کسی ریاست میں رہنے والے ہر فرد پر قانون کا یکساں اطلاق ہوتا ہے۔ قانون کی پاسداری کرنے اور قانون توڑنے والوں پر ایک جیسے قوانین کا اطلاق ہوتا ہے؟ صحافی بھی عام شہری ہے اور قانون توڑنے کی صورت میں اس پر ایف آئی آر بھی درج ہوتی ہیں اور خود پر لگے ہوئے الزامات کو غلط ثابت کرنے کے لئے عدالتوں میں پیشیوں کے لئے بھی جانا پڑتا ہے۔
صحافی شاہد اسلم کو ایک تحقیقاتی سٹوری کی وجہ سے رات کے اندھیرے میں اٹھایا گیا۔ شاہد اسلم کو لاہور سے سادہ کپڑوں میں 20 کے قریب افراد نے 13 جنوری 2023 کو بغیر وارنٹ گرفتار کر کے اسلام آباد منتقل کیا تھا۔
خبروں کے مطابق انہیں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کے اہل خانہ کے ٹیکس ریکارڈ منظرعام پر لانے کے معاملے میں حراست میں لیا گیا۔ اگلے دن ہی گرفتار ملزم شاہد اسلم کو ایف آئی اے نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں جج عمر شبیر کے سامنے پیش کیا۔ سماعت کے دوران ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ بیرون ملک مقیم صحافی احمد نورانی کو شاہد اسلم سے ایف بی آر کی انفارمیشن مل رہی تھی۔
صحافی شاہد اسلم کی کہانی تحقیقاتی سٹوریز کرنے والے صحافیوں کے لئے ایک کیس سٹڈی بھی ہے۔ شاہد اسلم کا کہنا ہے کہ اس واقعہ کے بعد سے اب تک مجھے کہیں نوکری نہیں ملی۔ میں عملاً بے روزگاری کی زندگی گزار رہا ہوں۔
شاہد اسلم پر ایف آئی آر کیا تھی؟ کب ہوئی؟ اس کی وجوہات کیا تھیں؟ شاہد اسلم کو نیشنل اور انٹرنیشنل میڈیا کی جانب سے کیا سپورٹ ملی؟ یہ سب جانتے ہیں۔ شاہد اسلم پر ایف آئی آر درج ہوئی اور انہیں مقدمے کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ایف آئی آر میں پیکا آرڈیننس 2016 کے سیکشن 4، پاکستان پینل کوڈ 1960 کے 109 سیکشن RW/3 اور دی پریوینشن آف کرپشن ایکٹ 1947 کے سیکشن 5 (2) کے قوانین کے تحت مقدمہ درج ہوا۔
سوال یہ ہے کہ کیا شاہد اسلم اپنے ساتھ ہونے والے واقعے کے بعد ذہنی دباؤ سے باہر نکل پائے ہیں؟ شاہد کی زندگی میں کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں؟ کیا شاہد اسلم صحافتی ذمہ داریاں پہلے کی طرح ادا کر پا رہے ہیں؟ صحافی کی سیفٹی اس کی جان ہی نہیں بلکہ اس کی زندگی کے وہ معاشی، معاشرتی اور ذاتی معاملات بھی ہوتے ہیں جو کسی ایک واقعہ کے رونما ہونے سے یکسر تبدیل ہو جاتے ہیں۔
انٹرویو کے دوران شاہد اسلم نے سیفٹی کے حوالے سے کئے گئے سوال پر بتایا کہ سٹوری تو میں نے کی نہیں، سٹوری تو انگریزی روزنامے سے وابستہ احمد نوارنی نے کی تھی۔ مجھے تو اس الزام میں گرفتار کیا گیا کہ میں نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو ( ایف بی آر) سے سٹوری حاصل کرنے کے لئے معاونت کی ہے۔ اس بارے میں میرا مؤقف یہ ہے کہ اس میں سچائی نہیں ہے تو میں پہلے سے ہی اپنی سیفٹی کے بارے میں کیا اقدامات اٹھاتا۔ اب تک میں آٹھ پیشیوں میں عدالت جا چکا ہوں۔ ایک نہ ایک دن یہ مقدمہ ختم ہو گا۔ ہر رات نے ختم ہونا ہوتا ہے اور صبح ہونی ہوتی ہے۔ میرے مقدمے کو آگے لے کر جائیں، ایسے ہی عدالتوں میں چکر لگواتے رہیں گے، سزا وہ مجھے کوئی دے نہیں سکتے۔ اس کیس کو لٹکانے کا مقصد یہی ہو گا کہ صحافیوں کے لئے ایک سبق رہے۔
شاہد اسلم کا کہنا ہے کہ 4 اکتوبر کو میری پیشی ہے اور ہو سکتا ہے اس پیشی کے دوران مجھ پر فرد جرم بھی عائد کر دی جائے۔ شاہد نے مزید کہا کہ اب تک 8 پیشیوں میں حاضر ہو چکا ہوں اور آخری پیشی میں عدالت میں چالان کی کاپی بھی جمع ہوئی تھی۔
اس مقدمے کی وجہ سے ان کی صحافت کتنی متاثر ہوئی، اس سوال کے جواب میں شاہد اسلم کا کہنا تھا کہ 'جب سے میرے خلاف مقدمہ درج ہوا ہے، میں بے روزگار ہوں۔ اس سے زیادہ کیا متاثر ہو سکتا ہے؟ میری سوشل لائف، میری ذاتی زندگی اور میری پروفیشنل لائف سب کچھ ایک جھٹکے میں الٹ کر رہ گیا ہے'۔
