'آرمی چیف DG ISI، DGC اور چاروں سیکٹر کمانڈرز کو ہٹائیں؛ عمران خان'

آرمی چیف کے جواب پر عمران خان برہم ہو گئے اور کہا کہ میں تو پہلے ہی کہتا تھا کہ یہ مخلص نہیں ہیں، صرف وقت لینا چاہتے ہیں تا کہ مجھے نشانہ بنا سکیں۔ اب میں ان کو نہیں چھوڑوں گا۔ اس کے بعد انہوں نے فوج مخالف مہم جاری رکھی جس کا نتیجہ 9 مئی کے احتجاج، جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کے واقعات کی صورت میں نکلا۔

'آرمی چیف DG ISI، DGC اور چاروں سیکٹر کمانڈرز کو ہٹائیں؛ عمران خان'

جنرل عاصم منیر نے بطور آرمی چیف جب عہدے کا چارج سنبھالا تو پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے مطالبہ کیا تھا کہ اگر وہ پی ٹی آئی کے ساتھ معاملات ٹھیک کرنے میں واقعی مخلص ہیں تو اعتماد سازی کے اقدامات کے طور پر ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم، آئی ایس آئی کی جانب سے تعینات ڈی جی سی میجر جنرل فیصل نصیر اور چاروں سیکٹر کمانڈرز کو عہدوں سے ہٹا دیں۔ یہ انکشاف کیا ہے صحافی اسد علی طور نے۔

یوٹیوب پر اپنے حالیہ وی-لاگ میں مذکورہ قصے کی تفصیل سناتے ہوئے اسد علی طور نے بتایا کہ آرمی چیف بننے کے بعد جنرل عاصم منیر جب ملاقات کے لیے صدر عارف علوی کے پاس ایوانِ صدر گئے تو اس موقع پر صدر عارف علوی نے آرمی چیف سے کہا تھا کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ کی اور عمران خان کی ملاقات ہو، جو بھی گلے شکوے ہیں دور ہو جائیں اور ایک ورکنگ ریلیشن شپ قائم ہو جائے۔

جنرل عاصم منیر چونکہ جانتے تھے کہ عمران خان نے ان کے آرمی چیف بننے کے خلاف بھرپور مہم چلائی تھی، اس کے باوجود انہوں نے اس تجویز پر جواب دیا کہ آپ عمران خان صاحب سے کہیں کہ میرے بارے میں اپنے دل میں موجود غلط فہمیوں کو دور کر لیں۔ ان کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا، اس میں میرا کوئی کردار نہیں۔ جس وقت انہیں اقتدار سے نکالا گیا اس وقت میں آرمی چیف تھا اور نا ہی ڈی جی آئی ایس آئی یا ڈی جی ایم آئی تھا۔ میرے پاس کوئی بھی ایسی کنٹرولنگ پوزیشن نہیں تھی کہ میں عمران خان کے خلاف کسی قسم کی سازش کر سکتا یا اس کو عملی جامہ پہنا سکتا۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ ان تمام چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے عمران خان مجھے کچھ وقت دیں۔ کچھ عرصہ مجھے اور فوج کو نشانہ نہ بنائیں اور ہمیں کام کرنے دیں۔ میں سیٹل ہو جاؤں اور فوج کی پالیسی پر تھوڑا غور و خوض کر لوں۔ پھر میں اپنے وژن کے مطابق فوج کو لے کر چلوں گا اور ادارے کے مفاد کے مطابق جو بہتر لگے گا اس کے مطابق پالیسی بناؤں گا۔ جب حالات بہتر ہوں گے، معاملات کنٹرول میں ہوں گے تو میں عمران خان سے ملاقات بھی کروں گا اور اس ملاقات کا اگر عمران خان اچھا رسپانس دیں گے تو ورکنگ ریلیشن بھی قائم ہو جائے گا۔

آرمی چیف سے ملنے کے بعد صدر عارف علوی نے عمران خان سے ملاقات کی۔ فوج کا پیغام ان کے گوش گزار کیا۔ عمران خان نے جواب دیا کہ آرمی چیف سے کہیں کہ اگر جنرل عاصم منیر اپنے بیان میں مخلص ہیں تو اعتماد سازی کے اقدامات کے طور پر ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم، آئی ایس آئی کی جانب سے تعینات ڈی جی سی میجر جنرل فیصل نصیر اور چاروں سیکٹر کمانڈرز کو عہدوں سے ہٹا دیں۔ اس کے بعد میں سمجھوں گا کہ وہ واقعی مخلص ہیں۔ ایسا ہو جاتا ہے تو پھر میں انہیں اور فوج کو نشانہ بنانا بند کر دوں گا اور انہیں اتنا وقت دے دوں گا کہ وہ اپنی پالیسی بنا لیں۔ ان مطالبات سے کم پر میں کسی صورت نہیں مانوں گا۔

