Get Alerts

'گلالئی امریکہ میں سیاسی پناہ کے لئے فوج پر الزامات لگا رہی ہیں'

'گلالئی امریکہ میں سیاسی پناہ کے لئے فوج پر الزامات لگا رہی ہیں'




انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری نے کہا ہے کہ گلالئی اسماعیل امریکہ میں سیاسی پناہ کے لئے پاکستانی اداروں پر الزامات عائد کر رہی ہیں، انہوں نے اب تک اپنے الزامات کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔ وہ وائس آف امریکہ کے اسد اللہ خالد سے انسانی حقوق اور آزادی صحافت کی صورتحال پر گفتگو کر رہی تھیں۔

ڈاکٹر شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ میں نہیں سمجھتی کہ آزادی اظہار پر کوئی پابندیاں ہیں، اس پر پابندیاں لگانے کے لیے کوئی قانون ہی موجود نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ذمہ دار صحافت ضرور چاہتے ہیں،  کیونکہ الزامات اور دعوے کر دیئے جاتے ہیں، مگر ہمارے ہتک عزت کے قوانین اتنے کمزور ہیں کہ ہتک عزت کے کیسز کے فیصلے آنے میں سالوں لگ جاتے ہیں، ہم اسی اپنے عدالتی نظام کو بھی بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اگر آزادی اظہار پر پابندیاں ہوتیں تو آپ اتنے زیادہ نئے چینلز کھلتے ہوئے نہیں دیکھتے'۔

حال ہی میں پاکستان سے فرار ہوکر امریکا میں منظر عام پر آنے والی سماجی حقوق کی کارکن گلالئی اسماعیل کے معاللے پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے  کہا کہ ' گلالئی جب ایک احتجاج کے بعد گرفتار ہونے والی تھیں تو میں ان لوگوں میں تھی جنہوں نے بھرپور کوشش کی تھی کہ وہ گرفتار نہ ہوں، ' دوسری جانب یہ ہے کہ گلالئی کو امریکا میں پناہ چاہیے اس لیے وہ فوج پر الزامات لگا رہیں ہیں۔

انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری نے کہا کہ ' ان کے پاس نہ ہی کوئی ڈیٹا ہے اور نہ ہی حقائق، گلالئی نے کسی ایک کیس کا بھی حوالہ نہیں دیا ہے' میرے خیال میں جب سیاسی پناہ کی ضرورت ہوتی ہے تو لوگ اپنے ملک کی فوج کو برا بھلا کہتے ہیں ، اس طرح سے سیاسی پناہ مل جاتی ہے، یہ افسوسناک ہے' ۔

شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ گلالئی کو اپنے الزامات کے حق میں دلائل سے بات کرنی ہوگی۔

شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ میں دنیا میں کہیں بھی انسانی حقوق کی صورت حال سے مطمئن نہیں ہوں ، پاکستان میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے، پچھلے چند برسوں میں یہاں انسانی حقوق کے مسائل رہے ہیں جنہیں ہم نے درست طریقے سے حل نہیں کیا، تاہم اب ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔


یاد رہے کہ پاکستان میں مختلف مقدمات کا سامنا کرنے والی پشتون تحفظ موومنٹ کی حامی سماجی کارکن گلالئی اسماعیل کئی ماہ کی روپوشی کے بعد امریکہ میں منظرِ عام پر آئی ہیں۔

گلالئی اسماعیل رواں برس مئی کے اواخر سے غائب تھیں جب اسلام آباد میں ایک بچی سے جنسی زیادتی اور اس کے قتل کے واقعے پر احتجاج کرنے پر ان کے خلافگ انسدادِ دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

اس مقدمے میں گلالئی اسماعیل پر الزام عائد کیا گیا کہ اُنھوں نے ’اس واقعے کی آڑ میں لوگوں کو حکومت وقت اور فوج کے خلاف بھڑکایا ہے‘۔ مقدمے کے اندارج کے بعد پولیس نے ان کی تلاش میں متعدد مقامات پر چھاپے بھی مارے مگر انھیں گرفتار نہیں کیا جا سکا۔


اس سے پہلے بھی ’حکومت مخالف تقاریر‘ کے الزام پر گلالئی اسماعیل کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس وقت اپنی حراست میں لیا تھا جب وہ بیرون ملک سے پاکستان واپس آرہی تھیں۔

اس کے علاوہ انھیں اس سال فروری میں پی ٹی ایم کے رہنما ارمان لونی کے قتل پر احتجاج کرنے کے بعد بھی حراست میں لیا گیا تھا۔

جمعرات کو گلالئی کی جانب سے سوشل میڈیا پر ایک پیغام جاری کیا گیا جس میں انھوں نے بتایا کہ وہ پاکستان سے ’فرار‘ ہو کر امریکہ پہنچ گئی ہیں جہاں وہ سیاسی پناہ حاصل کر رہی ہیں۔