دستیاب اعداد و شمار اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ہر سال نمٹائے جانے سے زیادہ مقدمات دائر کیے جاتے ہیں جو کہ انصاف کی فراہمی کے نظام کا گلا گھونٹ رہے ہیں۔ اس نازک صورتحال کے باوجود اس سے نمٹنے کے لیے کوئی ہنگامی منصوبہ نہیں ہے۔ غیر ضروری قانونی چارہ جوئی کی وجوہات کو دور کرنے اور بیک لاگ کو کم کرنے اور ختم کرنے کے لیے کوئی ٹھوس کوششیں نہیں کی گئیں۔ ہماری عدالتیں اب بھی فرسودہ طریقہ کار اور طریقوں پر عمل پیرا ہیں جبکہ بہت سے ترقی پذیر ممالک نے انفارمیشن ٹیکنالوجی ٹولز کا استعمال کرتے ہوئے فاسٹ ٹریک فالو اپس کے ذریعے مقدمات درج کرنے اور ان کے فوری نمٹانے کے لیے ای-سسٹم اپنایا ہے اور نچلی سطح پر ای کورٹس یا موبائل کورٹس لگا رہے ہیں۔ ہمہ گیر عدالتی اصلاحات (حصہ اول)، فرائیڈے ٹائمز، ستمبر 30، 2023
بدقسمتی سے حکمران جماعتوں کے قانون ساز، اپنے آقاؤں کے حکام پر، موجودہ عدالت عظمیٰ کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں- ان کو مروجہ زوال پذیر اور ناکارہ عدالتی نظام کی اصلاح میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ عوام کے حقوق کی پاسبانی اور حفاظت کے لئے آئینی عدالت (constitutional کورٹ ) قائم کرنے، "مفت "، سستا"، "جلد" اور "منصفانہ" انصاف فراہم کرنے کی آڑ میں، زبانی یا تحریری طور پر مسلح افواج پر تنقید کرنے پر بھی فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے مقدمے کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عسکری حلقے اس بات سے نالاں ہیں کہ اب شہری ان کی سیاست میں کھلی اور دائمی مداخلتوں اور تجارتی منصوبوں میں شامل ہو کر بڑھتے ہوئے معاشی مفادات پر بلا خوف تنقید کرتے ہیں۔
پاکستان میں انصاف کی تیز رفتار فراہمی کے مسائل، اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستورکے آرٹیکل 10 الف کے تحت منصفانہ ٹرائل کے بنیادی حق کی عدم تکمیل پر کچھ عرصہ پہلے دو حصوں پر مبنی سیریز اور مختلف مضامین میں بحث کی گئی تھی۔ تاہم، حسب توقع، وفاقی اور صوبائی وزارت قانون میں بیٹھے لوگوں کی طرف سے ان پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ ان اہم مسائل پر حکومت کی جانب سے کھلے عام بحث شروع کرنے کی زحمت بھی نہیں کی گئی، کجا مسائل کے تدارک کی بات کی جائے۔
ہمہ گیر عدالتی اصلاحات کے لیے ایک عملی اصلاحاتی ایجنڈا کی تیاری کے لیے سب سے بڑا چیلنج حکمرانی کے تمام شعبوں میں رائج فرسودہ اور عوام دشمن نوآبادیاتی ڈھانچے کو ختم کرنا ہے، ظاہر ہے عدلیہ کا نظام بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ موجودہ فرسودہ نظام کو ختم کرنے کے بعد ایک جدید، مکمل خودکار عدالتی نظام کی تشکیل نو کے بارے میں دو حصوں پر مشتمل سیریز میں بہت سی تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ مگر پارلیمان میں موجود قانون ساز اور پاک سرزمین میں اہمیت رکھنے والے ادارے کے کرتا دھرتا افراد نے ان کو آج تک پڑھنے کی زحمت بھی نہیں کی۔ ان کا دعوی ہے کہ وہ معاشرے کی تمام برائیوں کو ختم کرنے کے لیے تیار شدہ حل رکھتے ہیں اور اس ضمن میں بحث کی حوصلہ افزائی کی کیا ضرورت ہے!
