”رانا ثناء اللہ کو عمران خان یا شہریارآفریدی نے نہیں بلکہ ان کی اپنی ہی جماعت کی ایک انتہائی اہم شخصیت نے گرفتار کروایا“

لاہور ہائیکورٹ کی یہ آبزرویشن بالکل درست ہے کہ مخالفین سے سیاسی انتقام ہمارے ملک کا کھلا راز ہےالبتہ ہر دور میں سیاسی انتقام کے انداز و اطوار بدل جاتے ہیں۔ پہلے بھینس چوری کے مقدمات سے کام چلالیا جاتا تھا مگر اب سیاسی لوگوں کو ہیروئن اور ایفی ڈرین کے مقدمات میں اُلجھا دیاجاتا ہے۔ یادش بخیر اس سے پہلے مسلم لیگ(ن)کے رہنما حنیف عباسی کو بھی ایفی ڈرین کیس میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی مگر لاہور ہائیکورٹ نے انہیں سنائی گئی سزا معطل کرتے ہوئے ضمانت پر رہا کر دیا۔


کالم نگار بلال غوری نے اپنے کالم میں انکشاف کیا ہے کہ رانا ثنااللہ کی گرفتاری پر حسب روایت وزیراعظم عمران خان کو مطعون کیا جا رہا ہے یا پھر وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی پر تنقید ہو رہی ہے ۔وزیر مملکت شہریار آفریدی نے تو اس معاملے میں آبیل مجھے مار کے مصداق توپوں کا رُخ ازخود اپنی طرف کیا ہے مگر میرا خیال ہے کہ رانا ثنااللہ جیسے سچے اور کھرے انسان کو پورا سچ بیان کرنا چاہئیے۔

پورا سچ یہ ہے کہ انہیں عمران خان یا شہریارآفریدی نے نہیں بلکہ ان کی اپنی ہی جماعت کی ایک انتہائی اہم شخصیت نے گرفتار کروایا۔بات دراصل یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن)کے قائد میاں نوازشریف کسی صورت علاج کیلئے بیرون ملک جانے پر رضامند نہیں ہو رہے تھے۔ جب بھی انہیں قائل کرنے کی کوشش کی جاتی ،رانا ثنااللہ حائل ہوجاتے اور یہ کوششیں ناکام ہو جاتیں۔ کچھ عرصہ بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ جب تک رانا ثنااللہ کو نوازشریف کیساتھ ملنے سے نہیں روکا جاتا، بیرون ملک جانے کا معاملہ منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکتا۔

یوں اس اہم ترین شخصیت کی طرف سے مطالبہ کیا گیا کہ رانا ثنااللہ کو کسی ایسے مقدمے میں گرفتار کیا جائے کہ وہ فوری طور پر باہر نہ آسکیں۔یوں رانا ثنااللہ کو دھرلیا گیا اور پھر نوازشریف کو بیرون ملک جانے پر رضامند کرلیا گیا ۔مقدمہ ثابت کرنے کی سنجیدہ کوشش اس لئے نہیں کی گئی کہ مقصد رانا ثنااللہ کو سزا دلوانا نہیں بلکہ کچھ عرصہ کیلئے جیل میں رکھنا تھا۔ جب نوازشریف بیرون ملک چلے گئے اور سارے معاملات طے پا گئے تو رانا ثنااللہ کی طرف سے لاہور ہائیکورٹ میں ضمانت کی درخواست دائر کردی گئی اور کمزور شواہد کے پیش نظر وہ رہا ہوگئے۔