کیا اب سعودی عرب میں نماز کے وقت دکانیں کھلی رہیں گی؟

کیا اب سعودی عرب میں نماز کے وقت دکانیں کھلی رہیں گی؟
جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو کے مطابق سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں اذان ہو رہی ہے لیکن  کنگڈم سینٹر مال یا 'برج المملکة‘ میں کھانے پینے کی متعدد دکانیں کھلی ہیں اور وہ اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک پورے سعودی عرب میں یہ ناقابل تصور بات تھی۔ ماضی میں سعودی عرب کی مذہبی پولیس نماز کے اوقات میں شاپنگ سینٹرز سمیت تمام دکانیں بند کروا دیا کرتی تھی۔

ملکی معیشت کو مستحکم بنانے کے لیے سعودی حکومت نے گزشتہ ماہ اضافی فیس کے عوض کاروبار چوبیس گھنٹے چلانے کی اجازت دی تھی۔ لیکن اس فیصلے کے بعد سے یہ الجھن پیدا ہو چکی ہے کہ اب نماز کے اوقات میں دکانیں وغیرہ بند کرنا پڑیں گی یا نہیں؟ ریاض کے چند مالز میں اسے حکومت کی نئی پالیسی سے تعبیر کیا جا رہا ہے اور وہ اس حساس معاملے میں آخری حدوں تک جا رہے ہیں۔ ریاض کے برج المملکة میں واقع ایک برگر شاپ کے منیجر نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو اپنے سعودی مالک کا وہ پیغام دکھایا، جس میں درج تھا، ''حکومت نے دکانوں، ریستورانوں اور مارکیٹوں کو چوبیس گھنٹے کھلا رہنے کی اجازت دی ہے، جس میں نماز کے اوقات بھی شامل ہیں۔‘‘

https://www.youtube.com/watch?v=eYV6PKKmrqY&t=12s

ڈی ڈبلیو کے مطابق مغرب کی نماز کے وقت برج المملکة میں اس برگر کی دکان کے علاوہ کئی دیگر دکانیں بھی کھلی ہیں اور اپنے گاہکوں کو کھانا فراہم کر رہی ہیں۔ اسی طرح دارالحکومت کے ایک اور النخیل مال میں بھی عشاء کے وقت دکانیں کھلی ہوئی تھیں۔ ان دونوں مالز میں کئی دکاندار ایسے بھی ہیں، جو کاروبار بند کر کے نماز کے لیے گئے ہیں لیکن کئی دکانیں ایسی ہیں، جو ماضی کے برعکس کھلی ہیں۔

یورپین کونسل کے خارجہ امور کی کونسل کے فیلو ایمان الحسین کا کہنا ہے، '' چوبیس گھنٹے دکانیں کھلی رکھنے کے مبہم حکومتی فیصلے کا دکاندار فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ خاص طور پر مذہبی پولیس کی غیرموجودگی میں، جو اس نظام کو نافذ کرنے کی ذمہ دار تھی۔‘‘

فجر کے نماز کے بعد تمام دکانوں کو دن میں چار مرتبہ بند کرنا پڑتا تھا۔ عمومی طور پر ایک نماز کے لیے تیس منٹ تک کاروبار بند رکھا جاتا تھا۔ ایڈوائزی شوریٰ کونسل کے ایک رکن کا کہنا تھا کہ قوانین میں نرمی سے سعودی معیشت کو سالانہ اربوں ریال کا فائدہ ہو گا۔

https://www.youtube.com/watch?v=iuMWEub1V1o

دوسری جانب سعودی حکومت بھی چاہتی ہے کہ ایسی سرگرمیوں میں اضافہ ہو تاکہ نوجوانوں میں بے روزگاری کے مسئلے سے نمٹا جا سکے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان حالیہ چند برسوں میں متعدد اصلاحات متعارف کروا چکے ہیں۔ اس حوالے سے انہیں ملک کے قدامت پسند حلقوں کی شدید مخالفت کا بھی سامنا ہے لیکن وہ اختلاف رائے رکھنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