Get Alerts

احمد نورانی نے عاصم سلیم باجوہ کے مبینہ خاندانی اثاثوں کی تفصیل کیسے جمع کی؟

احمد نورانی نے عاصم سلیم باجوہ کے مبینہ خاندانی اثاثوں کی تفصیل کیسے جمع کی؟

گزشتہ دو روز سے ملک کے انوسیٹیگیٹو جرنلسٹ احمد نورانی کی جانب سے جنرل ر عاصم سلیم باجوہ کے اثاثوں سے متعلق خبر نے پاکستانی صحافتی و سیاسی حلقوں میں تہلکہ مچ گیا ہے۔ انکی خبر کے مطابقعاصم سلیم باجوہ کی اہلیہ اور بچوں نے پاکستان سے باہر جائیدادیں بنا رکھی ہیں اور یہ کاروبار تب ہی بڑھا جب وہ مشرف کے سٹاف میں آئے۔ احمد نورانی کے مضمون کے مطابق عاصم باجوہ کے بھائیوں، اہلیہ اور بچوں کی چار ممالک میں 99 کمپنیاں، 130 سے زائد فعال فرنچائر ریسٹورنٹس اور 13 کمرشل جائیدادیں ہیں، جن میں سے امریکہ میں دو شاپنگ مالز بھی ہیں۔ انہوں نے امریکی سرکاری دستاویزات بھی لف کئے ہیں۔


تاہم جنرل ر عاصم سلیم باجوہ نے ایک غیر معروف ویب سائٹ پر شائع ہونے والی اس سٹوری کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے رد کردیا ہے۔


احمد نورانی نے یہ سٹوری کرنے کے لئے کن مراحل کو طے کیا اور اسے شائع کرنے کے بعد کے رد عمل کے بارے میں انکا کا کہنا ہے اس بارے میں انڈیپنڈینٹ اردو نے ان سے بات چیت کی ہے اور اسے شائع کیا ہے۔ نیا دور اس تفصیل کو اپنے قارئین کے لئے پیش کررہا ہے۔

صحافی احمد نورانی نے کہا کہ انہوں نے اسی وقت جنرل باجوہ کے اثاثوں کے بارے میں رپورٹ شائع کرنے کا فیصلہ کیا جب اس کے بارے میں ٹھوس شواہد اکٹھے کر لیے جنہیں کسی بھی عدالت میں پیش کیا جا سکتا ہے۔


احمد نورانی کی لیفٹننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کے خاندان کے کاروبار کے بارے میں رپورٹ آنے کے بعد سے میڈیا پر اس بارے میں تند و تیز بحث کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔


’فیکٹ فوکس‘ نامی ایک ویب سائٹ پر جاری کردہ تفصیلی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ وزیرِ اعظم کے خصوصی مشیر برائے اطلاعات و نشریات اور سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین جنرل (ر) عاصم باجوہ کی اہلیہ اور بھائیوں کے بیرونِ ملک کروڑوں ڈالر کے اثاثے ہیں۔


جنرل باجوہ نے ایک ٹویٹ کے ذریعے اس رپورٹ کی تردید کی ہے۔


احمد نورانی اس وقت امریکہ کی ریاست مزوری میں مقیم ہیں۔ انہوں نے وٹس ایپ پر بات کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’بطور صحافی مجھے علم تھا کہ اس رپورٹ پر شدید ردِ عمل آ سکتا ہے۔ لیکن رپورٹ مکمل کرنے سے پہلے ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ صرف وہی چیز لینی ہے جس کا ہمارے پاس سرکاری شواہد موجود ہوں اور جنہیں کسی بھی عدالت میں پیش کیا جا سکتا ہو۔ تو ہم نے صرف ان شواہد کو مرتب کیا۔‘


ہم نے ان سے پوچھا کہ سوشل میڈیا پر طرح طرح کی باتیں ہو رہی ہیں، تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس خبر کے چھپنے کے بعد آپ کا واپس آنا مشکل ہو جائے گا؟


اس پر انہوں نے کہا کہ ’میں نہیں سمجھتا کہ میرا پاکستان آنا مشکل ہو جائے گا۔ کچھ دوست ہیں جو ایسی باتیں کرتے ہیں۔ پاکستان میرا ملک ہے، میں پاکستان کو ’اون‘ کرتا ہوں، یہ میرا ملک ہے، کسی کے باپ کا ملک نہیں ہے۔ جو شخص کسی پاکستانی کے لیے اس طرح کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرے ہم تو اسے بھگانے کی بات کرتے ہیں۔ خود تو ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ کوئی ہمیں ہمارے وطن میں آنے یا رہنے سے روکے گا۔‘