پاکستان میں جاری ہاتھیوں کی لڑائی میں نقصان فقط فصلوں کا ہو رہا ہے

پاکستان میں جاری ہاتھیوں کی لڑائی میں نقصان فقط فصلوں کا ہو رہا ہے
موجودہ حالات عجب منظرنامہ پیش کر رہے ہیں۔ ادارے کشمکش میں مبتلا ہیں اور آپس میں ٹکراؤ کی طرف بڑھ رہے ہیں جو انتہائی قابل افسوس امر ہے۔ اختیارات کی اصل خوبصورتی ان کے ساتھ متعین کردہ غیر جانبداری، شفافیت اور برابری کی بنیاد پر ہوتی ہے اور یہی اوصاف آئین و قانون کی مدد سے اختیارات میں تقویت اور رعب ڈالتے ہیں۔ اگر ان حدود و قیود کو عبور کرنا شروع کر دیا جائے تو پھر اختیارات بے فائدہ اور بے وقعت سے ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اسی طرح کی صورت حال سے اس وقت ہم دوچار ہیں۔ ہر کوئی اپنے اختیارات کے گھمنڈ میں غرق ہے اور ان پر عمل درآمد کے معاملے میں بے بسی کا شکار ہے۔

سیاسی دنگل پارلیمان سے چوک چوراہوں اور اب ایوان عدل تک پہنچ چکا ہے اور لگتا یوں ہے کہ پوری ریاست سیاست کی الجھی ہوئی گتُھیاں سلجھانے میں لگی ہوئی ہے۔ عوامی، معاشی اور انتظامی معاملات انتہائی کسمپرسی کی صورت حال سے دوچار ہیں۔ مہنگائی، بیروزگاری اور غربت بڑھتی جا رہی ہے اور ریاستی ادارے اور سیاسی جماعتیں اپنے اقتدار اور اختیارات کی جنگ میں الجھے ہوئے ہیں۔ ہر کوئی اپنی ضد اور انا کو سہارا دینے کے لئے نا صرف اپنے اختیارات کو ایک خاص انداز سے پورا کرنے کی کوشش کر رہا ہے بلکہ اس میں حائل آئینی و قانونی رکاوٹوں کو بھی ایک ہی جنبش میں ہٹانے کی کوشش میں لگا ہے۔

پارلیمان اور ایوان عدل کی کھینچا تانی تماشہ بن کر رہ گئی ہے۔ عدالت عالیہ حکومت کی عرضیوں کو وزن دینے سے گریزاں ہے اور حکومت عدالت عالیہ کے فیصلوں کے خلاف پارلیمان سے مذمتی قراردادیں منظور کروا رہی ہے۔ نا فیصلوں پر عمل دآمد ہو رہا ہے اور نہ ہی قرادادوں کو کوئی اہمیت دی جا رہی ہے۔ کچھ پارلیمنٹیرین اسمبلی چھوڑ کر چوکوں چوراہوں میں سیاسی دنگل لگائے بیٹھے ہیں تو کچھ پارلیمان میں حکومتی اختیارات کے بل بوتے پر اپنے اختیارات کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو ایکٹ کے ذریعے سے دور کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔

پوری قوم کی صلاحیتیں بے جا استعمال ہو رہی ہیں۔ سیاست دان پارلیمان کو چھوڑ کر چوک چوراہوں میں ہیں۔ عدالتیں اپنا کام چھوڑ کر آئینی اور سیاسی معاملات میں لگی ہوئی ہیں۔ چیف جسٹس صاحب اس سارے عمل کو اپنے ساتھی ججوں کے سنگ جاری رکھنے کا تہیہ لئے میدان عمل میں اترے ہوئے ہیں۔ عدالت عالیہ کے بارے میں عوامی تاثر یہ ہے کہ بنچز دیکھ کر لوگ فیصلے کا اندازہ لگا لیتے ہیں اور ججز کے فیصلے عوام کی پیش گوئیوں پر پورے اترتے دکھائی دے رہے ہیں۔

حکومت میں شامل جماعتیں چیف صاحب اور ان کے اختیارات سے سخت نالاں ہیں جبکہ تحریک انصاف ان کے گرد حفاظتی حصار بنائے ہوئے ان کی نیک نامی کے نعرے لگا رہی ہے اور میڈیا پر ان کے وہ کلپس بھی شیئر کیے جا رہے ہیں جن میں وہ عدلیہ کے ججوں پر ایک سال پہلے حملہ آور ہو رہے تھے اور میڈیا پر ان کی سخت ٹرولنگ ہو رہی تھی۔

چیف صاحب دبنگ فیصلے ہی نہیں کر رہے بلکہ ان پر عمل کروانے کے لئے بھی وہ میدان عمل میں اتر چکے ہیں۔ انہوں نے حکومت اور پارلیمان کے مؤقف کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے ریاست کے مرکزی بینک کو حکم جاری کر دیا کہ وہ حکومت کی اجازت کے بغیر ہی الیکشن کے لئے فنڈز جاری کر دیں۔ اب تک تو حکومت عمل داری کو نظرانداز کرتی آئی ہے مگر اب معاملہ براہ راست ریاست کے ملازمین پر آ گیا ہے اور دیکھتے ہیں کہ قانون اور آئین اب ان کو اجازت دیتا ہے کہ وہ حکومت کے احکامات کے برخلاف محض سپریم کورٹ کے کہنے پر یہ فنڈز جاری کر سکتے ہیں یا نہیں۔

