عاصم باجوہ کے بھائی امریکہ میں مقیم ہیں، احمد نورانی کے خلاف مقدمہ کریں

عاصم باجوہ کے بھائی امریکہ میں مقیم ہیں، احمد نورانی کے خلاف مقدمہ کریں
معروف صحافی احمد نورانی نے ایک غیر ملکی ویب سائٹ پر اور اپنے یو ٹیوب چینل پر تہلکہ خیز انکشافات کیئے ہیں جو چیئرمین سی پیک اور وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے اطلاعات ونشریات (ر) لیفٹننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کے حوالے سے ہیں۔ جس میں بتایا گیا کہ انکے خاندان کے کاروبار اور اثاثے امریکہ میں ہیں نیز اس کاروباری شراکت میں عاصم باجوہ صاحب کی اہلیہ برابر کی حصہ دار ہیں۔ جیسے ہی احمد نورانی کی یہ سٹوری منظر عام پر آئی سوشل میڈیا پر ایک طوفان آگیا۔

پاکستان کے مین سٹریم میڈیا جس میں اخبارات اور ٹی وی چینلز شامل وہاں اس خبر کو نشر اور شائع نہیں کیا گیا اس کی وجوہات پر آگے چل کر لکھتے ہیں۔ احمد نورانی کا شمار تحقیقاتی صحافیوں میں ہوتا ہے۔ وہ طویل عرصے تک جنگ گروپ سے وابستہ رہے۔ انکے کریڈٹ میں بے شمار تحقیقاتی سٹوریز ہیں۔ اس سے پہلے انہوں نے بے شمار سیاستدانوں اور بیوروکریٹ کی کرپشن منظر عام پر لانے پہلی بار کسی سابقہ جرنیل کی کوئی سٹوری منظر عام پر لائے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں وہ تحقیقاتی صحافت کا ایک بڑا نام ہیں جب نواز شریف وزیراعظم تھے انکے خلاف پانامہ مقدمہ چل رہا تھا، جے آہی ٹی کی رپورٹ آنے سے پہلے ہی انہوں نے خبر دی کہ کے جے آئی ٹی نے نواز شریف کو کلین چٹ دے دی ہے۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ اس خبر کا سپریم کورٹ نے نوٹس بھی لیا تھا۔ اسی خبر کی وجہ سے انکی نوکری بھی جنگ گروپ سے ختم ہوئی تھی۔ اور وہ مین سڑیم میڈیا سے آؤٹ ہو گئے تھے۔ اسلام آباد چھوڑ کر لاہور آگئے اور ایک چھوٹے اخبار سے وابستہ ہو گئے۔ احمد نورانی اپنی اس خبر کے باعث ایک بار پھر منظر عام پر چھا گئے ہیں۔

انکی اس سٹوری کے حوالے سے دو طرح کی آرا سامنے آرہی ہیں۔ ایک جو انکو غداری کے فتویٰ جاری کر رہے ہیں چونکہ عاصم باجوہ سی پیک اتھارٹی کے سربراہ بھی ہیں اور اس منصوبے کو پاکستان کی معیشت کے حوالے سے گیم چینجر سمجھا جاتا ہے۔ اس خبر کے منظر عام پر آنے کے بعد بھارتی میڈیا نے خوب شور برپا کیا اور خدشہ ہے اس سے سی پیک کو نقصان ہو سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عاصم باجوہ کے آنے کے بعد سے سی پیک کی رفتار بہت تیز ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے برقی اور اخباری ذرائع ابلاغ نے اس سٹوری پر کوئی بات نہیں کی۔ یہاں ایک بات اور بھی ہے کہ احمد نورانی کی سٹوری سے پہلے یہی باتیں کا ایک سابقہ بھارتی فوجی میجر بھی اپنے یو ٹیوب چینل پر کر چکے ہیں اور احمد نورانی پر الزام ہے کہ انہوں نے سب وہاں سے کاپی پیسٹ کیا ہے۔ احمد نورانی کی سٹوری کے حوالے سے دوسری رائے یہ ہے کہ چونکہ عاصم باجوہ اب عسکری نہیں سیاسی ہو چکے ہیں، انکے پاس ایک سیاسی عہدہ ہے لہذا انکو جواب دینا چاہیے۔ کچھ عرصہ قبل جب وزیراعظم عمران خان کے کہنے پر انکے وزراء اور مشیروں نے اپنے اثاثے ظاہر کئے تو عاصم باجوہ نے جو اثاتے ظاہر کیے وہ صرف پاکستان کے تھے۔

اب انکو اس بات کا جواب دینا چاہیے۔ ان دونوں آرا کی روشنی میں ایک بات تو عیاں ہے کہ اس ملک میں کسی کو قانون سے بالاتر نہیں ہونا چاہیے اگر سیاستدانوں نواز شریف اور عمران خان سے منی ٹریل مانگی جا سکتی ہے۔ سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی عیسیٰ فائز کی شریک حیات  ایف بی آر اور سپریم کورٹ کی پیشیاں بھگت سکتی ہیں تو پھر عاصم باجوہ کی شریک حیات کیوں نہیں؟ آج ہی وزیر اطلاعات ونشریات شبلی فراز کا بیان سامنے آیا ہے کہ بہت جلد عاصم باجوہ پریس کانفرنس کریں گے اور اپنا موقف پیش کریں گے،ابھی تک انہوں نے صرف ایک ٹویٹ ہی کی ہے۔

عاصم باوجوہ کو جلد اپنی خاموشی توڑنی ہو گی ان کو احمد نورانی سے انکی سٹوری کے حوالے سے عدالت میں ثبوت طلب کرنے چاہیے۔ احمد نورانی آج کل امریکہ میں ہیں عاصم باجوہ اپنے بھائیوں کے ذریعے ان پر امریکی عدالتوں میں مقدمات بھی کر سکتے ہیں اور پاکستان میں خود کر سکتے ہیں۔ اگر یہ خبر غلط ہے آج کے بعد کسی صحافی کو جرات نہیں ہو گی غلط خبر دینے کی۔ اگر عاصم باجوہ خاموش رہے تو اچھا تاثر نہیں جائے گا کہ احتساب صرف سیاست دان اور جج کا ہی کیوں؟ کسی جنرل کا کیوں نہیں؟ چلتے چلتے احمد نورانی کی سٹوری سامنے آنے کے بعد انکے خاندان کو دھمکیاں مل رہی ہیں جو قابل مذمت ہے۔ آپ احمد نورانی کو عدالت میں غلط ثابت کریں مگر انکو غداری فتویٰ نہ دیں انکی خاندان کو اس معاملے سے الگ رکھیں۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