چونیاں میں زمیندار ی سے قذافی اسٹیڈیم کے ہیڈ کیوریٹر تک کا سفر

چونیاں میں زمیندار ی سے قذافی اسٹیڈیم کے ہیڈ کیوریٹر تک کا سفر

سال 1986میں چونیاں کے ایک گاؤں میں زمینداری کرنے والے 28 سالہ  نوجوان خان محمد نے قذافی اسٹیڈیم پہلی بار دیکھا تھا۔ خان محمد کو کرکٹ سے لگن توبہت تھی مگر وہ کرکٹ میچ کا احوال صرف ریڈیو پاکستان پر سنتا تھا ۔مگر اب اسے  امید تھی کہ وہ ان قومی ہیروز کو قریب سے دیکھ سکے گا۔ خان محمد کو قذافی اسٹیڈیم میں پچ اور گراؤنڈ کی تیاری کی ذمہ داری مل گئی تھی۔ اب اسے ان میچوں کے لیے پچ تیار کرنا تھی جن کے نتائج جاننے کے لیے وہ کبھی اونچی آواز میں ریڈیو لگا کر گاؤں میں زمینداری کیا کرتا تھا۔61 سالہ خان محمد کا کہنا ہے کہ جب قذافی اسٹیڈیم میں بطور گراؤنڈ سٹاف ممبر بھرتی ہوا تو  یہاں پچ تیار کرنے کے  لیے  صرف 2 ملازم تھے مگر آج جدید دور میں یہاں 20 افراد کام کررہے ہیں۔



قذافی اسٹیڈیم میں 33 سال سے اپنے کام میں مگن رہنے والےخان محمداپنی کئی خاندانی ذمہ داریوں کو کام کی وجہ سے ادھورا چھوڑ چکے ہیں۔ خان محمد اپنے چچا سمیت چند قریبی رشتہ داروں کے جنازوں میں شرکت نہیں کرسکے کیونکہ وہ اس دوران قذافی اسٹیڈیم میں گراؤنڈ کی دیکھ بھال کرنے میں مصروف تھے۔ کرکٹ سیزن کے شروع ہوتےہی خان محمد صبح صادق کے وقت  قذافی اسٹیڈیم پہنچ جاتے ہیں۔ اگر میچ چل رہا ہو تو انہیں گھرواپسی بھی رات گئے کرنا پڑتی ہے۔ خان محمد کا کہنا ہے کہ قذافی اسٹیڈیم میں بطور گراونڈسٹاف ممبر کام کرنا ایک اعزاز ہے۔ یوں تو ہم موسم کی پیش گوئی دیکھ کر پچ اور گراونڈ کی تیاری کرتے ہیں مگر بے موسم بارش، آندھی اور طوفان کے لیے بھی تیار رہتے ہیں۔ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ رات کی تاریکی میں بھی  پچ کو بارش سے بچانے کے لیے یہاں رکنا پڑ ا۔


خان محمد نے کہا کہ جب سے قذافی اسٹیڈیم آیا ہوں اسے اپنا گھر سمجھتا ہوں۔ یہ گراؤنڈ میری کھیتی ہے اور مجھے اپنی کھیتی سے بہت پیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ  بستر پر لیٹا بھی یہی سوچتا رہتا ہوں کہ اگلے دن گراؤنڈ میں کیا کام اور کیسے کرنا ہے۔ قذافی اسٹیڈیم میں میچ یا کیمپ کے دوران  ہم 16 پچز پر مشتمل اپنے اسکوائر کو غروب آفتاب سے قبل ڈھانپ دیتے ہیں۔ اس دوران ہم 3 سے 4 لوگ رات بھر یہاں ہی رہتے ہیں تاکہ موسم کی بدلتی رت کی صورت میں ہمہ وقت تیار رہیں۔ خان محمد نے بتایا کہ ایک رات شدید طوفان کے باعث پچ پر پڑا منوں وزنی   کوورہوا کے  ساتھ اڑ کر گراؤنڈ کے باہر چلا گیا تھا۔ جس کے باعث اگلے روز پی آئی اےاور حبیب بنک کے درمیان جاری ڈومیسٹک میچ  تاخیر سے شروع کرنا پڑا ۔