کوئی بھی معاشرہ جس میں موثر عدالتی نظام نہ ہو، جس میں انصاف کی موثر فراہمی کو یقینی نہ بنایا جا سکے وہ ترقی نہیں کر سکتا۔ بلاشبہ، پاکستان میں انصاف کی فراہمی کی قابل رحم حالت پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ ہمارا موجودہ ناکارہ اور مہنگا نظام انصاف”بنیادی طور پر امیروں اور طاقتوروں کی خدمت بجا لاتا ہے“اب تباہی کے دہانے پر ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ موجودہ عدالتی نظام”عدل و انصاف کے تقاضوں کو ہر گز پورا نہیں کرتا “کی فوری اصلاح کی ضرورت ہے۔ اس میں زیر التواء مقدمات کو تیزی سے نمٹانے اور ضرورت سے زیادہ اور غیر ضروری (frivolous) بدنیتی پر مبنی قانونی چارہ جوئی کے اسباب کو دور کرنے کے لیے ایک ہنگامی منصوبہ تیار کرنا سب سے اہم ہے۔ بدقسمتی سے میڈیا میں گردش کرنے والے مجوزہ 26ویں آئینی ترمیمی بل کے مختلف مسودوں (drafat versions) میں ان میں سے کوئی بھی پہلو اور اس کا حل موجود نہیں ہے۔
17 ستمبر 2023 کو پاکستان کے 29 ویں چیف جسٹس (CJP) کی حیثیت سے حلف اٹھانے کے بعد، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بار بار ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں زیر التواء مقدمات کو کم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ اب، وہ ریٹائرمنٹ کے دہانے پر ہیں (25 اکتوبر 2024 ان کے عہدے کا آخری دن ہوگا)، لیکن جہاں تک مقدمات کے التوا کا تعلق ہے، معاملات سدھرنے کے بجائے مزید بگڑ گئے ہیں۔
مسئلہ مقدمات کے فیصلوں کی رفتار سے زیادہ اندراج (inflow) کا ہے، جو (disposal)کی تعداد سے بہت زیادہ ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کی ویب سائٹ پر، 2 ستمبر 2024 سے 13 ستمبر 2024 تک کی ہفتہ وار/ پندرہ روزہ ڈسپوزل رپورٹ (رجسٹری وائز سمری) میں شامل مقدمات کے نمٹانے کے تازہ ترین اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پر نسپل سیٹ پر811 مقدمات میں سے، صرف 126 کا فیصلہ ہوا۔
ایک پریس رپورٹ کے مطابق، ”مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ابتدائی دور میں، عدالت عظمیٰ نے 17 ستمبر 2023 سے 16 دسمبر 2023 تک زیر التواء مقدمات میں قابل ستائش کمی دیکھی... زیر التواء مقدمات کی تعداد 56,503 سے گھٹ کر 55,644 ہو گئی۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے، “تاہم، اس کے بعد کے تین مہینوں میں صورتحال میں بہتری میں کمی آ گئی۔ پندرہ روزہ رپورٹ کے مطابق، 31 مارچ 2024 تک زیر التواء مقدمات کی کل تعداد بڑھ کر 57,181 ہوگئی۔ خطرناک بات یہ ہے کہ اس سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران مجموعی طور پر بیک لاگ (backlog) میں مزید 1,537 کیسز کا اضافہ دیکھا گیا"۔
بیک لاگ میں اضافے کا مذکورہ بالا نمونہ صرف سپریم کورٹ تک محدود نہیں ہے۔ درحقیقت پاکستان میں کام کرنے والی ہر عدالت اور ٹریبونل کا یہی حال ہے۔ پاکستان کے لاء اینڈ جسٹس کمیشن نے جولائی سے دسمبر 2023 کے عرصے کے لیے عدالتی اعدادوشمار کی اپنی نصف سالہ(bi-annual) رپورٹ میں تشویش کے ساتھ نوٹ کیا کہ "مقدمات کے مجموعی طور پر التوا میں 3.9 فیصد اضافہ ہوا ہے، جو حیرت انگیز طور پر 2.26 ملین مقدمات تک پہنچ گیا ہے"۔