شاہد اسلم بول ٹیلی وژن سے وابستہ تھے اور وہ لاہور میں اپنی صحافتی ذمہ داریاں نبھا رہے تھے۔ فروری کے آغاز میں ہی انہیں زبانی طور پر ادارے کی جانب سے معطلی کے فیصلے سے آگاہ کردیا گیا تھا جبکہ مہینے کی آخری تاریخوں میں نوٹس بھی آ گیا تھا۔ شاہد کے مطابق ادارے نے کوئی خاص وجہ تو نہیں بتائی، اتنا ضرور کہا تھا کہ معاملات ٹھیک ہو جائیں گے تو ادارے کے لئے دوبارہ خدمات سر انجام دے سکتے ہیں۔
شاہد اسلم کے مطابق جب مجھ پر مقدمہ درج ہوا تو انٹرنیشنل میڈیا نے بہت سپورٹ کیا جس میں خاص کر ' کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس' اور 'رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز' خاص طور پر رابطے میں ہیں۔ یہ ادارے میری ہر پیشی کو کور بھی کرتے ہیں۔
امریکہ میں قائم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) نے پاکستانی صحافیوں کے خلاف مقدمات کے اندراج پر تنقید کی۔ واشنگٹن میں سی پی جے کے ایشیا پروگرام کے کوآرڈی نیٹر سٹیون بٹلر نے 'وائس آف امریکہ' کو بتایا؛ 'پاکستان میں فوج یا کسی دوسرے ادارے پر تنقیدی تبصروں کی پاداش میں صحافیوں کو قانونی طور پر ہراساں نہیں کیا جانا چاہئیے۔ ان کے خلاف دائر متعدد ایف آئی آرز کو ایک ساتھ واپس لیا جانا چاہئیے۔ سی پی جے پاکستان کو صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ممالک میں شمار کرتا ہے جہاں سویلین حکومتوں اور فوج کی زیر قیادت سکیورٹی ایجنسیوں (جنہیں عام طور پر اسٹیبلشمنٹ کہا جاتا ہے) پر صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے اور ہراساں کرنے کے الزامات لگائے جاتے ہیں'۔
شاہد اسلم کا کہنا ہے کہ وفاقی قانون 2021 کے تحت صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کے تحفظ کے لیے اگر کمیشن بن جاتا تو شاید میں اس مقدمہ سے جلدی بری ہو جاتا مگر اس ایکٹ کی مثال وہی ہے کہ انصاف کے لئے عمارت تو بنا دی مگر قاضی کی تلاش باقی ہے۔ شاہد اسلم نے موجودہ صورت حال کا احاطہ کچھ اس طرح کیا کہ 'میں ابھی تک ایک ٹراما سے گزر رہا ہوں، کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کروں۔ میں نے اپنے ذہنی تناؤ کے لئے کسی بھی نفسیاتی ڈاکٹر کی طرف رجوع نہیں کیا۔ اگر میں وقت سے اپنا ٹریٹمنٹ کروا لیتا تو شاید ایک بہتر ماحول میں خود کو تصور کرتا'۔
شاہد کا کہنا ہے کہ رپورٹنگ کے لئے میں مختلف سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں جاتا تھا جہاں اب پچھلے 9 ماہ سے میں نہیں جا سکا۔ جن لوگوں سے میں روزانہ بات کرتا تھا اب مہینوں بات نہیں ہوئی۔ ذہنی تناؤ کا شکار الگ سے ہوں۔
اسلام آباد پریس کلب کے صدر انور رضا کا کہنا ہے کہ شاہد اسلم کی نوکری کے بارے میں سیکرٹری انفارمیشن سے ہم نے بات کی ہے کہ شاہد اسلم کے واجبات ادا کئے جائیں۔ بول ٹی وی چونکہ اب کسی اور کی مالکیت ہو گیا ہے، ہم نے ان سے بھی شاہد اسلم کے واجبات کے بارے میں بات کی ہے۔ بہت جلد انہیں نوکری بھی مل جائے گی جبکہ بول نیوز کے حکام کے مطابق شاہد اسلم کی ڈیوٹی ہولڈ کی ہوئی ہیں، انہیں نوکری سے نہیں نکالا گیا۔
لاہور پریس کلب کے صدر اعظم چودھری کا کہنا ہے کہ شاہد اسلم کا ہم نے ہر قدم پر ساتھ دیا ہے۔ رہائی کے بعد شاہد اسلم لاہور پریس کلب بھی تشریف لائے اور پریس کلب کے ارکان کو معاملے سے متعلق مکمل بریفنگ بھی دی۔ لاہور پریس کلب کے اعلیٰ عہدیدار شاہد اسلم کی پیشی میں ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔
پاکستان میں صحافیوں کے تحفظ کے لیے حکومتی سطح پر مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ جس میں سب سے پہلے صحافیوں کے خلاف تشدد کے مرتکب افراد کو قانونی نظام کے ذریعے جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہئیے۔ آزاد میڈیا تنظیموں اور صحافیوں کی حمایت کے لئے میڈیا مالکان کو قوانین بنانے ہوں گے۔ صحافیوں کو حفاظتی تربیت اور وسائل تک رسائی بھی ان اقدمات میں شامل ہونے چاہئیں۔