عمران خان کے خلاف سائفر کیس کا ٹرائل روک دیا گیا

جسٹس گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ سائفر ٹرائل جس طریقےسے ہو رہا ہے اس پر فکر مند ہوں۔سائفر ٹرائل کو جلد بازی میں چلایا جارہا ہے۔ اوپن سماعت کی اہمیت خصوصی عدالت کے جج پر واضح  ہے نہ ہی پراسیکیوٹر پر،سائفر ٹرائل اپنی نوعیت کا پہلا ٹرائل ہے۔ دیکھنا ہو گا کہ اس طرح کے کیسز میں آرٹیکل 10اے کے تحت فیئرٹرائل کا حق ملا یا نہیں۔

عمران خان کے خلاف سائفر کیس کا ٹرائل روک دیا گیا

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم اور بانی پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) عمران خان  کے خلاف سائفر کیس کا ٹرائل روک دیا۔
سائفر کیس میں ٹرائل کورٹ کے 12 دسمبر کے حکم نامے کے خلاف بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی درخواست پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سماعت کی۔ عدالت نے سائفر کیس کا ٹرائل 11جنوری تک روک دیا۔

دوران سماعت اٹارنی جنرل نے کہاکہ سائفر کیس میں 25گواہان کے بیانات قلمبند ہو چکے ہیں۔سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ بہت سے گواہان کے بیان اس عدالت کے فیصلے کے بعد ریکارڈ ہوئے۔جج نے کہاکہ میں خود کو اس عدالت کے سائفر ٹرائل کے خلاف پچھلے کیس کی کارروائی سے لاتعلق نہیں کر سکتا۔

جسٹس گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ سائفر ٹرائل جس طریقےسے ہو رہا ہے اس پر فکر مند ہوں۔ عدالت نے کہاکہ یہ بات سمجھتے ہیں جج نے جلد سماعت اس لئے کی کہ انہیں ٹرائل جلد مکمل کرنے کا حکم  ہے۔ 

اٹارنی جنرل نے کہاکہ کیس میں 15دسمبر کو 2گواہان پر جرح ہوئی۔استغاثہ نے عدالت کے حکم کے بعد 10گواہان پر جرح نہیں کی۔ 21دسمبر کو جب 13گواہان کے بیانات ریکارڈ ہوئے تو پریس کا باہر نکال دیا گیا تھا۔ 21دسمبر کے بعد 12مزید گواہان کے بیانات ریکارڈ کئے گئے۔ 21دسمبر کے بعد 12گواہان کے بیانات اوپن کورٹ میں میڈیا کے سامنے ریکارڈ ہوئے۔ 

وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ اٹارنی جنرل کا یہ بیان درست نہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ عدالت نے 14دسمبر کو کہا اگر استغاثہ درخواست کرے کہ ٹرائل ان کیمرا ہو توکیا جائے گا۔ عدالت نے کہاکہ خصوصی عدالت کے جج کو ہر سماعت پر ٹرائل اوپن کرنے کا حکم دینا چاہیے تھا۔ اوپن ٹرائل کیا ہے یہ واضح کر چکے ہیں۔ صرف فیملی اور چند اور لوگوں کے آنے کا مطلب  اوپن ٹرائل نہیں ہوتا۔ اوپن ٹرائل میں جو چاہے آ سکتا ہے۔ 

اٹارنی جنرل نے کہاکہ  میڈیا کو اجازت ہے کہ جو چاہے آ سکتا ہے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ ایسے نہیں ہوتا اس پر باقاعدہ آرڈر ہونا چاہیے۔ کیا جرح میڈیا کی موجودگی میں کی گئی؟ اٹارنی جنرل نے کہاکہ جن 3افراد کی جرح ہوئی وہ سائفر کی کوڈ، ڈی کوڈ سے متعلق تھے۔ سائفر سے متعلق سیکرٹری خارجہ کا بیان بھی ان کیمرا ہوگا۔ 23دسمبر کے بعد گواہان کے بیانات میڈیا کی موجودگی میں ریکارڈ ہوئے۔ عدالت نے کہاکہ اپنے فیصلے میں ان کیمرا ٹرائل کا سمجھایا تھا کہ یہ ہوتا ہے تو کیوں نہیں سمجھتے؟

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ سائفر ٹرائل کو جلد بازی میں چلایا جارہا ہے۔ اوپن سماعت کی اہمیت خصوصی عدالت کے جج پر واضح  ہے نہ ہی پراسیکیوٹر پر،سائفر ٹرائل اپنی نوعیت کا پہلا ٹرائل ہے۔ دیکھنا ہو گا کہ اس طرح کے کیسز میں آرٹیکل 10اے کے تحت فیئرٹرائل کا حق ملا یا نہیں۔

جسٹس گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ نے ضمانت دی تو ان کے سامنے کیا حقائق تھے؟اٹارنی جنرل نے کہاکہ سپریم کورٹ کے سامنے 13گواہان کے بیانات تھے۔سپریم کورٹ ضمانت کا معاملہ دیکھ رہی تھی۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ بس اب میری وضاحت ہو گئی۔ سپریم کورٹ نے کہاکہ ان کے سامنے ضمانت  نہ دینے کیلئے کافی مواد نہیں۔

عدالت نے سائفر کیس میں فرد جرم عائد کرنے کے خلاف درخواست پر وفاق کو نوٹس جاری کردیا اور عمران خان کے وکیل کو ہدایت کی کہ آئندہ سماعت پر سائفر ٹرائل سے متعلق تمام ضروری دستاویزات جمع کرائیں۔ 

اس موقع پر ایف آئی اے پراسکیوٹر رضوان عباسی نے کمرہ عدالت میں ہی نوٹس وصول کیا۔

عدالت نے بانی پی ٹی آئی کے وکیل کی سائفر ٹرائل پر حکم امتناع دینے کی استدعا منظور کرلی اور ٹرائل11  جنوری تک روکنے کا حکم جاری کردیا۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