سپریم کورٹ نے ملک میں صدارتی نظام لانے سے متعلق تمام درخواستیں خارج کردیں۔
عدالت عظمیٰ نے درخواستوں پر رجسٹرار سپریم کورٹ کے اعتراضات برقرار رکھے۔
درخواست گزار احمد رضا قصوری نے کہا تھا کہ ملک میں صدارتی نظام لانے کیلئے وزیراعظم کو ریفرنڈم کروانے کی ہدایت کی جائے، ملک میں قوم کا پیسہ چوری ہو رہا ہے اور مہنگائی ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ملک بھی تو 1962 کے صدارتی نظام کے دوران ہی ٹوٹا تھا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ملک میں مضبوط سیاسی جماعتیں،ادارے اور نظام کی موجودگی میں انفرادی طور پر آنے والے کس طرح متاثرہ فریق ہو سکتے ہیں، ممکن ہے کوئی سیاسی جماعت آتی تو کیس بنتا ، ملک میں جب بھی جس بھی طریقے سے صدارتی نظام آیا اس کا نقصان ہوا، ہم 1958ء جیسے حالات کو دہرانا نہیں چاہتے ، درخواست گزاروں نے تحریک چلانی ہے تو سیاسی تحریک چلائیں، ایک نظام کو ختم کرکے دوسرا نظام لانے کا اور سیاسی نظام بدلنے کا ہمارے پاس اختیار نہیں، ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے، بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا، ہم سب اسی دیدہ ور کے آنے کا انتظار کر رہے ہیں۔
درخواست گزار نے کہا کہ جمہوریت خلفائے راشدین والی ہونی چاہیے۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ خلفائے راشدین جیسی قیادت ہر شخص کی خواہش ہے، ہمیں حقیقت پسند ہونا چاہیے اب خلفائے راشدین جیسی قیادت ملنا ممکن نہیں، قائداعظم نے بھی جمہوریت کی بات کی تھی۔
سپریم کورٹ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ پاکستان کا آئین جمہوری نظام حکومت کی بنیاد پر ہے اور سپریم کورٹ آئین پاکستان کی رہنمائی کے بغیر کسی کارروائی کا اختیار نہیں رکھتی ، لہذا صدارتی نظام کے نفاذ سے متعلق درخواستیں ناقابل سماعت قرار دی جاتی ہیں۔
ادھر مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ نے کہا کہ وزیراعظم ملک میں صدارتی نظام لانا چاہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پارلیمنٹ کو بے توقیر کیا جا رہا ہے ، وزیراعظم عمران خان آن ریکارڈ ہیں، پارلیمنٹ کو ڈس کریڈٹ کرنے کی یہ جو سوچی سمجھی کوشش ہو رہی ہے حکومت اس کو اسی طرح جاری رکھے گی تاکہ پارلیمنٹ ڈس کریڈٹ ہو، یہ آگے بڑھ سکیں، صدارتی نظام لانے کی راہ ہموار ہو سکے۔