صدر عارف علوی نے عمران خان کا یہ پیغام آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو پہنچایا جس پر جواب آیا کہ کسی سیاست دان کے کہنے پر ادارے میں تبادلے اور تقرریاں نہیں کریں گے۔ ہم اپنے ادارے کے مفاد کے مطابق اور مناسب وقت پر تبادلے اور تقرریاں کریں گے۔ عمران خان جن افسران کو ہٹانے کی بات کر رہے ہیں وہ اپنی مدت ملازمت ختم ہونے کے بعد مقررہ وقت پر ہی اپنے عہدوں سے ٹرانسفر یا ریٹائر ہوں گے۔

آرمی چیف کے جواب پر عمران خان برہم ہو گئے اور کہا کہ میں تو پہلے ہی کہتا تھا کہ یہ مخلص نہیں ہیں، صرف وقت لینا چاہتے ہیں تا کہ مجھے نشانہ بنا سکیں۔ اب میں ان کو نہیں چھوڑوں گا۔ اس کے بعد انہوں نے فوج مخالف مہم جاری رکھی جس کا نتیجہ 9 مئی کے احتجاج، جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کے واقعات کی صورت میں نکلا۔

'الیکشن لڑنے دیں، پی ٹی آئی فوج کے خلاف ایک لفظ نہیں بولے گی'

اس کے علاوہ اسد علی طور نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ پی ٹی آئی کی جو حالت ہو چکی ہے اس کے پیش نظر پی ٹی آئی کی جانب سے فوج کے ساتھ صلح کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ذرائع کے مطابق حال ہی میں پی ٹی آئی کے بعض رہنماؤں کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے کیے گئے ہیں اور ان کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ کو کچھ یقین دہانیاں کرائی گئی ہیں تا کہ اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی کو الیکشن لڑنے سے نہ روکے۔

پارٹی کی مرکزی قیادت میں سے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان، نائب چیئرمین شاہ محمود قریشی اور پارٹی صدر چودھری پرویز الہیٰ اس وقت جیل میں ہیں۔ دوسرے درجے کی لیڈرشپ میں اسد عمر اور اسد قیصر کا پارٹی میں ہونا نہ ہونا ایک برابر ہے۔ شیریں مزاری، علی زیدی، عمران اسماعیل، فواد چودھری اور پرویز خٹک جیسے رہنما پہلے ہی پارٹی چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ ان کے بعد جو لیڈرشپ بچتی ہے اس میں حماد اظہر، مراد سعید، شہریار آفریدی، علی محمد خان جیسے لوگ شامل ہیں جن میں سے حماد اظہر اور مراد سعید تو روپوش ہیں جبکہ باقی دو کی 'زبان بندی' کروائی جا چکی ہے۔

اس کے بعد پارٹی میں صداقت عباسی جیسے رہنما بچتے ہیں جن کے بارے میں ذرائع کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں انہوں نے فوج کے ساتھ رابطے کیے ہیں اور فوج کو پیغام بھجوائے ہیں جن میں انہوں نے فوج کو کچھ گارنٹیز آفر کی ہیں۔ صداقت عباسی نے کہا ہے کہ براہ مہربانی پی ٹی آئی کو الیکشن لڑنے کے لیے انتخابی مہم چلانے دیں، عمران خان کو رہا کر دیں اور پی ٹی آئی کے خلاف کریک ڈاؤن ختم کر دیں۔ اس کے بدلے میں ہم آپ کو گارنٹی دیتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی انتخابی مہم فوج کے خلاف نہیں ہو گی۔ عمران خان جنرل عاصم منیر اور فوج کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں بولیں گے۔ کسی بھی طرح، ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ، فوج کے خلاف کوئی بات نہیں کریں گے اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ہونے والی زیادتیوں کا بھی تذکرہ نہیں کریں گے۔ پی ٹی آئی کی انتخابی مہم صرف اور صرف مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے خلاف ہو گی اور جو بھی انتخابی نتائج ہوں گے، خواہ ہمیں کم نشستیں ملیں یا ہم ہار جائیں، ان کو تسلیم کریں گے۔