستاویزات منسلک کیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جوڈیشل کونسل اجلاس میں سابق چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کے خلاف مس کنڈکٹ کی شکایات کا جائزہ بھی لیا گیا۔ تاہم ان کے خلاف ریفرنسز کو ناقابل سماعت ہونے پر خارج کر دیا گیا۔
واضح رہے کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف رواں سال 3 ریفرنس دائر کئے گئے۔ پاکستان بار کونسل، وکیل میاں داؤد اور پاکستان مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے وکلا نے جسٹس نقوی پر مالی کرپشن اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے ساتھ ان کی مبینہ آڈیو لیکس کے الزامات کے تحت ریفرنس دائر کر رکھے ہیں۔
رواں سال اپریل میں موجودہ چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور جسٹس سردار طارق مسعود نے بطور رکن سپریم جوڈیشل کونسل، اس وقت کے چیف جسٹس اور سپریم جوڈیشل کونسل کے چیئرمین، سابق چیف جسٹس، جسٹس (ر) عمر عطاء بندیال کو ایک خط لکھا تھا کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف مس کنڈکٹ اور مالی کرپشن کے الزامات کا جائزہ لینے کے لئے اجلاس بلایا جائے۔
جسٹس نقوی کے خلاف ایک ریفرنس پاکستان مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے وکلا نے دائر کیا جس میں الزام عائد کیا گیا کہ جسٹس نقوی نے بطور جج لاہور ہائی کورٹ ایک عمر قید سزا پانے والے شخص کو ضمانت دینے سے انکار کیا اور جب اس نے وکیل بدلا تو اسے ضمانت مل گئی، بعد میں جب وہ مقدمہ سپریم کورٹ پہنچا تو سپریم کورٹ نے بھی اس فیصلے کے خلاف آبزرویشن دی۔
اس ریفرنس میں جسٹس نقوی کے خلاف یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ ان کی ایک آڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے جس میں جسٹس نقوی کے کچھ لوگوں کے فائدے کے لئے فیصلے جاری کرنے کی بات ہو رہی ہے۔ ایک مبینہ آڈیو لیک سابق وزیر اعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الٰہی اور جسٹس نقوی کے درمیان گفتگو پر مشتمل ہے جس میں کسی مقدمے کے فیصلے کی بات کی جارہی ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان بار کونسل نے بھی آڈیولیکس اور جسٹس نقوی کے اثاثہ جات کے بارے تحقیقات کے لئے سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر رکھا ہے۔