مگر حکومتی اور اعلیٰ عدلیہ کے رویوں سے لگتا ہے کہ ان کو اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ ان کے اقدامات سے کیا تاثرات ابھر رہے ہیں۔ ان کو شاید یہ بھی احساس نہیں کہ ان کے پاس اختیارات اس ریاست اور عوام کی امانت ہیں جو کسی بھی وقت ان سے واپس لئے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے اپنی ذمہ داریاں نبھانے کا حلف اٹھایا ہوا ہے۔

یوں تو ہر طرف سے آئینی حکم کی بات ہو رہی ہے کہ الیکشن کے بارے میں آئین واضح ہے۔ اس پر کسی کو بھی کوئی اعتراض نہیں کہ الیکشن 90 دنوں میں ہونے چاہئیں مگر کوئی بھی اپنے رویوں اور نیتوں پر نظر ڈالنے کے لئے تیار نہیں کہ کیا ان کی نیت بھی واقعی آئین کی روح کے مطابق ہے اور فیصلوں میں غیر جانبداری، شفافیت اور برابری کا عنصر بھی موجود ہے یا نہیں۔

جیسا کہ کل ہی وزیر قانون نے اپنی غلطی پر قوم سے معافی مانگی ہے مگر انہوں نے قوم کو یہ نہیں بتایا کہ ان کے اس فعل جس میں غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے محض شرمندگی سے ازالہ چاہتے ہیں کی وجوہات کیا تھیں اور کس کے کہنے پر انہوں نے یہ غیر ذمہ دارانہ غلطی کی جو اصولوں سے ہٹ کر تھی۔ کیا ایک ذمہ دار عہدے پر ہوتے ہوئے ایسی غلطیوں کے بعد اخلاقی طور پر ان کو اپنا کام جاری رکھنا چاہئیے؟

اسی طرح کیا چیف جسٹس صاحب کو الیکشن کروانے کے لئے جس طرح سے بنچز کی تشکیل اور عدالت عالیہ کے ججز کی رائے کو ایک خاص بندوبست کے ذریعے سے فیصلوں سے دور رکھنا اور حکومتی استدعا کو سنے بغیر فیصلے دینا اچھا تاثر دے رہا ہے؟ جس طرح مسلسل سینیئر ترین ججز کو آئینی معاملات سے دور رکھا جا رہا ہے، کیا اس سے عدلیہ کے اندر تقسیم کا تاثر نہیں مل رہا؟ کیا ججز کے اختلافات اور مخصوص سوچ کی بنیاد پر ججز کو بنچز کی تشکیل میں شامل کرنے کا تاثر ادارے کی عزت میں اضافہ کر رہا ہے؟

یہ وہ سوال ہیں جن کا جواب دینے کا وہ شاید اپنے آپ کو پابند نہ سمجھتے ہوں مگر عوامی تشنگی بہرحال اپنی جگہ موجود ہے اور اس سے ابھرتا ہوا تاثر بھی دلوں میں ضرور موجود ہے۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں، عہدے آتے جاتے رہتے ہیں مگر اداروں کا تقدس عزیز ہونا چاہئیے۔ اداروں کا تقدس اداروں میں انتطامی عہدوں پر کام کرنے والوں کے عمل سے عیاں ہوتا ہے۔ وقت گزر جاتا ہے مگر عمل باقی رہ جاتے ہیں اور تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں۔

اگر دوسرے زاویے سے دیکھا جائے تو حکومت کے ساتھ جو رویہ اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے روا رکھا جا رہا ہے اس پر اگر حکومت میں سے کسی کی نااہلی ہوتی ہے یا حکومت کو ایک طرف کر کے عدالت عالیہ اپنے احکام جاری کرتے ہوئے انتظامی امور پر اثرانداز ہوتی ہے تو اس سے حکومت کے اس دعوے کو بھی تقویت ملتی ہے کہ ان کی حکومت کو چلنے نہیں دیا جا رہا اور نہ ہی ان کو آزادی سے کام کرنے دیا جا رہا ہے۔ اس کا حوالہ پنجاب میں حکومت کی تبدیلی سے بھی جا کر ملتا ہے کہ کیسے تحریک انصاف کی حکومت بنوائی گئی اور اب الیکشن کے لئے کوششیں جاری ہیں۔ اس سے یقیناً عوام کی نظروں میں حکومت کی مظلومیت پر ہمدردیاں بھی حاصل ہوں گی اور عوام کی توجہ مسائل سے بھی ہٹی ہوئی ہے۔

جس طرح عمران خان کی حکومت کو ختم کرنا اس کے لیے بہتر ثابت ہوا اسی طرح پھر سے اب اگر موجودہ حکومت کو ہٹایا گیا تو ان کو بھی ضرور ہمدردیاں حاصل ہوں گی اور میں سمجھتا ہوں کہ الیکشن سے پہلے عوامی ہمدردیاں بھی بدل جائیں گی۔