رپورٹ میں سپریم کورٹ آف پاکستان، وفاقی شرعی عدالت، تمام ہائی کورٹس اور ضلعی عدلیہ کے مقدمات کے اعدادوشمار کے بارے میں جامع معلومات موجود ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ زیر التواء مقدمات میں سے 82 فیصد (1.86 ملین) ضلعی عدلیہ کی سطح پر ہیں، جب کہ بقیہ 18 فیصد (0.39 ملین مقدمات) اوپری درجے پر ہیں، جس میں سپریم کورٹ، وفاقی شریعت کورٹ، اور ہائی کورٹس شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، “اس عرصے کے دوران 2.38 ملین نئے مقدمات دائر کیے گئے، جب کہ عدالتیں 2.30 ملین مقدمات کو حل کرنے میں کامیاب ہوئیں۔ اس اہم تعدادکے باوجود، نئے مقدمات کے مسلسل دائر ہونے کی وجہ سے زیر التواء مقدمات کا بیک لاگ زیادہ رہا۔ رپورٹ میں ہائی کورٹس اور ضلعی عدلیہ میں زیر التواء مقدمات کا تفصیلی تجزیہ پیش کیا گیا ہے- ہائی کورٹس میں زیر التواء مقدمات میں سے 81 فیصد سول مقدمات ہیں، جب کہ فوجداری مقدمات 19 فیصد ہیں۔ دوسری جانب ضلعی عدلیہ کی سطح پر زیر التوا مقدمات میں سے 64 فیصد دیوانی مقدمات ہیں جبکہ باقی 36 فیصد فوجداری مقدمات پر مشتمل ہیں۔ مزید تفصیلات کے لیے رپورٹ کے لنک پر جائیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ عدلیہ اور مقننہ نے موجودہ استحصالی، عوام دشمن، اشرافیہ کے ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیاں لانے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا جو کہ اصل بیماری ہے۔افسوس کی بات ہے کہ لاکھوں مقدمات کو نمٹانے کے لئے حل اختلاف جایگزین (alternate dispute resolution) کے نظام کی آج تک ترویج و تکمیل نہیں ہو سکی۔ اس نظام کے بغیر لاکھوں زیر التواء مقدمات کا فیصلہ موجود 6000 ججز کی تعداد سے ہر گز نہیں ہو سکتا۔
عدلیہ، انتظامیہ، یا مقننہ کے لیے اصلاحاتی ایجنڈا جو یہاں اور وہاں پیچ ورک (patchwork) پر مبنی ہے کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا، جب تک بنیادی ڈھانچہ جاتی تبدیلیاں نہ کی جائیں۔ دوسرے ممالک میں کامیابی سے کام کرنے والے جدید اور موثر ماڈلز کو اپنےمعروضی حالات سے منطبق کرکہ مروجہ، بوسیدہ اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار نظاموں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ آزادی کے بعد سے، ہم اپنے فرسودہ ریاستی اداروں کی تشکیل نو اور انکو جمہوری اور عوام دوست بنانے میں ناکام رہے ہیں۔
اصلاحات کے بارے میں محض بیان بازی، جیسا کہ ہم ایک طویل عرصے سے سنتے آرہے ہیں، کوئی مقصد حاصل نہیں کرے گا۔ قابل ججوں کی کمی، انصاف کی فراہمی میں تاخیر، بہت زیادہ التوا و مقدمات و غیرہ کا ذکر ہی کافی نہیں ہے، یقیناً یہ بہت بیمار نظام کی علامات ہیں، لیکن علاج کا نسخہ کہاں ہے؟ بیماری کی بنیادی وجہ کو ہٹائے بغیر علامات کا علاج محض ایک لا حاصل مشق ہوگی۔ موجودہ چیف جسٹس کی جانب سے ان کے دور حکومت میں کوئی ٹھوس تجاویز، قابل عمل منصوبہ بندی نہیں کی گئی، جیسا کہ ان کے پیشرووں کا خاصہ رہا۔ یکے بعد دیگر آنے والی حکومتوں نے کبھی بھی موثر نظام انصاف فراہم کرنے کی قابل ذکر کوشش نہیں کی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اصلاحات کے لیے بیان بازی سے عملیت پسندی کی طرف بڑھیں۔
لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کے اعداد و شمار اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ہر ماہ نمٹائے جانے سے زیادہ کیسز دائر کیے جاتے ہیں جو کہ انصاف کی فراہمی کا نظام درہم برہم کر رہے ہیں۔ اس نازک صورتحال کے باوجود اس سے نمٹنے کے لیے کوئی ہنگامی منصوبہ موجود نہیں ہے۔ غیر ضروری قانونی چارہ جوئی کی وجوہات کو دور کرنے اور بیک لاگ کو کم کرنے/ختم کرنے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی گئی۔
ہماری عدالتیں اب بھی فرسودہ طریقہ کار پر عمل پیرا ہیں جبکہ بہت سے ممالک نے نچلی سطح پر مجسٹریٹس کے دفاتر کا استعمال کرتے ہوئے فاسٹ ٹریک فالو اپ کے ذریعے مقدمات درج کرنے اور ان کے فوری نمٹانے کے لیے ای سسٹم اپنایا ہے۔ نہ ہی مقننہ نے اب تک موثر/تیز انصاف کے نظام کے لیے قوانین/ضوابط کا جائزہ/اپ ڈیٹ کیا ہے اور نہ ہی عدلیہ نے پرانے طریقہ کار کو ختم کرنے کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ تیار/پیش کیا ہے جس میں وفاقی/صوبائی حکومتوں کو 'فاسٹ ٹریک کورٹس' قائم کرنے کی تجویز دی گئی ہے جیسا کہ ہندوستان میں2001 میں کیا گیا تھا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہندوستان کے گیارہویں مالیاتی کمیشن نے طویل عرصے سے زیر التوا مقدمات کو نمٹانے کے لیے 1734 فاسٹ ٹریک کورٹس (FTCs) کے قیام کے لیے پانچ سالہ اسکیم کی سفارش کی تھی اور عدالتی انتظامیہ کے لیے "خصوصی مسئلہ اور اپ گریڈیشن گرانٹ" کے طور پر 502.90 کروڑ ہندوستانی روپے فراہم کیے تھے۔ طویل عرصے سے زیر التواء کیسوں، خاص طور پر زیر سماعت کیسوں کو تیزی سے نمٹانے کے لیے قائم کیے گئے FTCs کی مدت 31 مارچ 2005 کو ختم ہونے والی تھی۔ تاہم، بھارتی سپریم کورٹ، جو برج موہن لال بمقابلہ UOI میں طے شدہ اصلوں کے ذریعے FTCs کے کام کی نگرانی کر رہی تھی حکم دیا کہ ان کو اچانک منقطع نہیں کیا جانا چاہیے۔ ہندوستانی حکومت نے مزید 5 سال کی مدت کے لیے 1562 FTCs کو جاری رکھنے کی منظوری دی۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق، بھارت میں 2001 سے کام کرنے والی ایف ٹی سیز نے 2012 تک "تیس لاکھ سے زیادہ کیسز" کا فیصلہ کیا۔
ہماری حکومتوں، فوجی اور سویلین، دونوں نے کبھی ایسے کسی اقدام پر غور ہی نہیں کیا۔ ہماری عدالت عظمیٰ جو آرٹیکل(3) 184 کی بنیاد پر ہر ضروری اور غیر ضروری معاملات میں مداخلت کرتی رہی ہے نے بھی اس پر غور نہیں کیا کہ نظام عدل و انصاف کو کیسے موثر بنایا جانا چاہیے۔
15 دسمبر، 2017 کو، بھارتی سپریم کورٹ نے تمام ممبران پارلیمنٹ (MPAs) اور ممبران لیجسلیٹو اسمبلی (MLAs) کے خلاف زیر التواء فوجداری مقدمات کے لیے فاسٹ ٹریک کورٹس قائم کرنے کے لیے مرکزی حکومت کی تیار کردہ اسکیم کو منظوری دی۔ 12 فاسٹ ٹریک کورٹس نے 1 مارچ 2018 سے کام کرنا شروع کر دیا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ 1581 ممبران پارلیمنٹ اور ایم ایل ایز کے خلاف زیر التواء 13,500 مقدمات ایک سال کے اندر ختم ہو جائیں تاکہ وہ عوامی عہدے داروں کے طور پر جاری رہیں یا سزا کے بعد ایوانوں کو چھوڑ دیں۔ پاکستان میں منتخب اراکین کے خلاف فوجداری مقدمات کے بارے میں بھی کوئی اعداد و شمار موجود نہیں، ان کو ترجیحی بنیادوں پر اٹھانے کی کیا بات کی جائے۔