پاکستان سپر لیگ کے تیسرے ایڈیشن کے قذافی اسٹیڈیم میں شیڈول کراچی کنگز اور پشاور زلمی کے درمیان پلے آف میچ سے قبل شدید بارش نے میچ کے انعقاد کو بھی دھندلا دیا تھا تاہم یہ بات چند لوگ ہی جانتے ہیں کہ طوفانی بارش کے باوجود میچ کے کامیاب انعقاد کا سہرا خان محمد کے سر سجتا ہے۔ خان محمد کا کہنا ہے کہ بارش اس قدر تیز ہورہی تھی کہ براڈ کاسٹرز نے میچ کے انعقاد کو ناممکن قرار دے دیا تھا مگر چیف کیوریٹر آغا زاہد نے بورڈ کے اعلیٰ حکام سے درخواست کی۔ ہماری تجویز پر 2 ہیلی کاپٹرز گراؤنڈ سے پانی سکھانے کے لیے لائے گئے۔ جس کے بعد گراؤنڈ اسٹاف میں شامل تمام اراکین نے ایک ناممکن کام کو ممکن کر دکھایا۔ اس اہم میچ کے کامیاب انعقاد اور ان کے بہترین کیرئیر کے پیش نظر پاکستان کرکٹ بورڈ نے خان محمد کے کنٹریکٹ میں ایک سال کی توسیع کر دی تھی۔


1996 ورلڈکپ کی یاد تازہ کرتے ہوئے خان محمد کا کہنا تھا کہ ایونٹ کے فائنل میچ کے دوران بارش کی پیشگوئی تھی۔ جوں جوں میچ اختتام کو پہنچ رہا تھا ہماری نظریں آسمان پر پھیلے کالے بادلوں پر جمنے لگی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم کوورز ہاتھ تھامے باؤنڈری لائن پر کھڑے صرف یہ دعا کررہے تھے کہ میچ مکمل ہوجائے اور شائد ہماری دعا قبول ہوگئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جیسے ہی سری لنکن کرکٹ ٹیم کے کپتان رانا ٹنگا نے فاتحانہ رنز بنائے توساتھ ہی تیز بارش شروع ہوگئی ۔ اب گراؤنڈ اسٹاف پچ کو کوور کرچکا تھا اور کھلاڑی ڈریسنگ روم  میں پہنچ گئے تھے۔



61 سالہ خان محمد 1987ء اور 1996 کے ورلڈکپ کے لیے پچز کی تیاری کرچکے ہیں۔ خان محمد کا کہنا ہے کہ ہمارے لیے بیٹنگ یا بولنگ کے لیے سازگار پچ بنانے میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ دونوں پچز کی تیاری ایک ہی جیسی ہے۔ پچ پر گھاس چھوڑ دیں تو بولرز کو مدد ملے گی پھر اس سے جیسے جیسے گھاس ختم کرتے جائیں گے وہ بیٹسمین کے لیے سازگار ہوتی جائے گی۔ ان کاکہنا ہے کہ سیزن سے 3 ہفتے قبل ہم اسکوائر تیار کرلیتے ہیں۔ پہلے میچ سے 4 روز قبل پچز تیار کرلی جاتی ہیں اور پھر آخری وقت تک اس کی دیکھ بھال کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔


  خان محمد نے کہاکہ گراؤنڈ اسٹاف میدان میں اترنے والی دونوں ٹیموں کے لیے یکساں پچ کی تیاری کرتا ہے۔ جہاں ایک ہی میچ میں کوئی کھلاڑی سنچری اسکور کرتا ہے تو کوئی صفر پر آؤٹ ہوجاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انضمام الحق کی نیوزی لینڈ کے خلاف قذافی اسٹیڈیم میں 329 رنز کی اننگز میں کبھی نہیں بھول سکتا جبکہ  اسی میچ میں نیوزی لینڈ کی پوری ٹیم ایک اننگز میں محض 73 رنز پر بھی آؤٹ ہوگئی تھی۔ اسی طرح گگلی ماسٹر عبدالقادر کی 1987ء میں انگلینڈ کے خلاف ایک اننگ میں 7 وکٹیں بھی خان محمد کی حسین یادوں میں سےایک ہے۔ اس اننگ میں عبدالقادر نے 6 کھلاڑیوں کو ایل بی ڈبلیو آؤٹ کیا تھا.