پاکستان میں تیز رفتار انصاف کا نظام وضع کرنا ایک مشکل چیلنج ہے۔ موجودہ نظام کے ان گنت مسائل میں سب سے گمبھیر لاکھوں زیر التواء مقدمات ہیں، ان میں ایک کثیر تعداد غیر سنجیدہ (frivolous) کیسز کی ہے،جہاں فائلرز کو سزا نہیں ملتی۔ موجودہ ناکارہ اور فرسودہ عدالتی نظام میں بار بار التواء (adjournments) حاصل کیے جاتے ہیں، انتظامیہ لوگوں کو بلاوجہ عدالتوں میں جانے پر مجبور کرتی ہے، پرانے طریقہ کار اور ججوں کی کمی بھی انصاف کی راہ میں رکاوٹ کا سبب ہیں۔ موجودہ استحصالی عدالتی نظام کا سب سے زیادہ فائدہ پیسے کی طاقت رکھنے والے افراد کو حاصل ہوتا ہے۔وہ "قابل" اور "چالاک" وکلاء کی خدمات حاصل کر کے انصاف کے حصول کے میں "تاخیری " حربوں کے علاوہ قانونی موشگافیوں سے نظام کو اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں۔
پاکستانی ماحول میں "عدلیہ کی آزادی" اور "انصاف سب کے لیے "جیسے نعرے محض الفاظی ثابت ہوئے ہیں، یہاں تک کہ عوامی مہم کے ذریعے 3 نومبر 2007 سے پہلے کی عدلیہ کی بحالی کے تناظر میں بھی۔ قومی عدالتی پالیسی 2009 کی بہت زیادہ تشہیر کی جاتی ہے، مگر یہ بھی علامات کے علاج کی ایک کوشش کے سوا کچھ نہیں تھی، کیونکہ بیماری کی وجوہات کو دور کرنے کے لیے بامعنی اور موثر ساختی تبدیلیاں کرنے کے لیے آج تک کوئی کوشش نہیں کی گئی۔
ایک موثر انصاف کا نظام صرف اسی صورت میں قائم ہو سکتا ہے جب نچلی سطح پر انتہائی قابل جج پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس سے مستقبل میں اعلیٰ عدالتوں کے لیے قابل جج حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ آئین کے آرٹیکل 212 کے تحت بنائے گئے تمام خصوصی ٹربیونلز میں اراکین کی تمام موجودہ تقرریوں کو صوبے کے چیف جسٹس کے سامنے رکھنا ضروری ہے جس میں ممبران اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ چیف جسٹس خود یا ان کی طرف سے مقرر کردہ کوئی دوسرا جج یا ان کی طرف سے مقرر کردہ کمیٹی ایسی تقرریوں کو منظور یا نامنظور کرنے کے لیے دیکھ سکتے ہیں جو کہ وفاقی حکومت پر لازم ہو گی۔ اپیلٹ ٹربیونلز میں تمام موجودہ اور مستقبل کی تقرریوں کی جانچ ریاست کے عدالتی ادارے سے ہونی چاہیے۔
عدالتی اصلاحات کا بنیادی مقصد غیر ضروری قانونی چارہ جوئی کا خاتمہ اور ریاست اور اس کے شہریوں کے درمیان معاملات کو آسانی سے چلانے میں سہولت فراہم کرنا ہونا چاہیے۔ ایک بار جب دونوں قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرنا سیکھ لیں گے تو قانونی چارہ جوئی میں زبردست کمی آئے گی۔
یہ تکلیف دہ امر ہے کہ اس وقت وفاقی اور صوبائی حکومتیں لاکھوں مقدمات میں فریق ہیں۔ وہ لوگوں کے حقوق غصب کرتے ہیں اور پھر بے بس شہریوں کو عدالتوں میں گھسیٹتے ہیں۔ ہم سب اس خراب حالت کی وجوہات جانتے ہیں، لیکن کوئی بھی اسے ٹھیک نہیں کرنا چاہتا۔ عدالتی اصلاحات، کسی بھی مہذب اور قانون کی پاسداری کرنے والے معاشرے میں، زیادہ عدالتوں اور ججوں، عمارتوں اور گاڑیوں اور مراعات کا نام نہیں ہوں گی، بلکہ غیر ضروری قانونی چارہ جوئی کے اسباب ختم کرنےاور مقدمات کو فوری نمٹانے کے لیے مددگار و معاون ہوں گی۔ آئینی عدالت ہمارے عدالتی اور نظام انصاف کا حل نہیں، بلکہ حقیقی حکمران طبقے کی بالا دستی کی خواہش ہے۔